پاکستانی ڈرامہ دیکھ کر غریب کی حسرتوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے
ارم رحمٰن
ایک وقت تھا جب ٹیلی ویژن سب سے زیادہ موثر اور ذمہ دار ذریعہ ابلاغ سمجھا جاتا تھا؛ شام کے وقت تلاوت قرآن پاک سے آغاز ہوتا، پھر دوسرے پروگرام اور 8 بجے ایک بہترین مصنف اور ڈائریکٹر کا ڈرامہ نشر کیا جاتا، 9 بجے سارے دن کی اہم خبریں بہت عمدہ انداز میں نفیس نیوز ریڈرز سنایا کرتے، خواتین دوپٹے کا اہتمام کیا کرتیں، سادہ اور سنجیدہ، رات کا آخری پروگرام پاکستان کا ترانہ ہوتا تھا، سارے پروگرام فلاح عامہ پر مبنی ہوتے اور معاشرتی اصلاح کے نقطہء نظر سے پیش کیے جاتے۔
وقت بدلا، چینل کھلتے رہے، ایک ایسی دوڑ لگی کہ پھر چینلز کی بھرمار ہونے لگی۔ کیبل اور ڈش کا استعمال شروع ہوا۔ 80 کی دہائی میں خواتین مصنفہ نے بہت بہتر کارکردگی دکھائی، بہت اچھا ڈرامہ لکھا گیا، بہترین ڈائریکشن، اداکاراؤں اور اداکاروں کا انتخاب بھی بہت سوچ سمجھ کر کیا جاتا، حسینہ معین اور فاطمہ ثریا بجیا کی ہیروئن معاشرے کی روشن خیالی کا مظہر نظر آتیں، ان کی ہیروئنز مضبوط کردار اور بہت بہادر مگر شوخ و چنچل خواتین ہوا کرتیں جو مشکلات کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں اور معاشرے کی جوان کم بچیوں کو اکثر عمدہ باتیں سیکھنے کو ملتیں اور اختتام بھی "جیسے کو تیسا ملا کرتا،” برائی کا انجام واقعی دل کو چھو جاتا اور عبرت ناک ہوا کرتا، انور مقصود صاحب اور کمال رضوی، انکل سرگم جناب فاروق قیصر صاحب کے طنز و مزاح پر مبنی تحریریں، تعلیم یافتہ اور سیاست سے لگاؤ رکھنے والے لوگوں کے دلچسپی طبائع کا سامان تھیں۔
ایک خاص طبقہ اداکاری کیا کرتا، جو ذہنی بالغ اور معاشرے میں انٹیلیکچوئلز کہلاتے یا پھر شدید جدت پسند اور مغربی روایت سے متاثر کہ عورت مرد سب کو کام کرنے اور اپنے آپ کو منوانے کے یکساں مواقع ملنے چاہئیں لیکن پھر بھی بہت اچھے گھرانوں کے لوگ شاذونادر ہی اداکاری کے شعبے میں ملتے۔ اکثر خواتین ایک بدنام علاقے کو چھوڑ کر ہی فلموں ڈراموں کا رخ کیا کرتی تھیں کیونکہ اس وقت ان کے لیے یہ بہتر آپشن تھا۔
پھر آغاز ہوا طوفان بدتمیزی کا، ہر طرح کے لوگ اداکاری کے شعبے میں آنے لگے، لوگوں کے پاس اداکاری کی تعلیم اور تربیت نہیں ہوتی لیکن دوسروں کی دیکھا دیکھی اور وقتی چمک دمک اور شوبز کی گلیمر اور چکاچوند سے متاثر ہو کر اعتماد سے اداکاری میں اپنی قسمت آزمانے چلے آتے ییں، اور اس قدر چینلز ہیں اور بے شمار ڈراموں میں ان جنونیوں کو کہیں نہ کہیں کوئی کردار ادا کرنے کا موقع مل ہی جاتا ہے اور بخوشی خود کو سکرین پر دیکھنے کے بخوشی کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈراموں کا گلیمر اس قدر بڑھ گیا ہے کہ فلموں کی کمی بھی آج کل کے ڈراموں نے پوری کر دی، لش پش اور پورے ٹشن کے ساتھ کوٹھی بنگلے، خوبصورت ہیرو ہیروئن، گاڑیاں، کپڑے، میک اپ، جیولری، کروڑوں اربوں روپے سے کم کی بات نہیں ہوتی، اور ایسے ڈرامے دیکھ کر غریب لوگوں کی حسرتوں اور دکھوں میں محض اضافہ ہی ہوتا ہے۔
کچے ذہن کی کم عمر لڑکیاں ہر وقت کسی ایسے خوبرو کم عمر کروڑ پتی جوان کے خواب دیکھنے لگتی ہیں اور لڑکے بھی کسی طرح یہ سب عیش و عشرت کی زندگی حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ لڑکی بھی خوبصورت اور امیر ملے اور بنا محنت کے کروڑ پتی بن جائیں۔
