3 ارب 24 کروڑ خرچ کرنے کے بعد بھی پشاور خطرے کی علامت کیوں؟
محمد فہیم
یہ 6 فروری 2006 کی شام تھی جب پشاور کے ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم میں پاکستان کرکٹ ٹیم بھارت کے 328 رنز کے تعاقب میں تھی؛ بھارت کی جانب سے سچن ٹینڈولکر نے تاریخی 100 رنز کی اننگز کھیلی تھی جبکہ پاکستان کی جانب سے سلمان بٹ نے 101 رنز بنائے تھے، ابھی میچ ختم نہیں ہوا تھا اور انتہائی دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گیا تھا، پاکستان کو جیت کیلئے 18 گیندوں پر 18 رنز درکار تھے اور ہماری تین وکٹیں باقی تھیں لیکن شام ہو گئی اور سورج غروب ہو گیا، روشنی کم ہونے کے باعث ڈک ورتھ لوئس سسٹم کے تحت پاکستان کو 7 رنز سے فاتح قرار دے دیا گیا۔
یہ میچ پشاور کے شہریوں کو یاد رہا تاہم انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ میچ ان کی مٹی پر کھیلا جانے والا آخری میچ ہو گا، اس کے بعد 2009 میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر لاہور میں ہونے والے حملے کی وجہ سے بین الاقوامی ٹیموں نے پاکستان آنے سے انکار کردیا تاہم 2015 میں کوششیں کی گئیں اور زمبابوے سے شروع کیا گیا پی ایس ایل پاکستان میں کرایا گیا اور بعد ازاں ویسٹ انڈیز، سری لنکا، بنگلہ دیش اور پھر رواں برس آسٹریلیا اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیمیں پاکستان آئیں۔
رواں ماہ نیوزی لینڈ نے بھی پاکستان کا دورہ کرنا ہے جس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان اب کرکٹ کیلئے محفوظ ملک ہے۔ آئندہ برس پاکستان ایشیاءکپ کی میزبانی کرے گا جبکہ 2025 میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی بھی پاکستان میں ہو گی۔ پاکستان 1996 کے بعد پہلی مرتبہ آئی سی سی ٹورنامنٹ کی میزبانی کرے گا۔
لیکن چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ رمیز راجہ سے جب ملتان ٹیسٹ میچ کے دوران سابق انگلش کپتان مائک ایتھرٹن نے سوال کیا کہ کیا پاکستان اپنی کرکٹ ملتان، پنڈی، لاہور اور کراچی میں ہی کھیلے گا یا پشاور اور فیصل آباد سمیت دیگر میدان بھی آباد ہوں گے؟ اس سوال کا جواب رمیز راجہ نے جن الفاظ میں دیا اس سے پشاوریوں کے دلوں کو تکلیف پہنچی۔
رمیز راجہ نے کہا کہ پشاور مغربی ممالک کیلئے آج بھی سرخ جھنڈے کی علامت یعنی خطرے کی نشانی ہے تاہم فیصل آباد اور سیالکوٹ کے خوبصورت سٹیڈیم پر کام جاری ہے، جلد وہاں کرکٹ کھیلی جائے گی۔
پشاور کے حوالے سے یہ بیان صوبہ بھر کے کرکٹ شائقین کیلئے ایک جانب باعث تکلیف تھا تو دوسری جانب پشاور میں دو کرکٹ سٹیڈیمز پر اربوں روپے کے فنڈز استعمال کرنے پر باعث حیرت بھی تھا۔
اگر پشاور میں غیرملکی کھلاڑی کھیلنے کو تیار نہیں ہیں تو پھر ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم اور حیات آباد کرکٹ سٹیڈیم پر اربوں روپے لگانے کی کیا ضرورت ہے؟
ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم خیبر پختونخوا کا واحد بین الاقوامی کرکٹ سٹیڈیم ہے جہاں اب تک صرف 6 ٹیسٹ میچز کھیلے گئے ہیں جن میں تین پاکستان نے جیتے، دو میں پاکستان کو شکست ہوئی جبکہ ایک میچ ڈرا ہوا۔ ڈرا میچ پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین 1998 میں کھیلا گیا تھا جہاں آسٹریلوی قائد مارک ٹیلر نے 334 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی تھی۔
اسی میدان پر 17 ایک روزہ میچز کھیلے گئے ہیں جن میں 7 میچز میں پاکستان کو فتح جبکہ 8 میں شکست ہوئی، دو میچز کا نتیجہ نہ نکل سکا۔
ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم کی تعمیر نو کا منصوبہ دسمبر 2017 میں شروع کیا گیا تھا اور اسے دسمبر 2020 تک مکمل کیا جانا تھا تاہم کورونا کے باعث اس منصوبے کی تکمیل کی ڈیڈ لائن متاثر ہوئی اور اس میں مزید ایک سے ڈیڑھ سال تاخیر کے بعد رواں برس دسمبر کی ڈیڈ لائن دی گئی جس میں اب مزید تین سے چار ماہ تاخیر ممکن ہے۔ اس منصوبہ کی تخمینہ لاگت ایک ارب 94 کروڑ 61 لاکھ روپے لگائی گئی ہے۔
اس سٹیڈیم کی تعمیر میں تاخیر کی وجہ سے صوبائی حکومت نے حیات آباد میں کرکٹ سٹیڈیم کی تعمیر شروع کر دی تھی۔ حیات آباد سپورٹس کمپلکس میں کرکٹ گراﺅنڈ کو سٹیڈیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ انتہائی جلد بازی میں کیا گیا اور پاکستان سپر لیگ کے میچز کی میزبانی کیلئے ٹھیکہ کا اجراء اور اخراجات انتہائی تیزی سے شروع ہوئے تاہم قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
120 روز یعنی چار ماہ میں جو منصوبہ مکمل ہونا تھا وہ دو سال میں بھی مکمل نہ ہو سکا اور اس منصوبے کی تخمینہ لاگت بھی اب بڑھ کر ایک ارب 30 کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے۔
ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم اور حیات آباد کرکٹ سٹیڈیم پر مجموعی طور پر تین ارب 24 کروڑ 60 لاکھ روپے خرچ ہوں گے جو اب تک حتمی نہیں ہے اور اس میں مزید اضافہ بھی ممکن ہے۔
خیبر پختونخوا جیسا غریب صوبہ جس میں کروڑوں لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، اس صوبے کی حکومت نے عوام کا پیٹ کاٹ کر تین ارب 24 کروڑ 60 لاکھ روپے کرکٹ سٹیڈیمز کی تعمیر پر لگا دیئے اور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ نے چند سیکنڈز میں یہ کہہ دیا کہ پشاور خطرے کی علامت ہے لہٰذا وہاں میچز نہیں ہو سکتے۔
سوال صرف اتنا ہے کہ یہ جملہ تب ہی کہہ دیتے جب ان دونوں سٹیڈیمز کیلئے اربوں روپے مختص کئے جا رہے تھے، اگر تب ہی معلوم ہو جاتا تو کم سے کم ان اربوں کی رقم سے 40 لاکھ سکول سے باہر بچوں کو دوبارہ سکول میں داخل کرنے کیلئے اقدامات کر لئے جاتے، لاکھوں کی بے روز نوجوان فورس کو بلاسود قرضے دے دیئے جاتے اور پشاور سمیت صوبہ بھر کے صاف پانی سے محروم شہریوں کو آب رسانی کے منصوبوں پر ہی خرچ کر دیئے جاتے یا پھر تنخواہوں سے محروم سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ہی ادا کر دی جاتیں، کم سے کم اپنوں سے سن کر یہ افسوس تو نہ ہوتا کہ پشاور ریڈ فلیگ یعنی خطرے کی علامت ہے۔