کیا دنیا سے واقعی غلامی کا خاتمہ ہو چکا ہے؟
ارم رحمٰن
کہنے کو تو دنیا سے بظاہر غلامی ختم ہو چکی ہے؛ مختلف معاہدے اور قوانین رائج ہو چکے ہیں مگر غلامی کے مطلب کی باریکی میں جا کر دیکھا جائے تو غلامی ختم ہو نہیں سکتی کیونکہ طاقتور حکومت کمزور ریاست ہر ابھی بھی مسلط ہے، کتنے ممالک اور ان کی عوام بے بس اور مجبور ہیں، ان کی اپنے ہی ملک میں کھل کر سانس لینے کی آزادی نہیں، کچھ ممالک میں اتنی بددیانتی اور حکمرانوں کی اجارہ داری ہے کہ عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے۔
غربت، ناانصافی، ذہنی جسمانی اور جنسی تشدد یہ سب غلامی کی ہی اقسام ہیں۔ جب تک کوئی بھی طاقتور کسی کمزور پر مسلط رہے گا، اس کے حقوق غصب کرے گا، اپنی طاقت کا اندھا مظاہرہ کرے گا اور وہ سب کچھ پانے کی کوشش کرے گا جو اس کا حق ہے ہی نہیں تو غلامی کیسے ختم ہو سکتی ہے؟ دیکھا جائے تو حق مارنے والا بھی غلام ہی ہے مگر اپنے نفس کا!
غلامی کی تاریخ ازل سے ہے، جب کسی کے پاس اقتدار آیا اس نے کمزور کو غلام ہی بنایا۔ دنیاوی اور ظاہری لحاظ سے کسی انسان کو غلام بنانے سے مراد اس پر قبضہ کرنا ہے۔ غلام کی اپنی کوئی سوچ اور مرضی نہیں ہوتی، عزت اور عزت نفس کا تصور محال ہوتا ہے۔ کوئی بھی اس کے آقا اور مالک سے سوال نہیں کر سکتا کہ اتنا ظلم کیوں کر رہے ہو؟ اتنی اذیت اتنی حق تلفی آخر کس لیے؟
پہلے زمانے میں تو غلام کو کسی غلطی کی پاداش میں قتل کر دینا بھی عام روایت تھی۔ آقا و مالک سے سوال کرنے کی گنجائش ہی نہیں بنتی تھی کیونکہ غلام خریدا ہوا یا فتح کیا ہو یا تحفے میں ملا ہو اس پر سارے استحقاق مالک کے یوتے تھے، غلام کی زںدگی تو اپنی تھی ہی نہیں۔
غلامی کی تاریخ قدیم زمانوں سے موجودہ ادوار تک بہت سے سیاسی تقاضوں کے تحت قوموں اور مذاہب میں موجود نظر آتی ہے تاہم غلاموں کی اقتصادی اور قانونی پوزیشنز مختلف وقتوں میں مختلف جگہوں پر مختلف رہی ہے۔
سب سے زیادہ غلامی کی تاریخ عرب میں ملتی ہے۔ اور قبل اسلام غلام اور باندیاں کی کثرت بھی کسی عربی آقا کی طاقت کا مظہر تھی۔ اسلام میں پہلی شہید غلام حضرت سمعیہ بنت خیاط رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں جنھیں اسلام قبول کرنے کی سزا، ابی لہب نے نیزہ مار کر شہید کرنے کی صورت میں دی۔
اور ہمارے پیارے آقا و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے پیارے مؤذن بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ و عنہ جنھیں ان کا مشرک مالک اسلام قبول کرنے کی وجہ سے عرب کے صحرا کی تپتی ریت پر لٹاتا اور سینے پر بھاری سل رکھ کر سزا دیتا تھا۔ ان کو اس ظالم مشرک سے آزادی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھاری رقم دے کر دلوائی۔
اسی طرح جنگوں میں فاتحین مغلوب ہونے والی ریاست کے لوگوں کو مال غنیمت کے طور پر غلام اور باندیاں بنا کر ساتھ لے جاتے اور ان کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرتے اور ہر وہ کام لیتے جو انسانیت کے لیے شرمناک ہوتا۔
قبل از اسلامیہ عربی کے ساتھ ساتھ ابتدائی قرون وسطیٰ میں غلامی کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا۔ مغلیہ دور میں بھی غلام باندیوں اور خواجہ سرا کی کثیر تعداد بادشاہ کے محلوں میں ملا کرتی تھی۔ باندیوں کا تصور آقاؤں کے عیاشی کا سامان مہیا کرنا ہوتا تھا۔
یونان اور روم میں تو غلام مردوں سے وہاں کی امراء خواتین مباشرت بھی کیا کرتی تھیں۔ فراعین نے غلاموں کے ذریعے ہی "اہرام” تعمیر کروایا۔