ایک اور درد ناک پہلو کہ مردوں کا کردار بالکل ثانوی بن کر رہ گیا جو بظاہر گھر کے سربراہ ہیں مگر چند مخصوص اور محدود کردار، ان کے چہرے پر کچھ تاثرات آتے ہیں یا ایک دو ڈائیلاگ ہی بولنے ہوتے ہیں، ان کا کام محض اپنی بیوی، بیٹی یا بہو کی چالاکی اور سازش کو جاننے کے باوجود خاموش رہنا ہے۔ کیمرہ چہرے پر آتے ہی بس عجیب سا تاثر دینا اور ہاتھ میں پکڑا چائے کا کپ یا اخبار ناشتے یا کھانے کی میز پر چھوڑ کر چلے جانا یعنی گھر کا سربراہ کٹھ پُتلی بنا ہوا ہے۔
ڈرامے میں بہو، ساس، نند یہ ہی اہم کردار ہوتے ہیں، کہیں بہو تیز طرار کہیں ساس یا نند، پھر جیٹھانی اور دیورانی وغیرہ پھر ان سب کی عمروں میں فرق بہت کم ہوتا ہے اور اگر فرق دکھایا بھی گیا ہے تو میک اپ، کپڑے اور جیولری ایسی ہوتی ہے کہ جیسے کسی شادی میں جانے کے لیے تیار ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ بہو یا ساس میں سے کون زیادہ فیشن زدہ ہے، صبح ناشتے کا منظر ہو یا رات سونے کا اتنا بن ٹھن کر رہنا بالکل غیرحقیقی لگتا ہے۔
ناشتے کی میز پر یہ پیلے رنگ کا جوس جگ میں بھرا ہوتا ہے جو پھر گلاس میں انڈیلنے کے بعد ہمیشہ تھوڑا سا چکھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس طرح ہر کھانے کے سین میں کھانے کا پلیٹوں میں چھوڑ دینا کھانے کا شدید زیاں دکھایا جاتا ہے۔
ڈراموں میں عورت کی عقلمندی کا تقاضا صرف ماہر گھریلو سیاست اور کامل فسادی قیادت کا ہونا قرار دیا جا چکا ہے۔ عورت کا باشعور اور سمجھدار ہونا الگ بات ہے جبکہ سازشی ڈرامے باز اور مردوں کو قابو کرنے والی خواتین ہونا اور بات، یہ ایک منفی تاثر ہے لیکن ڈرامہ دیکھنے والی خواتین صرف یہ ہی دیکھتی اور سیکھتی ہیں کہ کس طرح گھر کے مردوں کو انگلیوں ہر نچایا جائے، کس طرح اپنی بیٹی اور بیٹے کے لیے امیر رشتے پھنسائے جائیں، ان ڈراموں کی کہانی میں قناعت و سادگی اور کفایت شعاری کا کوئی تعلق واسطہ نہیں۔
ایک تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ جن گھروں میں شوٹنگز ہوتی ہیں انتہائی پوش ایریا میں ہوتے ہیں اور بہترین طرز رہائش، جدید ترین گاڑیاں اور پروٹوکول کی انتہا دکھائی دیتی ہے۔ دوسرا معمولی لڑکی اس قدر خوبصورت یا معمولی لڑکا بہت ہینڈسم ہوتا ہے کہ ہیرو یا ہیروئن کا دل جیت لیتا ہے۔ معمولی کا مطلب کم آمدنی والا طبقہ لیکن کوئی کالا موٹا بھدا یا پستہ قد و قامت کا لڑکا لڑکی کبھی ہیرو یا ہیروئن نہیں ہو سکتے جو خود انتہائی منفی تصور ہے۔ محض حسن اور وقتی جذبے نے بھی کم عمر لڑکے لڑکیوں کے دل میں یہ بات ڈالنے کا ذمہ لے لیا ہے کہ وہ ہر وقت بن ٹھن کر رہیں کسی وقت بھی کوئی معجزہ ہو سکتا ہے، خوابوں کی ملکہ یا خوابوں کا شہزادہ بہترین گاڑی میں اچانک ان سے کبھی بھی ٹکرا سکتا ہے۔
اب آتے ہیں ڈائیلاگز کی طرف! تو وہ بھی بہت عامیانہ اور رومانوی مناظر بھی حدود پار کرتے ہوئے، کسی غیرمحرم کو محبت کے نام مہنگے تحفے دینا، ہاتھ پکڑنا یا مزید قربتیں، ہوٹلز میں والدین سے جھوٹ بول کر ملنا یہ سب اس طرح دکھایا جاتا ہے کہ "سچی محبت” کا مطلب ہی یہ ہے کہ سب اخلاقی اور مذہبی حدیں پار کر لو حالانکہ زمانہ قدیم سے ہر دور ہر مذہب میں مرد و زن کا اختلاط کبھی بھی قابل ستائش یا قابل تحسین و تقلید نہیں سمجھا گیا۔
