گول روٹی پکانا آتی ہے؟
ارم رحمان
یہ چاند جیسی روٹی، پتلی چپاتی، پھلکے اور پراٹھے۔۔ کیا یہ سب لیڈی ڈاکٹر کو بنانے آنے چاہئیں؟ کیا ایک اچھی لیڈی ڈاکٹر اپنے کام کو چھوڑ کر صرف گول روٹی پکانے کی پریکٹس کرے؟
ہر ڈاکٹر اپنا ایم بی بی ایس مکمل کرنے کے بعد "ہاؤس جاب” کرتا ہے لیکن ہاؤس جاب کا مطلب خواتین ڈاکٹر کے لیے کچھ اور بنا دیا جاتا ہے کہ لڑکی ڈاکٹر بن گئی، ڈگری مل گئی اب گھر بیٹھے اور گول روٹی، پیاری سی چپاتیاں اور لچھے دار یا تہوں والے پراٹھے بنانا سیکھ لینے چاہیے کیونکہ "اگلے گھر بھی تو جانا ہے۔”
شوہر ناشتے میں پراٹھے کھاتا ہو گا نہ پکا سکی تو… ساس کو چپاتی پسند ہے، سسر صاحب کو پھولے ہوئے گول گپے کی طرح کے پھلکے بھاتے ہیں، جب مہمان آئیں گے تو سب لوگوں کی مہمان نوازی کون کرے گا؟ کون بازار سے نان یا تندوری روٹی لائے ویسے بھی نانبائی صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔۔ نجانے کہاں کہاں کھجاتے ہیں اور گرمیوں میں پسینہ۔۔ توبہ توبہ! اچھے معززین گھروں میں سارے کاموں کے لیے تو ماسی ہوتی ہے مگر کھانا تو بہو ہی بناتی ہے، آخر کو معاشرے میں مقام ہے!
اس ساری تمہید کا مطلب صرف اتنا ہے کہ جو کام ایک ان پڑھ عورت کر سکتی ہے اس کے لیے اتنی قابل خاتون جس کی زندگی کے تقریباً 25 سال شدید پڑھائی میں گزرتے ہیں اور تعلیم بھی بہت مہنگی جو عام بندہ اپنی اولاد کو دلوانے کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا، اور سب سے دکھ کی بات کہ پاکستان میں لیڈی ڈاکٹرز ملتی ہی نہیں اور اگر ہوتی بھی ہیں تو ان میں وہ مہارت نہیں ہوتی جو مرد حضرات میں ہوتی ہے۔
آپ خود سوچیے کہ کسی بھی خاتون کو اپنی ذاتی اور اندرونی تکالیف کسی مرد ڈاکٹر سے بیان کرنا کتنا مشکل ہوتا ہو گا، پھر زچگی میں عورت کے ستر کی حفاظت، اس کے علاوہ بہت سے مقام پر عورت کو کئی جگہوں پر جسم کو ہاتھ لگانا پڑتا ہے۔ اگرچہ علاج میں سب جائز ہے مرد بھی ہاتھ لگا سکتا ہے یا کسی مرتی ہوئی عورت کو مرد بچانے کے لیے آپریشن کر سکتا ہے، جائے ستر دیکھ سکتا ہے چاہے وہ بریسٹ کینسر ہو یا زچگی کے حالات لیکن جب پچھلے 20 سالوں میں اوپن میرٹ ہونے کے سبب 70 فیصد خواتین ہی ڈاکٹر بن رہی ہیں تو پھر وہ شرح ہسپتالوں میں نظر کیوں نہیں آتی؟
جبکہ آبادی بڑھتی جا رہی ہے، اور 15 ہزار عورتوں کے لیے بمشکل ایک یا دو ڈاکٹر میسر ہیں جن میں خواتین شامل نہیں۔
ایک سروے کے مطابق 50 فی صد خواتین ڈگری لے کر گھر بیٹھ جاتی ہیں، یا بٹھا دی جاتی ہیں۔ لیڈی ڈاکٹر سے شادی کرنا status symbol سمجھا جاتا ہے اور اس کو ہسپتالوں میں پریکٹس کی اجازت دینا ناک کٹنے کا سبب بنتا ہے، اور ان کے اوقات کار ان کے مجازی خدا کے مزاج بگاڑنے کا سبب بنتے ہیں۔ پھر یہ دلیل کہ گھر میں اتنے ملازم ہیں مگر کھانا تو بہو پکائے، کیا وہ اتنا بھی نہیں کرسکتی؟ اس سوچ ہر جتنا ماتم کیجیے کم ہے۔
اب آتے ہیں ان خواتین کی طرف جو صرف اس لیے ڈاکٹر بنتی ہیں کہ ان کی قابلیت اور لیاقت کا ڈنکا بجے، ان کے خاندان کے لوگ ان کے معترف ہو کر گن گائیں اور حسد کی آگ میں جلتے رہیں، یا احساس کمتری میں مبتلا رہیں۔ اگر واقعی یہ سوچ ہے تو پھر اس خاتون کو واقعی پریکٹس نہیں کرنی چاہیے کیونکہ جس شخص میں صرف دکھاوا ہو، ظاہری نمود و نمائش کی خواہش ہو وہ گھر ہی بیٹھے کیونکہ خلوص نہیں تو کسی مریض/مریضہ کا احساس کیا کرے گی؟
اور جو خواتین ڈگری لینے کے بعد کم از کم پانچ دس سال پریکٹس نہ کریں، ان کا لائسنس معطل کر دیجیے، ان سے باقاعدہ بانڈ بھروائیے کہ حکومت کا اتنا پیسہ خرچ ہوا ہے وہ پیسے واپس کیجیے یا پھر کام کیجیے۔
