سیلاب اور کرپشن: کعبہ کس منہ سے جاﺅ گے غالب؟
محمد فہیم
اگست کے آخری ہفتے میں ہونے والی بارشوں کے بعد دریائے سوات نے چترال سے شروع ہوتے ہوئے چترال، سوات، چارسدہ، نوشہرہ اور صوابی کو شدید نقصان پہنچایا لیکن تمام میڈیا کی نظریں پہلے بلوچستان اور بعد ازاں سوات اور نوشہرہ پر مرکوز ہو گئیں۔
یہ تباہی صرف ان علاقوں میں نہیں آئی بلکہ خیبر پختونخوا کے 35 میں سے 32 اضلاع متاثر ہوئے تھے اور تباہی ٹانک، ڈی آئی خان، بنوں اور دیگر جنوبی اضلاع میں بھی پھیلی تھی تاہم وہاں میڈیا کا کیمرہ نہ پہنچ سکا اور دنیا اس سے بے خبر رہی۔
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے سیلاب کی تباہی سے متعلق تیار کی جانے والی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں سیلاب کی تباہ کاریوں میں 306 افراد جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ گھروں کی چھتیں گرنے اور دیگر حادثات میں 369 شدید زخمی ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق صوبے میں مجموعی طور پر 6 لاکھ 74 ہزار 318 افراد کو اپنا گھر چھوڑنا پڑا کیونکہ صوبے کے طول و عرض میں 37 ہزار 525 گھر مکمل طور پر جبکہ 53 ہزار 938 جزوی طور پر تباہ ہوئے تھے؛ ایک ہزار 458 سکول، ایک ہزار 93 واٹر سپلائی سکیمیں متاثر ہوئیں، 964 سڑکیں، 107 پل، 256 مراکز صحت، 477 واٹر ٹینک، 2 ہزار 42 واٹر چینلز، 172 ٹیوب ویل، اور ایک ہزار 575 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہوئیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ایک لاکھ 7 ہزار 220 ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں متاثر اور 6 ہزار 577 مویشی ہلاک ہوئے، جبکہ صوبے کو ان سب کی بحالی کیلئے 179 ارب 93 کروڑ روپے سے زائد درکار ہیں۔
یہ بڑی رقم پوری کرنا اس صوبے کی حکومت کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیونکہ صوبائی حکومت اس وقت ملازمین کی تنخواہیں پوری نہیں کر سکتی تو یہ اضافی اخراجات کیسے پورے کرے گی۔
ساتھ ہی ساتھ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس وقت تمام حکومتیں الیکشن کے سال میں داخل ہو چکی ہیں، اگست میں موجودہ اسمبلیوں کے چار سال مکمل ہو گئے اور عملی طور پر اب ان اسمبلیوں کے پاس صرف 8 ماہ سے بھی کم عرصہ باقی رہ گیا ہے لہٰذا منتخب ارکان کی تمام تر توجہ اپنے حلقوں پر ہے ایسے میں ترقیاتی فنڈز پر کٹ نے صوبائی حکومت کیلئے کئی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔
صوبائی حکومت ایک جانب تو ان مالی مشکلات میں گھری ہوئی ہے تو دوسری جانب حکومتی ارکان پی ٹی آئی ورکرز ہونے کا حق بھی ادا کر رہے ہیں۔ عمران خان کی سیاسی جنگ کا سامان صوبائی حکومت ہی فراہم کر رہی ہے اور گورنمنٹ تو موجود ہے تاہم گورننس کا فقدان نظر آ رہا ہے۔
تقریباً 4 ماہ بعد بھی ڈی آئی خان، ٹانک، لکی مروت اور چترال سمیت کئی اضلاع میں سیلاب متاثرین تک حکومت کی رسائی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔
وفاقی حکومت نے بھی کئی وعدے کئے، وزیر اعظم نے سوات میں 10 ارب روپے سیلاب متاثرین کیلئے دینے کا وعدہ کیا لیکن وہ بھی سیاست کی نذر ہو گیا۔
مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کی پنجاب کے میدانوں کی لڑائی خیبر پختونخوا کے پہاڑوں میں اب لڑی جا رہی ہے؛ صوبے میں پی ٹی آئی مخالف جماعتیں بھی مسلم لیگ کا ساتھ دے رہی ہیں، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر صوبے میں اپوزیشن جماعتیں اس وقت وفاق سے صوبے کا حق مانگنے کو تیار نہیں کیونکہ یہ حق ملنے کے بعد اسے خرچ کرنے کا اختیار پی ٹی آئی کی حکومت کو حاصل ہو گا۔
اس جنگ میں ایندھن بننے والے خیبر پختونخوا کے عوام خاموشی سے صرف عرش والے کی امداد کے ہی منتظر ہیں؛ سیلاب متاثرہ علاقوں میں بیشتر میں متاثرین نے خود ہی تعمیر و مرمت کا کام شروع کر دیا ہے، اپنے وسائل استعمال کئے جا رہے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے اب جو رقم منظور اور فراہم کی جائے گی وہ ان اضلاع میں تعینات بیوروکریسی اور منتخب ارکان کی جیبوں میں ہی جائے گی۔
ملک میں جاری کرپشن کا بازار اس حد تک گرم ہو گیا کہ سیلاب متاثرین کے پاﺅں میں پہننے کو چپل نہیں ہیں لیکن اسی سیلال متاثرہ ضلع میں ایک پٹواری، ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر اور دیگر سرکاری ملازمین 4×4 گاڑی سے کم میں سفر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ جو خرچ اس سرکاری مشینری کو چلانے پر ہو رہا ہے اور ان کرپٹ سرکاری ملازمین کی جیبیں بھرنے کیلئے ہو رہا ہے یہ واضح کرتا ہے کہ خوف خدا اب نہیں رہا؛ نہ تو یہ رشوت لینے والوں کو یاد ہے کہ نبی کریمﷺ کی حدیث میں کیا کہا گیا اور نہ انہیں رشوت دینے والوں کو اس بات کی فکر ہے۔
سیلاب متاثرین کی بحالی کے منصوبے بھی 50 فیصد سے زائد کمیشن کی نذر ہوں گے اور کمیشن کچھ اور نہیں بلکہ وہی رشوت ہے جس کو دینے اور جسے وصول کرنے والے کو نبی کریمﷺ نے جہنمی قرار دیا تھا۔
سیلاب متاثرین تو پھر بھی جیسے تیسے کر کے اللہ کے کرم سے بحال ہو جائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ سیلاب متاثرین کا مال کھانے والے اور اپنے کیلئے جہنم کا بندوبست کرنے والے کعبہ کس منہ سے جائیں گے؟ کیونکہ سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی کے مصداق یہی لوگ ہی پھر حج اور عمرہ ادا کرتے نظر آتے ہیں، عام مشاہدہ تو یہی ہے!