ایک اور مضحکہ خیز پہلو، کہ سادہ غریب گھرانے کی لڑکی ہے تو کندھوں پہ چادر ڈال کر گھر سے باہر جاتی ہے محض خانہ پری کے لیے لیکن باقی ششکے پورے، بال کھلے، کپڑے جدید تراش خراش کے، چست اور مختصر اور ماڈرن امیر دکھانا ہے تو بنا دوپٹے کے شلوار قمیض یا مکمل مغربی لباس زیب تن کئے نظر آتی ہیں۔
کیا شرافت کا کوئی معیار نہیں ہے؟ اخلاقیات کا کوئی عمل دخل نہیں؟ صرف دوپٹہ گلے میں پٹے یا رسی کی طرح پڑا ہے تو غریب، نہیں پڑا تو امیر! کوئی میت کا سین بھی ہے تو کپڑے ایسے کہ بندہ میت کے بعد کسی پارٹی میں چلا جائے۔
30، 35 اقساط کے ڈرامے میں خوب سازشیں ہوتی ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے، ماں کو بیٹے سے، بیٹے کو ماں، بیوی کو شوہر سے اور شوہر کو بیوی سے بدگمان کرنے کے جال بنے جاتے ہیں۔ اس طرح دیگر کرداروں کی بھی خوب مٹی پلید کی جاتی ہے۔ ہر طرف خوب فساد پھیلایا جاتا ہے اور آخری قسط میں کسی کو مار دیا یا خودکشی کروا کر ڈرامہ ختم کر دیا جاتا ہے۔
ایک اور رجحان جو بہت غلط ہے بہنوئی اور سالی کے مقدس رشتے کی تذلیل، ایسے بے شمار ڈرامے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ہیرو کو چھوٹی بہن پسند تھی تو شادی بڑی سے ہو گئی یا بڑی پسند تھی تو چھوٹی مل گئی لیکن ہیرونما گھٹیا بہنوئی کی رال کتے کی طرح سالی پر ہی ٹپکتی رہتی ہے، کیا یہ ہیرو ہے؟ کیا ہیرو کا کردار ایک بدکردار اور بدنیت مرد کی عکاسی کرتا ہے؟ جو شخص انسانیت اور اخلاقی اقدار کو پامال کرے کیا وہ ہیرو کہلانے کا حقدار ہے؟
بالکل اسی طرح ایسی بہن یا بھابھی یا سالی جو اپنے ہی بہنوئی یا نندوئی پر نظر رکھے قابل تعریف ہو سکتی ہے؟ پھر طرہ یہ کہ فخر سے کہا جاتا ہے کہ یہ معاشرے کی عکاسی ہو رہی ہے یعنی گند کو اور کھول کھول کر دکھانا، جن معصوم لوگوں کو نہیں پتہ وہ بھی جان جائیں، کسی حد تک چوکنا کیا جا سکتا ہے لیکن سماج کے حالات دیکھ کر لگتا ایسے ہے کہ معاشرے میں سدھار کی بجائے بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ اگر یہ سب اصلاحی ڈرامے ہیں تو پھر عوام کے حالات روز بروز بگڑتے کیوں جا رہے ہیں؟ ایک چیز ڈرامے میں دیکھتے ہیں اور کئی طریقے خود بنا لیتے ہیں۔
اس طرح ایک اور خطرناک پہلو کہ سگریٹ اور شراب کی کثرت دکھانا اور پھر ہلکا دھندلا سا سکرین کی سائیڈ پر لکھا ہوا آ جاتا ہے، ” تمباکو نوشی مضر صحت ہے” یا ”شراب نوشی حرام ہے۔” کیا اس طرح سے اہل ڈرامہ ہر غلط بات کی تشہیر سے سبکدوش ہو سکتے ہیں؟
اگر جواب "ہاں ” میں ہے تو ہر سین پر لکھا کریں، "غیرمحرم کو چھونا حرام ہے”، "غیبت زنا سے بدتر ہے”، "ایک بہن کے ہوتے ہوئے دوسری بہن سے نکاح کی خواہش کرنا حرام ہے”، "میاں بیوی میں لڑائی کروانے والے بدترین انسان ہیں”، "بدگمانی پھیلانا اور بہتان تراشی اللہ تعالیٰ کو شدید ناپسند ہے”، "ریجھنے والا اور رجھانے والا جہنمی ہے”، "اپنے گناہوں کو لوگوں کے سامنے بتانا خود ایک گناہ ہے”، "لالچ بری بلا ہے”، "صورت نہیں سیرت دیکھ پیارے۔”
یہ سب لکھتے رہیے، اپنے ڈرامے دکھاتے رہیے اور ڈرامے کے اختتام پر بیان دے دیا کیجیے: "ہم نے معاشرے کی سچی عکاسی کی ہے اس میں سے صرف اچھی باتیں ڈھونڈنے کی کوشش کیجیے اور ان پر عمل کر کے ثواب دارین حاصل کیجیے۔ شکریہ!”