ہار اور جیت پر سجدے: مراکشی ٹیم نے مداحوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا
حمیرا علیم
مراکشی ٹیم فیفا ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں ہار کر سجدے میں گر گئی۔ جب یہ ٹیم پرتگال سے جیتی تو بھی سجدہ شکرانہ ادا کیا۔ فرانس کے ہاتھوں شکست کے باوجود پورے ٹورنامنٹ میں بہترین کھیل سے سب کو اپنا مداح بنانے والے مراکشی ٹیم کے کھلاڑیوں نے ایونٹ میں اپنی روایت برقرار رکھی اور میدان میں سجدے کیے۔ مراکشی ٹیم کے کھلاڑیوں نے ایونٹ میں ہر میچ میں کامیابی کے بعد سجدہ کرتے ہوئے خدا کا شکر ادا کیا اور شکست کے بعد بھی انہوں نے رب کا شکر ادا کیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ سیمی فائنل میں شکست کے بعد مراکشی کھلاڑیوں نے میدان میں بڑی تعداد میں موجود اپنے فینز کا شکریہ ادا کیا اور پھر سجدے میں چلے گئے۔ مراکشی ٹیم ورلڈکپ کے فائنل میں پہنچنے والی پہلی عرب افریقن ٹیم ہے، مراکش فیفا ورلڈکپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے والا دوسرا مسلم ملک ہے۔ اس سے قبل 2002 کے ورلڈکپ میں ترکی سیمی فائنل میں پہنچا تھا۔
اگرچہ قطر میں فٹبال ورلڈکپ کا انعقاد بذات خود ایک عجیب بات ہے کیونکہ یہ پہلا عرب ملک ہے جس میں فیفا ورلڈکپ منعقد کیا جا رہا ہے لیکن مسلمانوں کے لیے اپنا امیج بہتر بنانے اور اسلام پھیلانے کا بہترین موقعہ ہے جس سے قطر اور مسلم ٹیمز نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
مراکشی ٹیم نے بھی اس دوران کھل کر اپنے اسلامی مذہبی عقائد کا اظہار کیا۔ وہ سپین کے خلاف میچ میں پینلٹیوں کے دوران قرآن کی آیات کی تلاوت کرتے تھے اور پرتگال کے خلاف میچ میں کھلاڑیوں کو بار بار ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگتے دیکھا گیا۔ مراکش نے اپنے کھلاڑیوں کی تمام تر انجریوں اور مشکلات کے باوجود پرتگال کو کوئی گول نہ کرنے دیا۔ میچ کے بعد تمام کھلاڑی اور عملے کو سٹینڈز کے پاس سجدہ کرتے دیکھا گیا۔
سبسٹیٹیوٹ اشرف داری نے خود کو فلسطینی پرچم میں لپیٹ لیا جبکہ پی ایس جی کے لیے کھیلنے والے اشرف حکیمی دوبارہ اپنی والدہ کے پاس گئے جنھوں نے انھیں بوسہ دیا۔ مگر سفيان بوفال نے اس بار حکیمی سے ایک قدم آگے جانے کا فیصلہ کیا اور وہ اپنی والدہ کے ساتھ ترانوں پر جھومنے لگے۔
ان ایمان پرور مظاہروں اور قطر کی دعوۃ ٹیمز کی وجہ سے کئی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ اس طرح کے مختلف واقعات نے مجھے دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مشرکین کے قبول اسلام کے واقعات یاد دلا دیئے۔
مجاہدین اسلام کا ایک گروہ مدینہ منورہ کی نگرانی پر مامور تھا مبادا کہ کوئی مدینہ منورہ پر رات کے وقت اچانک حملہ نہ کر دے۔ مجاہدین گشت کر رہے تھے کہ انہوں نے راستے میں جاتے ہوئے ثمامہ کو گرفتار کر لیا لیکن انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ یہ کون ہے؟ وہ انہیں پکڑ کر مدینہ لے آئے اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا۔ مجاہدین نے سوچا کہ نبی علیہ السلام قیدی کو دیکھ لیں اور اس کے متعلق جو حکم فرمائیں اس کی تعمیل کی جائے۔
نبی علیہ السلام جب مسجد نبوی میں تشریف لائے آپؐ نے دیکھا کہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ مسجد کے ایک ستون کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں، انہیں اس حالت میں دیکھ کر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ”کیا جانتے ہو تم نے کسے گرفتار کیا؟” سب نے کہا: ”یا رسول اللہ! ہمیں تو علم نہیں۔”
