تعلیمکالم

دنیا چاند مریخ تک جا پہنچی اور ہماری بچیاں مڈل سکول تک نہیں پہنچ سکتیں؟

ارم رحمان

10 نومبر 2022 کو دیامیر گلگت بلتستان میں سمیگال داریل کے مقام پر کچھ شرپسندوں نے طالبات کا سکول جلا کر خاکستر کر دیا، جلائے گئے گرلز مڈل سکول کو دوسری عمارت میں منتقل کر دیا گیا ہے جہاں لیبارٹری اور لائبریری بھی طالبات کو فراہم کی گئیں۔

یہ بات کس قدر افسوسناک اور حیرت انگیز ہے کہ ایک عشرے سے طالبات کے سکول جلائے جا رہے ہیں۔ افسوس ناک بات اس لیے کہ ریاست اور قانونی ادارے اتنے بے بس ہیں کہ دس سال سے ہونے والی اس تخریب کاری اور اندرونی دہشت گردی کا اب تک خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔

19 اکتوبر کو ضلع کیچ اور مکران ڈویژن کے دیگر علاقوں میں بھی ایسا ہوا، 2018 میں 12 سکولوں پر بم سے حملے کیے گئے جن میں سے 8 گرلز سکول تھے، اور بیشتر واقعات میں تباہ شدہ حال سکول بحال نہیں کیے جا سکے۔

تعلیمی اداروں کو شدید نقصان پہنچا لیکن آج تک کسی نے ذمہ داری لی اور نہ ہی مجرم پکڑے گئے۔ آرمی پبلک سکول، تانگیر، ہوڈر، جنگکوٹ، کھنبری، گلی بالا اور گلپائیں سمیت ضم اضلاع میں متعدد جگہوں پر ایسے سانحات ہوئے لیکن سب افسوس کر کے خاموش ہو جاتے ہیں، اب تک کوئی روک تھام اور ایسے حادثات کا سدباب نہیں کیا جا سکا۔

اور حیرت انگیز اس لیے کہ اکیسویں صدی کا ربع گزرنے والا ہے، ساری دنیا میں تعلیم کی اہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہے اور ہمارے وطن عزیز میں ابھی چھوٹی بچیوں کے سکول تک محفوظ نہیں۔ اس طرح کے واقعات پوری دنیا میں پاکستان کے حوالے سے کیا پیغام پہنچاتے ہیں؟

کہ دنیا چاند مریخ تک جا پہنچی اور ہمارے وطن کی بچیاں اپنے علاقے کے مڈل سکول تک نہیں پہنچ سکتیں؟ آفرین ہے ریاست کے کرتا دھرتا اور حکمرانوں پر، پولیس، عدلیہ، مقننہ اور ہر اس ادارے پر جو اس طرح کی مذموم حرکت کرنے والوں تک رسائی نہیں رکھتے۔

کہاں سے آتے ہیں یہ لوگ جن کی کوئی پکڑ نہیں؟ جب دل چاہا جلا دیا، تباہ برباد کر دیا۔

بات دوسری عمارت میں سکول بنانے کی نہیں بلکہ ایسے سرکش اور بدنیت مجرموں کو عبرت ناک انجام تک پہنچانے کی ہے۔ اگر پہلا سکول جلنے پر ہی بیخ کنی کی جاتی تو دوسرا سکول جلنے کی نوبت ہی نہ آتی۔

درحقیقت پہلا سکول بھی جلنا نہیں چاہیے تھا لیکن چلیے مان لیتے ہیں کہ اس قدر گری ہوئی حرکت کی کسی ذی شعور سے امید نہیں تھی یا کچھ غفلت برتی گئی، کچھی بھی بہانہ بنا لیں لیکن دوسری بار تیسری بار حتیٰ کہ دس سال گزر گئے اور یہ سکول جلانے کی ناقابل معافی مہم جاری رکھی گئی؛ انتظامیہ اور حکمران کوئی بھی روک نہیں سکا، اس بات پر شرمندگی اور ندامت محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے سوال اٹھتے ہیں:

آخر یہ سکول جلانے جیسی قبیح حرکت کرنے والے لوگ کون ہیں؟

ان کے عزائم و مقاصد کیا ہیں؟

یہ سکول جلا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟

کیا ان کی پشت پناہی بھیڑوں میں چھپے بھیڑیے کر رہے ہیں؟

وطن عزیز کو ایسے لوگوں سے اب تک چھٹکارہ کیوں نہیں دلایا جا سکا؟

آرمڈ فورسز نے بڑے سے بڑے دہشتگردوں کے خلاف ضرب عضب، ردالفساد، کیا کچھ نہیں کیا، پاکستان کے ہزاروں جوان شہید ہو گئے اس دہشتگردی سے ملک کو بچاتے بچاتے، ان شرپسندوں کے خلاف لڑتے لڑتے، تو یہ لوگ کون ہیں؟ بچیوں کی تعلیم سے انھیں کیا تکلیف ہے؟