آٹھویں صدی میں محمد بن قاسم اور اس کی فوج بھی فاتح ہو کر ہندوستان سے بڑی تعداد میں غلام اور باندیاں ساتھ لے گئے۔
اسی طرح برازیل میں 1774 سے 1831 تک سمندری راستوں کے ذریعے افریقہ سے سات لاکھ سے زیادہ غلام لائے گئے اور ان سے شرمناک حد تک شدید نوعیت کے جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ غلاموں سے اکثر کھیتی باڑی، آبپاشی، کان کنی اور جانور پالنے کے علاوہ تمام دیگر کام بھی کراوئے جاتے۔
استنبول میں سیاہ فام اور چرکیسی خواتین 1908 کے آئین کی منظوری تک کھلے عام بکتی رہیں ہیں، لڑکیوں کو جنسی غلام بنانا اور پھر دوسرے امراء اور عمائدین میں ان کے تبادلے اور جسم فروشی کے ذریعے سیاسی اور مالی مفادات کا حصول عام تھا۔ سرکیسئین، شامی اور نوبیان سے لائی گئیں خوبصورت خواتین کی بولیاں لگا کرتیں اور ان کی خوبصورتی کے مطابق قیمت ادا کی جاتی۔
غلامی سے آزادی میں "زنگی بغاوت” بہت اہمیت رکھتی ہے۔ 1924 میں سلطنت عثمانیہ سے غلامی کا خاتمہ ہو گیا جب ترکی کے نئے آئین نے شاہی حرم کو ختم کر دیا، آخری اعلان کردہ افراد خواجہ سراؤں کو بھی جمہوریت کے تحت آزاد شہری بنا دیا گیا۔
مغربی ایشیاء، شمالی افریقہ، جنوبی افریقہ میں عرب غلام کی سب سے زیادہ تجارت 20ویں صدی تک بہت سرگرم رہی۔پھر بیسویں صدی میں غلامی کو آہستہ آہستہ غیرقانونی قرار دیا جانے لگا۔ انیسویں صدی میں انگلینڈ اور بعد میں دوسرے مغربی ممالک میں غلامی کے خاتمے کے لیے مضبوط تحریک نے بہت کام کیا۔
1929 میں ایران میں غلامی ختم کر دی گئی، غلام رکھنا غیرقانونی قرار پایا۔ 1936 میں سعودی عرب میں غلاموں کی درآمد پر پابندی لگا دی گئی۔ 1962 میں سعودی عرب میں غلامی کے تمام طریقوں یا غلاموں کی خرید و فروخت اور اسمگلنگ پر پابندی لگا دی گئی۔ 1962 میں ہی بہت مشکل سے یمن میں غلامی کا خاتمہ ہوا۔ 1969 تک بیشتر ریاستوں نے غلامی کو ختم کر دیا۔ 1970 میں عمان کی ریاست نے غلامی پر پابندی لگائی۔ 1982 میں سب سے آخر میں اسلامی جہموریہ موریطانیہ نے غلامی کو غیرقانونی قرار دیا اور باضابطہ طور پر اعلان کیا لیکن مکمل ختم ہونے کے شوہد 2007 میں ملتے ہیں۔
اسی طرح اسلام پسند باغی گروہوں کی طرف سے زیرکنٹرول علاقوں میں مشق کرنا غیرقانونی ہے مگر پھر بھی لیبیا اور موریطانیہ میں ابھی تک رائج ہے۔ اسی طرح سعودی عرب اور یمن میں غلامی کی خاتمے کا سبب برطانیہ کا شدید دباؤ تھا۔
برازیل نے موجودہ دور کی غلامی کے خاتمے کے لیے دیگر ممالک میں بھی بہت کام کیا، پچھلے 30 سالوں میں 45 ہزار غلاموں کو آزادی دلوائی۔ برازیل میں غلامی کے معنی بہت مختلف ہیں، اگر کوئی شخص کسی خراب ماحول میں کام کر رہا ہے بے شک اپنی مرضی سے اس کے باوجود اسے غلام متصور کیا جاتا ہے۔ جنوبی امریکی ملک برازیل کے رہنے والے افریقہ سے لائے غلام تھے، وقت گزرنے کے ساتھ غلامی کے طریقے بدلتے گئے۔
غلامی کا مکمل خاتمہ صرف جسمانی لحاظ سے ہی نہیں ہوتا بلکہ ذہنی طور ہر بھی آزاد ہونا ہے۔ ضروری ہے کہ ہر مملکت میں ایسے حالات مہیا کیے جائیں کہ جہاں سب لوگ اپنے حقوق پر کھل کر بات کر سکیں، اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کسی کے آگے ہاتھ نہ جوڑنے پڑیں، انصاف کے لیے عدالتوں میں دھکے نہ کھانے پڑیں، اپنی ہی جائز جائیداد کے لیے ترسنا نہ پڑے۔ یہ سب اس وقت تک ہونا ممکن نہیں جب تک دنیا انسانیت اور اخلاقیات کو مکمل طور پر نہیں سمجھ لیتی۔