لائف سٹائلکالم

یورپ کا سفر: یہ کیسا خبط ہے کہ ہمارے سروں سے اترتا ہی نہیں!

حمیرا علیم

ہمارے ہاں ایک محاورہ رائج ہے سفر وسیلہ ظفر؛ اکثر لوگوں کے لیے سفر باعث راحت ہوتا ہے کیونکہ زیادہ تر لوگ اپنے پیاروں سے ملنے یا سیر و سیاحت کے سلسلے میں سفر پر جاتے ہیں مگر کچھ بدنصیب ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا سفر ان کی زندگی کا آخری پڑاؤ ثابت ہوتا ہے اور وہ ہیں ایسے پاکستانی نوجوان جو اپنے ملک سے نالاں ہوتے ہیں اور ہر وقت کسی نہ کسی جگاڑ کی تلاش میں ہوتے ہیں جس کے ذریعے وہ کسی بھی مغربی یا کم از کم مشرق وسطی کے ملک چلے جائیں کیونکہ ان کے خیال میں جیسے ہی وہ دبئی، بحرین، قطر، کینیڈا، امریکہ، آسٹریلیا یا برطانیہ کی سرزمین پہ قدم رنجہ ہوں گے ان کے سارے دلدر دور ہو جائیں گے اور وہ سیکنڈوں میں بل گیٹس اور ایلن مسک سے اوپر کی کوئی چیز بن جائیں گے۔

پنجابی کی کہاوت ہے کھر دہی تے باہر وی دہی کھر نہیں تے باہر وی نہیں۔ یعنی اگر اپنے گھر میں اچھا کھانا ہو تو باہر بھی اچھا ہی کھانے کو ملے گا اور اگر گھر میں اچھا نہ ہو تو باہر بھی نہیں ملے گا۔ ان نوجوانوں کو یہ حقیقت اس وقت تک سمجھ نہیں  آتی جب تک کہ وہ خود وہاں پہنچ نہ جائیں۔

اپنے ملک میں جو شخص محنت مزدوری کرنا اپنی شان کےخلاف سمجھتا ہے وہ کسی اور ملک جا کر لوگوں کے کتے نہلانے، برتن دھونے، بیرا گیری کرنے میں بھی خوش رہتا ہے کیونکہ پیچھے وطن میں بیٹھے لوگوں کو اس کی یہ معمولی نوکری نظر نہیں آتی بلکہ وہ درہم، ریال، ڈالرز اور پاؤنڈز نظر آتے ہیں جو اس کے گھر والے لے کر بے دریغ اڑاتے ہیں لہٰذا ان نوجوانوں کو کسی بھی قیمت پر کسی اور ملک میں پہنچنا ہوتا ہے چاہے اس کے لیے وہ اپنی ماں کا زیور بیچیں، باپ کا مشکل سے بنایا ہوا گھر گروی رکھیں یا اس کی محنت کی کمائی کے فنڈز استعمال کریں۔

اکثر ٹی وی پہ ایسے نوجوانوں کے بارے میں خبریں چلتی ہیں جن میں انہیں کسی بارڈر پہ گرفتار ہو کر ڈی پورٹ ہوتے یا گولی سے مرتے یا سمندر میں ڈوبتے یا کسی ٹرالر کے کنٹینرز میں دم گھٹ کر مرتے دکھایا جاتا ہے۔ کبھی کبھار تو ان کی لاشیں بھی نہیں ملتیں مگر نجانے یہ کیسا خبط ہے کہ ہمارے سروں سے اترتا ہی نہیں۔

ماضی میں تو شاید کوئی ایسا غیرقانونی طریقہ ہوتا ہو گا جس کے ذریعے لوگ باہر کے کسی ملک میں جا کر کسی نہ کسی طرح وہاں بس جاتے تھے مگر آج کے جدید دور میں یہ تقریباً ناممکن سی بات ہے پھر بھی لوگ یہ رسک لینے کو تیار رہتے ہیں۔

ہمارے گاؤں میں یہ کریز کچھ زیادہ ہی پایا جاتا ہے۔ لڑکے نہ تو پڑھتے ہیں نہ ہی کوئی ہنر سیکھتے ہیں اور جب والدین زیادہ ہی دباؤ ڈالیں تو جھٹ سے باہر جانے کا شوشا چھوڑ دیتے ہیں۔ کبھی کبھار تو جیک پاٹ لگ جاتا ہے اور ان نکموں کی کوئی خالہ، چچا اور ماموں وغیرہ کی بیٹی جو کسی مغربی ملک کی شہری ہوتی ہے، اس سے شادی ہو جاتی ہے اور یہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ چوکھا کے مصداق خراماں خراماں برطانیہ امریکہ پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کے ساتھ بیوی اور سسرالی وہ سلوک کرتے ہیں جو پاکستان میں بہو کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ پھر یہ وہاں ٹیکسی چلا کر کسی اسٹور میں ہیلپر بن کر یا فیکٹری ورکر بن کر پیسہ کماتے ہیں اور اس وقت کو روتے ہیں جب انہوں نے یوکے امریکہ جانے کی خوشی میں شادی کی ہوتی ہے کیونکہ کام کی تو عادت نہیں ہوتی شہزادوں کو جبکہ باہر کے ممالک میں ٹکا کر کام لیا جاتا ہے۔

