صنف نازک۔۔۔ تشدد لفظ چھوٹا ہے!
ارم رحمٰن
خواتین کو صنف نازک کہا جاتا ہے اور صدیوں سے ان پر ہونے والے جسمانی اور معاشی تشدد سے تاحال انہیں نجات نہیں مل سکی۔
تشدد کا مطلب صرف جسمانی ایذا رسانی ہی نہیں بلکہ معاشی، وراثتی اور دیگر معاملات میں بے انصافی روا رکھنا بھی تشدد ہی کہلاتا ہے۔
تشدد کی بہت سی اقسام ہیں؛ خواتین کو جسمانی سزا، دینا مارنا پیٹنا "جسمانی تشدد” ہے۔ خواتین کو ان کی حیثیت کے مطابق عزت نہ دینا، ماں بہن بیٹی بیوی کی حیثیت سے سماج میں مقام نہ دینا "ذہنی تشدد” ہے، وراثت سے انکار اور ان کو نان نفقہ نہ دینا "معاشی اور مالی تشدد” ہے۔
اسی طرح خواتین کو معاشرے میں ذلیل و رسوا کرنا، بہتان تراشی کرنا "معاشرتی اور سماجی تشدد” ہے؛ باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا اگر اپنی محرم خواتین کا خیال نہ رکھیں وہ "گھریلو تشدد” ہے۔ کسی خاتون کو خواہ کسی بھی عمر کی ہو، اسے جنسی طور پر ہراساں کرنا یا جنسی زیادتی کرنا "جنسی تشدد” ہے، اور کسی خاتون کو انصاف نہ ملنا، اس پر تشدد کرنے والے مجرم کو سزا نہ دینا "قانونی تشدد” ہے اور یہ تشدد، تشدد کی باقی تمام اقسام کا بھی احاطہ کرتا ہے۔
کوئی بھی دن تشدد کے خاتمے کے لیے آواز اٹھانے یا احساس دلانے کے لیے مختص کرنا اور اس پر عمل درامد نہ ہو پانا "اخلاقی تشدد” کے زمرے میں آتا ہے۔
سب سے دکھ کی بات یہ کہ ابھی تک عورت کو ایک مکمل ہستی متصور نہیں کیا گیا۔ مرد اور عورت دونوں کے وجود کو برابری کی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ دونوں ہی ایک دوسرے کی بقا اور راحت کے لیے لازم و ملزوم ہیں پھر دونوں کے رتبے اور درجات میں اتنا فرق کیوں رکھا جاتا ہے؟
چلیں اگر ہم باتیں کرتے ہیں کہ جو مسلمان ممالک نہیں یا مذہب سے دوری کا نتیجہ ہے لیکن پاکستان میں تو 95 فیصد مسلمان ہیں اور مسلمان کسی بھی ملک میں ہوں وہاں عورت کے ساتھ بدسلوکی اور تشدد کے واقعات ہونا باعث حیرت ہے۔
ہمارے پیارے آقا نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے خواتین کو آبگینہ کہا تھا یعنی شیشے جیسی نازک شے سے تشبیہہ دی تھی، اس کی عظمت و رفعت واضح کر دی تھی اور خواتین کو وہ مقام عطا کیا جو ان کے ظاہری ظہور سے پہلے حاصل نہیں تھا۔
ازواج مطہرات علیہم الرضوان کی حیات مبارکہ کا جائزہ لے لیجیے؛ صاحبزادی شہزادی حضرت فاطمہ ابیہہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ معاملات دیکھ لیجیے، اپنی دایہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور پھر دودھ شریک بہن حضرت شیما رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ سلوک کی مثالیں، کسی مقام پر، ایک بار بھی ہلکی سی بھی بال برابر کوئی ایسی بات معلوم ہوئی ہو جو اخلاقی اور اسلامی معیار پر پورا نہ اترتی ہو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تو مجسم اخلاق ہیں، وہ قرآن پاک کا عملی نمونہ ہیں، اور ساری دنیا بلکہ کائناتیں ان کے عمدہ ترین اخلاق کی گواہ ہیں۔ وہ رحمت للعالمین ہیں یعنی سارے جہانوں کے لیے رحمت!