اگر ہم بات کرتے ہیں ایسے مردوں کی جو صرف ڈاکٹر لڑکی سے شادی کی خواہش اپنے دوستوں رشتے داروں میں اپنا معیار بڑھانے کے لیے کرتے ہیں تو انھیں پریکٹس بھی تو کرنے دیں، ناک اونچی رہے گی۔
اس طرح بعض مرد حضرات عورت کو آگے بڑھتا یا ان سے آگے نکلتا نہیں دیکھ سکتے کہ یہ خاتون پریکٹس کرے گی، پیسے کمائے گی اور مجھ سے زیادہ کما لیا تو کتنی سبکی ہو گی یا یہ عورت مجھ پر حاوی ہو جائے گی اور دنیا مجھے زن مرید کہے گی۔
خدارا! جب اتنے خدشات، وہم اور وسوسے دماغ میں بھس کی طرح بھرے ہوئے ہیں تو مت کرو شادی کسی قابل پرفیشنل خاتون سے، گھر داری اور روٹی پراٹھے پکانے کے لیے تو کوئی بھی سادہ گریجویٹ لڑکی سے شادی کیجیے ماسٹرز بھی مل جائیں گی بہت آرام سے، صرف لیڈی ڈاکٹر ہی کیوں؟
اس پر من پسند ہونے والی بہو سے مضحکہ خیز ترین سوال "تمھیں گول روٹی پکانی آتی ہے؟”
اس سوال کا جواب اگر ہاں ہے تو وہ لڑکی اپنے پیشے سے مخلص نہیں یا پھر وہ خود ہی شوقین ہو گی ورنہ اتنی سخت پڑھائی اور پریکٹس کے اوقات کار میں تو کھانا کھانے کا وقت نکالنا مشکل ہو جاتا ہے چہ جائیکہ روٹی پکانا وہ بھی گول!
سب لوگ برابر ہوتے ہیں یہ بات درست ہے صرف بنیادی ضروریات اور حقوق کی حد تک ورنہ دیگر معاملات میں ایک دوسرے سے موازنہ کرنا بالکل غلط ہوتا ہے۔ ایک ان پڑھ عورت کا مقابلہ پڑھی لکھی عورت سے نہیں کیا جا سکتا اسی طرح سادہ ماسٹرز کرنے والی خاتون کا مقابلہ کسی ڈاکٹر، فارماسسٹ یا اور کسی اہم شعبے والی لڑکی یا خاتون سے نہیں کیا جا سکتا۔
جس کام کا کرنا کسی انگوٹھا چھاپ کے لیے مشکل نہیں وہ خوبی یا صلاحیت ایک لائق خاتون میں ڈھونڈنا عبث ہے
بلکہ عجیب تر، اتنی محنت اور ہمت سے ڈاکٹر بننے والی لڑکی جس پر حکومت اور عوام کا لاکھوں روپے لگا ہوتا ہے، جو کتنے لوگوں کی قابلیت کو اپنی شدید لگن اور محنت سے پیچھے چھوڑتے ہوئے میرٹ پر آتی ہے، کتنے لوگ اس کی وجہ سے اس شعبے میں آنے سے رہ جاتے ہیں، اس کو محض روٹی پکانے کی خاطر گھر بٹھا لینا اس سے بڑی جہالت اور کیا ہو گی؟
خواتین کو بھی ایمانداری سے سوچ کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ اس سخت محنت طلب پیشے میں مستقل خلوص دل سے کام کر بھی سکیں گی یا نہیں، اگر ڈاکٹرز خواتین کو اس خوف نے جکڑ ا ہوا ہے کہ ہمارے بچوں کو کون سنبھالے گا تو یہ واقعی حکومت اور نجی ہسپتال والوں کی ذمہ داری ہے۔ اگر لیڈی ڈاکٹرز کے بچوں کے لیے ہسپتال کے احاطے میں ہی مناسب کئیر سینٹرز بنادییے جائیں جہاں ان کے بچوں کے لیے معقول سمجھدار آیائیں یا گورنس جن کے اپنے بچے بھی ساتھ ہی ہوں ان کو مناسب تنخواہ اور انتظامات فراہم کر دیے جائیں تاکہ ان کا بھی ذہن اپنے بچوں کی طرف سے پریشان نہ ہو اور لیڈی ڈاکٹرز کے بچوں کی دیکھ بھال دل سے کر سکیں تو یقیناً ڈاکٹر خواتین کے پاس یہ بہانہ بھی ختم ہو جائے گا۔
بات صرف احساس کی ہے، پاکستان میں خواتین کی آبادی مردوں سے زیادہ ہے، لیکن سنجیدہ گائناکالوجسٹ کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ عورت کے امراض اور سترپوشی کا خیال جتنا خاتون ڈاکٹر رکھ سکتی ہے مرد اس کا سوچ بھی نہیں سکتا اس لیے اپنی بچیوں کو اور ان کے سسرال والوں کو یہ باور کروائیے کہ لیڈی ڈاکٹر بننا محض ایک ڈگری نہیں بلکہ ملک و قوم کی خواتین کے لیے بنیادی ضرورت ہے اور خدمت خلق بھی!
اتنی محنتی اور قابل خواتین کو گھر نہ بٹھائیے ان کی حوصلہ افزائی کیجیے۔ روٹی پکانے والی ماسی بہت کم خرچے پر زیادہ اچھی روٹی بنا دے گی مگر کسی مرتی سسکتی بلکتی ہوئی خاتون کا علاج نہیں کر سکتی۔