اور اگر ایسا نہ ہو تو یہ کسی ایجنٹ سے رجوع کرتے ہیں جو کہ اپنی فیس ہی اتنی بتا دیتا ہے جو اگر کسی کے پاس ہو تو وہ اچھا سا بزنس پاکستان میں ہی کر لے۔ جب والدین کو ایموشنل بلیک میل کر کر وہ یہ رقم حاصل کر لیتے ہیں تو ایجنٹ انہیں غیرقانونی راستوں سے بذریعہ ایران، افغان بارڈر سے ترکی، یونان، سپین یا اٹلی لے جاتا ہے۔

یہ سفر کبھی دشوارگزار پہاڑوں یا جنگلوں میں پیدل، کبھی کسی ٹرک کے بند کنٹینر یا غیرمحفوظ کشتیوں کے ذریعے طے کیا جاتا ہے۔ دوران سفر درندوں، پولیس کی فائرنگ، بارڈر پر پکڑے جانے کی صورت میں جیل جانے اور ڈی پورٹ ہونے، ڈوبنے کے علاوہ کم خوراکی، بیماری اور موت کا خطرہ بھی رہتا ہے۔

جہاز کے ذریعے یہ سفر ممکن نہیں کیونکہ اس صورت میں پاکستانی ائیرپورٹ پہ ہی واپس کر دیئے جائیں گے کہ ویزا جو میسر نہیں ہوتا۔ اس سے مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ لاہور میں ایک چوک پر ایک پرانا جہاز نصب تھا۔ اس دور میں دبئی جانے کا کریز ہوتا تھا۔ تو فراڈیے معصوم لوگوں سے پیسے لے کر انہیں یا تو اس جہاز میں بٹھا کر کہتے اب یہ آپ کو دبئی لے جائے گا۔ اور وہ بے چارے چار پانچ گھنٹے بعد نکل کر دیکھتے تو لاہور میں ہی موجود ہوتے۔ یا کراچی سے یہ انہیں رات کو کشتی میں بٹھاتے اور گھما پھرا کر پاکستان میں ہی کسی اور جگہ ساحل پہ اتار دیتے۔ اب یہ لوگ پولیس کے پاس بھی نہیں جا سکتے تھے کہ غیرقانونی کام کیا ہوتا تھا لہٰذا رو دھو کر گھر کو لوٹ جاتے۔

ایسے ہی ایک لڑکے اسامہ کو اس کے والد نے ایک ایجینٹ کے ذریعے ساؤتھ افریقہ پہنچا دیا۔ ایجنٹ کا دعوٰی تھا کہ وہ اسے وہاں سے کچھ عرصے بعد سوئٹزرلینڈ پہنچا دے گا۔ ساؤتھ افریقہ کا وزٹ ویزا بارہ لاکھ میں لے کر وہ چند اور لڑکوں کے ساتھ ساؤتھ افریقہ کے ایک چھوٹے شہر الفریڈ نزو پہنچے جہاں انہیں ایک چھوٹے سے گھر میں رکھا گیا۔ نہ تو رہائش کا انتظام اچھا تھا نہ ہی کھانے کا۔ بقول اسامہ کے پورا ایک ماہ ہمیں ابلے چاول ہی دیئے گئے وہ بھی تھوڑے تھوڑے سے۔نہ کوئی کام دھندا نہ سیر۔ بس گھر پہ ہی بند رہتے تھے۔ یہ بھی اچھا ہوا کہ اسامہ کو عقل آ گئی۔ اور وہ ایک ماہ بعد ہی پاکستان واپس آ گیا اور اپنے والد کے ساتھ ان کی کھلونوں کی دکان پہ بیٹھنے لگا ورنہ اس کے ساتھ کے کچھ لڑکے بارڈر کراس کرتے ہوئے پولیس کی فائرنگ سے مارے گئے۔

خدارا! اپنے وطن میں رہ کر روکھی سوکھی کھا لیں مگر باہر جانے کا خیال بھی دل میں نہ لائیں۔ ان والدین کا ہی احساس کر لیں جنہوں نے پال پوس کر آپ کو جوان کیا ہے، جب وہ اپنے بیٹے کی موت کی خبر سنتے ہیں یا جب انہیں بیٹے کی لاش بھی نہیں ملتی اور ساری زندگی وہ اس کی طرف سے کسی اطلاع کے ملنے کی آس میں رہتے ہیں تو خود بھی زندہ لاش بن جاتے ہیں۔ جو کام آپ وہاں جا کر کر سکتے ہیں اپنے ملک میں کیوں نہیں۔ کوئی بھی کام معمولی نہیں ہوتا۔

عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے مدینے میں لکڑی اور پنیر بیچ کر کام شروع کیا تھا اور بزنس اور گھر بنا لیا تھا۔پاکستان میں آج بھی ہزاروں ایسی ہی مثالیں ہیں۔ بس آپ کو ہمت کرنی ہے اور دعا بھی! اللہ تعالٰی آپ کے لیے اسباب بناتا جاتا ہے۔ اللہ تعالٰی سب کی حفاظت فرمائے اور ان کے رزق میں برکت عطا فرمائے!

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button