آپؐ نے ارشاد فرمایا: ‘‘یہ تو ثمامہ بن اثال ہے۔ اب اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ گھر میں جو کھانا ہے وہ ثمامہ بن اثال کے لئے بھیج دیا جائے۔” پھر آپؐ نے حکم دیا کہ ”میری اونٹنی کا دودھ صبح و شام اسے پلایا جائے۔” آپؐ کے حکم کی فوراً تعمیل کی گئی۔ پھر نبی علیہ السلام ثمام بن اثال کی طرف متوجہ ہوئے تا کہ انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں، آپؐ نے بڑے مشفقانہ انداز میں دریافت کیا: ”ثمامہ کیا رائے ہے؟”
انہوں نے جواب دیا: ”بہتر ہے اگر آپ مجھے قتل کر دیں تو یقیناً ایک ایسے شخص کو قتل کر دیں گے جس نے آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کا خون بہایا، اگر معاف فرما دیں تو ایک قدردان پر مہربانی ہو گی اور اگر مال چاہئے تو جس قدر فرمائیں مال آپؐ کی خدمت میں پیش کر دیا جائے گا۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلسم تشریف لے گئے اور انہیں دو دن تک اسی حالت میں رہنے دیا لیکن کھانا، پانی اور دودھ باقاعدگی سے انہیں ملتا رہا۔
پھر آپؐ نے دریافت فرمایا: ”ثمامہ کیا رائے ہے؟” انہوں نے کہا ”بات وہی ہے جو میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔ اگر آپ معاف فرما دیں تو ایک قدر دان پر مہربانی کریں گے۔ اگر آپ مجھے قتل کر دیں تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس نے آپ کے ساتھیوں کا خون بہایا ہے، اور اگر مال چاہیے تو آپ کی منشا کے مطابق مال آپ کی خدمت میں پیش کر دیا جائے گا۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اب بھی انہیں اسی حالت میں رہنے دیا اور تیسرے دن تشریف لائے اور دریافت فرمایا: ”ثمامہ اب تمھاری کیا رائے ہے؟” انہوں نے کہا ”میری تو وہی رائے ہے جو میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ ”اسے آزاد کر دو۔”
ثمامہ رضی اللہ عنہ نے آزاد ہونے کے بعد بقیع کے نزدیک اچھی طرح غسل کیا اور واپس مسجد نبوی میں آ کر سب لوگوں کے سامنے بہ آواز بلند کلمہ شہادت پڑھا۔ بعد ازاں محبت بھرے اندز میں یوں گویا ہوئے ”میرے پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم! اسلام قبول کرنے سے پہلے روئے زمیں پر مجھے آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی چہرہ برا نہ لگتا تھا لیکن آج میرے لئے کائنات میں تمام چہروں سے محبوب ترین چہرہ آپ ہی کا ہے۔
اللہ کی قسم! آج سے پہلے آپ کا یہ شہر دنیا کے تمام شہروں سے زیادہ برا معلوم ہوتا تھا اور آج یہ مجھے تمام شہروں سے زیادہ محبوب دکھائی دیتا ہے۔‘‘
پھر اس کے بعد درد بھرے لہجے میں عرض کی: ‘‘یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے انتہائی افسوس ہے کہ میں نے آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کا بے دریغ خون بہایا ہے، بھلا میرے اس جرم کا مداوا کیسے ہو گا؟”
یہ سن کر نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ”ثمامہ آپ گھبرائیے نہیں اسلام پہلے سب گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔” اور آپؐ نے اس خیرو برکت کی بشارت دی جو اللہ سبحانہ وتعالٰی نے اسلام قبول کرنے کی بدولت اس کے نصیب میں لکھ دی۔
یہ سن کر ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اور یوں کہنے لگے: ”اللہ کی قسم! میں نے اپنے زمانہ جاہلیت میں جس قدر مسلمانوں کو قتل کیا ہے، اس سے دو گنا زیادہ مشرکین کو تہہ تیغ کروں گا۔ اب میری جان، میری تلوار اور جو کچھ بھی میرے پاس ہے سب کچھ آپ کی اور آپ کے دین کی خدمت کے لئے وقف ہے۔”
ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ وہ پہلے مسلمان ہیں جو مکہ معطمہ میں بہ آواز بلند تلبیہ کہتے ہوئے داخل ہوئے۔ ثمامہ رضی اللہ عنہ نبی صلعم اور صحابہ کرام کے حسن سلوک سے متاثر ہوئے اور بخوشی اسلام قبول کر لیا۔
آج بھی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب کسی غیرمسلم نے کسی مسلم کے عمل اور اچھے سلوک کی بنا پر اسلام قبول کیا۔ یہی تبلیغ اسلام کا بہترین طریقہ بھی ہے اور سنت انبیاء بھی۔ اللہ تعالٰی قطر اور مراکش کی ٹیم کو برکت عطا فرمائے۔