اگر اسلام کا نام لینے والے ہیں تو خبردار رہیے لمبی داڑھی چہرے پر اور سر پر ٹوپی رکھنے والا ہر مرد مسلمان نہیں ہوتا، اسلام اور پردے کا بچیوں کو پڑھانے سے کوئی تعلق نہیں۔ ہر وہ تعلیم جو عورت اور مرد کو اچھا مسلمان اور اچھا انسان بنانے میں معاون ہو اسے حاصل کرنا فرض ہے۔

پردے میں رہ کر عزت سے معاشی استحکام حاصل کرنا جائز ہے۔ سماج کے ٹھیکیدار اپنا قبلہ درست کریں۔ پردے کی آڑ میں خواتین کو تعلیم سے بہرہمند نہ ہونے دینا خبث باطن کی علامت ہے۔

اسلام کا نام لے کر اپنی بدفطرتی کو چھپانے والے بدصورت لوگوں سے نپٹنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ مرد پڑھے عورت نہ پڑھے۔

اگر ماں پڑھی لکھی، تعلیم و تربیت سے آراستہ نہیں ہو گی تو وہ اپنی اولاد، بیٹا یا بیٹی کی تربیت کیسے کرے گی؟ کیا ایک عورت کو سماجی، معاشی، معاشرتی ترقی میں حصہ دار نہیں ہونا چاہیے؟ کیا عورت کا کام صرف ایک جاہل مرد کی فرمانبرداری کرنا ہے۔

ہر طرح کی تعلیم اس لیے حاصل نہ کی جائے کہ باپ بھائی شوہر کی ناک کٹتی ہے، کمال ہے! ان پڑھ عورت پر ظلم کرتے جاہل مردوں کی ناک نہیں کٹتی؟ اسلام کے رہنماؤں کی گھر کی خواتین اسلام سے متعلق بھی کچھ نہیں سیکھ سمجھ سکتیں؟ خواتین کو ضروری اور لازمی تعلیم سے محروم رکھنے میں کون سی مردانگی، بڑائی یا مسلمان ہونا ثابت ہوتا ہے؟

جو صورتحال ہے اس سے تو یہ ہی محسوس ہوتا ہے کہ خواتین تعلیم اور معاشی استحکام سے صرف وہ مرد خوفزدہ ہیں جو خواتین پر اپنی برتری جتانا چاہتے ہیں۔ وہ مرد خوفزدہ ہیں کہ اگر خواتین پڑھی ہوں گی تو ان کی جہالت سے بھرپور باتوں پر عمل نہیں کریں گی۔

صرف یہ بتا دیں کہ عورت پر حکم چلانے کی ضرورت کیا ہے؟ غلامی اور محکومیت سے عزت اور محبت تو حاصل نہیں ہوتی، عورت اور مرد کی برابری کا مطلب دونوں کا اپنے فرائض سے سبکدوش ہونا تو نہیں۔ مرد و عورت تو ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اور ان کا ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلنا خود ان کے لیے ہی باعث راحت ہے۔

اچھی نسل کے لیے اچھی ماں بلکہ اچھے والدین کی اشد ضروت ہے۔ ملک میں امن امان اور ترقی کے لیے خواتین کی تعلیم پر اتنا ہی زور دینا ہو گا جتنا کہ مرد کی تعلیم پر دیا جاتا ہے۔ اور شرپسند عناصر کا بے قابو ہونا سراسر حکومت اور ریاست کی نااہلی ہے۔ اگر آرمڈ فورسز خارجی شرپسندوں کی سرکوبی کر سکتی ہیں تو داخلی دہشت گردوں کی کیوں نہیں؟

اب پاکستان میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آنا چاہیے۔ اور خدانخواستہ ایسا ہوا تو پھر حکمران اور اعلی عہدیداروں پر سوال اٹھانا بنتا ہے کہ کہیں وہ ایسے شرپسند عناصر کی پشت پناہی تو نہیں کر رہے؟ اور سوچنا چاہیے کہ ایسے حادثات اور سانحات کے ذمہ دار وہ خود تو نہیں؟

کیونکہ مذہب اور مسلک کا ان مذموم حرکتوں اور مکروہ جرائم  سے کوئی تعلق واسطہ نہیں!

Erum
ارم رحمٰن بنیادی طور پر ایک شاعرہ اور کہانی نویس ہیں، مزاح بھی لکھتی ہیں۔ سیاست سے زیادہ دلچسپی نہیں تاہم سماجی مسائل سے متعلق ان کے مضامین نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ پڑوسی ملک سمیت عالمی سطح کے رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button