ایک بات واضح رہے کہ ہمارے نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ساری کائناتوں میں بسنے والے چرند پرند، جن و انس، شجر و حجر سب کے لیے باعث رحمت ہیں پھر کسی بھی مذہب کی، مسلک کی، فرقے کی، برداری، ذات پات یا نسل اور یا پھر علاقے کی عورت ہو، وہ قابل احترام ہے۔
اللہ اور اس کے رسول نے کہیں نہیں فرمایا کہ صرف مسلمان عورت کی عزت و تکریم کرو۔ وہ عظیم ترین ہستی تو یہودی کے جنازے پر کھڑے ہو گئے کہ کسی انسان کا جنازہ ہے اس کی حرمت کی پاسداری کرو۔ اب اس امت کو اگر ان سب احادیث کا نہیں پتہ تو یہ ہماری قوم کی جہالت ہے۔
پاکستان میں تو اقلیتوں کا بھی احترام شامل ہے؛ پرچم کا سفید رنگ ملک میں بسنے والی اقلیت کی آزادی اور احترام کی طرف اشارہ ہے، اس میں عورت اور مرد دونوں شامل ہیں۔
خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا دن 25 نومبر 2020 سے منظر عام پر آیا اور خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کو عزت و احترام سے زندگی گزارنے کا مکمل حق دینے کا اعادہ کرنے کا دن ہے۔ یہ دن کل گزر چکا ہے۔
خواتین کی سلامتی اور استحکام کے لیے بہت سے بل پاس کیے گئے جن میں ہراساں کیے جانے کے خلاف، گھریلو تشدد، اور ہر طرح کے تشدد کے لیے ہیلپ لائن متعارف کروائی گئی 1099 جو چوبیس گھنٹے سروس دیتی ہے۔
اگرچہ ابھی کچھ خاص عمل درآمد نہیں ہوا کیونکہ خواتین اپنی اور اپنے اہل خانہ کی سرعام بدنامی یا اس ہیلپ لائن کے استعمال کرنے کے بعد سنگین حالات سے دوچار ہونے سے گھبراتی ہیں کیونکہ اگر ان خواتین کی مدد کر بھی دی جائے تو رہنا تو انہیں اسی ماحول میں ہے۔
تشدد کی ان سب اقسام کی بدترین مثال مقبوضہ کشمیر کی مظلوم خواتین کی ہے جن کو وہاں پر بھارتی افواج کے محاصرے میں بہت مجبور زندگی گزارنی پڑ رہی ہے۔ قابض بھارتی فوج جعلی چھاپوں، تلاشی کی کاروائیوں کی آڑ میں وہاں کی خواتین سے انتہائی مذموم اور شرمناک حرکتیں کرتے ہیں۔ جوان بچیوں اور خواتین کے ساتھ دست درازی کرنا ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرنا ایک عام معمول ہے۔ 1990 سے اب تک تقریباً گیارہ ہزار خواتین کی جان اور آبرو قابض بھارتی فوج چھین چکی ہے اور 5 اگست 2019 سے غیرقانونی اقدامات اور کشمیری خواتین کے خلاف ریاستی سرپرستی میں تشدد کی اقسام عام سطح سے کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ اور ان کی شکایات زیادہ سامنے نہ آنے کی وجہ بعد کے سنگین حالات کی وجہ سے ہے۔
دنیا میں سب سے بڑی تعداد میں فوج کی موجودگی رکھنے والے اس خطے میں بھارتی فوج جنسی زیادتی کو جنگی ہتھیار سمجھ کر استعمال کر رہی ہے۔ 19-2018 کی اقوام متحدہ رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں غیرقانونی قابض بھارتی افواج کشمیری خواتین کے ساتھ جسمانی اور جنسی زیادتی جیسے تشدد کے ساتھ انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر سنگین خلاف ورزیاں کر رہی ہیں۔
رپورٹ میں عالمی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ غیرقانونی قابض بھارتی فوج کو شدید ظلم ڈھانے سے روکے اور انسانی حقوق کے مطابق کشمیری خواتین پر مظالم کے سدباب کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