ہر طرف شدید مہنگائی کا رونا لیکن خواتین کا میک اپ کم نہیں ہونا
ارم رحمٰن
مہنگائی کا طوفان سیلاب کے طوفان سے زیادہ خطرناک ہے اور یہ طوفان وقتی، عارضی یا اتفاقی نہیں بلکہ مستقل مزاجی اور دیرپا بنیادوں پر قائم ہے؛ یہ مملکت پاکستان کا واحد گراف جو ہمیشہ اوپر سے اوپر گیا کبھی نیچے نہیں گرا، حکومتیں گرتی بدلتی رہیں، دہشت گردی، خانہ جنگی سب چلتی رہیں لیکن اگر کچھ سدا بہار ہے وہ صرف "مہنگائی ” ہے جسے کوئی زوال نہیں اور لطف کی بات حکمرانوں کو ملال بھی نہیں! پاکستانی قوم ہی بہت جفاکش ہے، اس میں اور کسی کا کمال نہیں!
مہنگائی کا رونا رونے والی قوم، غربت کی چکی میں پسنے والی، فاقہ زدہ، بھوکی ننگی قوم، گرمیوں میں بجلی نہیں کہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کا نعم البدل حاصل کر سکے، سردیوں میں گیس نہیں کہ گرم قہوہ یا چائے پی سکے اور کچھ نہیں تو ہیٹر کے پاس کچھ دیر بیٹھ کر گرمائش حاصل کر سکے۔
پیٹرولیم کی مصنوعات اتنی مہنگی کہ قوت خرید نہ ہونے کے برابر، کوئی رومانوی جوڑا آئس کریم کھانے کی سوچ سے پہلے پیٹرول کی قیمت دیکھتا ہو گا۔ سو روپے کی آئسکریم اور 5 سو کا پیٹرول ایسے میں اپنا بھی تیل نکل جاتا ہے۔
سبزی، پھل، دالیں، آٹا، چینی، کوئی نام لیجیے سب روزانہ کی بنیاد ہر مہنگے سے مہنگا تر، کل کی قیمت کچھ اور آج کی کچھ لیکن ان سب روزروشن کی طرح عیاں حالات کے باوجود ایک بات سمجھ سے باہر ہے کہ "خواتین میک اپ کیوں کرتی ہیں؟” بچوں کی تعلیم اور صحت، سارے خاندان کے لیے اچھی غذا اور مناسب اوڑھنا بچھونا چاہیے، یہ بات سب سمجھتے ہیں لیکن "میک اپ” کا استعمال بھی کھانے اور دوا کے طور پر استعمال ہوتا ہے، ہر جگہ میک اپ زدہ چہرے، اب اگر یہ کہا جائے کہ فاقہ زدہ مرجھائے اور کملائے چہرے چھپانے کی سعی ناکام ہے تو بڑی عجیب سی بات ہے کہ جتنے کا میک اپ خریدا ہے اتنی رقم کا پھل کھا لو!
یہ بات پڑھ کر بھی سب کے سر میں کھجلی ہو گی کہ واقعی بات درست ہے لیکن ایک مضحکہ خیز بات کہ ریڑھیوں پر سستا اور غیرمعیاری میک کا سامان عام دستیاب ہے اور شوقین خواتین کچھ پیسوں سے سامان خرید کر کئی ماہ استعمال کر لیتی ہیں کہ بچت کے پیسوں سے خریدا ہے۔
اکثریت صرف عام عوام کو دکھانے کے لیے سجتی سنورتی ہے، ہو سکتا ہے چند خواتین شاید اپنے شوہر کی خوشی کے لیے بھی تیار ہوتی ہوں۔
روزگار اور مہنگائی میں کمانا بہت مشکل ہوتا ہے؛ مالکوں کی جھاڑ جھنکار اور پھنکار سے موڈ آف ہوا، شوہر گھر میں داخل ہو تو اسے میک اپ زدہ ہنستی مسکراتی زوجہ کا چہرہ نظر آئے تو شاید کچھ طبعیت کی بحالی کا امکان نکل آئے۔
چلیے یہاں بھی بہت سے لوگوں کی چیخیں نکلیں گی کہ "ہم کیا کریں بیوی کترینہ اور صائمہ جیسی نہیں کم از کم میک اپ سے کچھ تو بہتر نظر آتی ہیں۔” انھیں کون سمجھائے کہ اتنے پیسوں میں ایسی ہی بیگمات دستیاب ہیں کیونکہ حقیقت پسندی اور سیرت کی بلندی سے تو مسلمان مردوں کی اکثریت کو لگاؤ ہے ہی نہیں ان کو بس ایک بات پتہ ہے "کہ بیوی وہ ہے جس پر شوہر کی نظر پڑے تو شوہر کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جائے۔” اس کے بدلے میں بے شک چولہا بھی ٹھنڈا ہو جائے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میک اپ انڈسٹری نے دماغ خراب کیا ہے یا جن کا دماغ خراب تھا انھوں نے میک اپ ایجاد کیا کیونکہ صفائی نصف ایمان ہے اور سادگی اللہ کو پسند ہے، ہم نے یہ ہی سنا اور پڑھا ہے لیکن ہمارے کچھ قابل عالم لوگوں نے بہت علم حاصل کیا اور ان کے مطابق "اللہ جمیل ہے اور جمال پسند کرتا ہے۔”
اور ماشاءاللہ اس کی تفسیر میں شاید ہر وقت صرف خواتین کا بننا ٹھننا اور میک اپ کرنا ہی سمجھا گیا کیونکہ مردوں کی بڑی تعداد گندی ہی رہتی ہے۔
ایک اور اہم سوال جو وقت کی ضرورت ہے کہ کیا ہماری قوم میں میک اپ انڈسٹری کا اتنا عمل دخل ہو چکا ہے کہ اگر خواتین ضروریات زندگی سے میک اپ کے اخراجات نکال دیں تو لاکھوں لوگوں کا روزگار ٹھپ ہو جائے گا؟ اربوں کھربوں کا شدید نقصان ہو جائے گا؟
اگر دیکھا جائے جن لاکھوں گھرانوں کا ذریعہ آمدنی ہی میک اپ کے سامان کی خرید و فروخت پر ہے تو وہ کس قدر مجبور ہوں گے۔
حالیہ سروے میں پشاور کے تاجر حضرات بہت پریشان ہیں، میک اپ کے سامان پر پابندی کی وجہ سے ایک دو ماہ میں ان پر دیوالیہ ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ تاجروں کی ایک بڑی تعداد باہر کے ممالک سے میک اپ کا سامان منگواتی ہے اور ایک بڑی تعداد خام مال منگوا کر مقامی طور ہر میک اپ کا سامان تیار کرتی ہے۔
اب اگر بیرون ملک سے سامان نہیں آئے گا تو دیسی سامان بھی مہنگا ہو جائے گا، سٹاک کم ہے اور اب وہی بیچنا پڑے گا اور ختم ہونے کے بعد دوبارہ نیا سامان خریدنے کی بھی استطاعت دکھائی نہیں دیتی اور باہر سے بھی منگوانے کے امکانات نظر نہیں آتے، ٹیکس کی شرح بھی بہت بڑھ جائے گی، تاجروں کی تمام درخواستوں کے باوجود وفاق ابھی تک خاموش ہے۔
پشاور میں میک اپ کی اہم مارکیٹ "کریم پورہ، کوچی بازار اور مینا بازار کے علاوہ صدر بازار میں بھی میک اپ کے سامان کی سینکڑوں دکانیں ہیں جہاں ہر طرح کا میک اپ کا سامان دستیاب ہے لیکن "کمر توڑ مہنگائی اور پھر خاتون خانہ کے چہرے کی سچائی” دونوں ایک ساتھ کسی دھماکے سے کم نہیں۔
عام خواتین کو چھوڑئیے جو خوبرو اداکارائیں ہیں وہ بھی قدرتی حسن کو سہ آتشہ کرنے کے لیے میک اپ کا بے دریغ استعمال کرتی ہیں؛ ان کو دیکھ کر زن و مرد کی اکثریت آہیں بھرتی نظر آتی ہے، مرد حضرات کی ماہانہ آمدنی اتنی نہیں ہوتی جتنی ان اداکاراؤں کے ایک دن کے میک اپ کا خرچہ، پھر جو بھی خاتون ان سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتی ہے اس کو کم صورت ہونے کے طعنے پڑتے ہیں۔ یا اسے ہر وقت خود کو غازے، لپ سٹک کے مصنوعی حسن سے لیس رکھنا پڑتا ہے کیونکہ انھیں اندازہ ہے کہ شوہر نامدار کم آمدنی کے باوجود دوسرے نکاح کو شرعی حق سمجھ کر ڈٹ جانے سے گریز نہیں کریں گے اور ان کی ساری ایمانیات اسی بات پر ہو گی "مومن حق بات کرنے سے نہیں ڈرتا، لیکن میک اپ کیے بنا بیوی کے چہرے سے ضرور ڈرتا ہے۔”
حالات کے مطابق تو یہ بات قابل توجہ اور سوچنے کے قابل ہے کہ کیا واقعی میک اپ انڈسٹری کو بچانا چاہیے؟ کیا خواتین کو میک کرنے کا سامان خرید کر دینا نان نفقہ کے احکامات میں شامل ہے؟ کیا شوہر کا حق ہے کہ بیوی ہمیشہ اپنے سادہ شفاف چہرے کو میک اپ سے لتھڑے رکھے؟ کیا یہ احساس کمتری کی علامت ہے یا وقت اور حالات کی ضرورت؟
فیصلہ عوام پر چھوڑا!