ارم رحمان
جنسی زیادتی درندگی اور بربریت کے علاوہ انتہائی دردناک اور اذیت ناک احساس ہے جسے کوئی بھی انسان باسانی محسوس کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ انسان نما درندہ نہ ہو ، ذہنی مریض pedofile کہہ کر جان چھڑا لینا کسی مسئلے کا حل نہیں۔
آئے دن کمسن بچے بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے ابھی تو جو رپورٹ درج ہوئی ہیں ان کی تفصیل ہی روح فرسا ہے لیکن یقین ہے کہ اس سے کہیں زیادہ زیادتی کے واقعات وقوع پذیر ہوئے ہوں گے یا ہوتے ہیں اور لوگ اپنی بدنامی کے ڈر سے یہ بات چھپاتے ہیں کیونکہ پولیس والوں کو بھی ایک نیا بکرا مل جاتا ہے کہ مال پانی مل سکے اور میڈیا کے ہتھے بھی ایک نئی خبر چڑھ جاتی ہے۔
پھر یہ بد فطرت اور بے وقوف سماج اس بچے کے والدین سے طرح طرح کے تکلیف دہ سوال کرتا ہے اور بچے کو تضحیک آمیز نظروں سے دیکھا جاتا ہے کچھ بے حس تو بعد میں مذاق بھی اڑاتے ہیں غرض یہ کہ کچھ سنگین حالات میں بچے جنسی زیادتی اور بدفعلی کے بعد درد ناک طریقے سے قتل کر دئیے جاتے ہیں۔
کچھ بچوں کے والدین کو اس بچے کے ساتھ زیادتی کی ویڈیو بنا کر بلیک میل بھی کیا جاتاہے۔
"زینب الرٹ بل ” 2019 میں پاس کر دیا گیا, لیکن عمل درآمد تو ہوا نہیں ، نہ ہو سکتا ہے کیونکہ مجرم پکڑے نہیں جاتے یا عدم ثبوت کی فراہمی کے باعث گواہان کی غیر موجودگی ، مجرم کو صاف بچا جاتی ہے۔
ویسے بھی بڑے بڑے گروہ جو بچوں کی porn video بنا کر بیرون ممالک بھیجتے ہیں ان کے سرغنہ کوئی معمولی لوگ نہیں ہوتے ان کے اثر رسوخ بہت بڑے لوگوں سے ہوتے ہیں جو اس قبیح کام میں ان کی باقاعدہ پشت پناہی کرتے ہیں
ورنہ یہ اتنا بڑا گینگ کبھی پنپ ہی نہ سکے۔
"قصور میں جنسی زیادتی سیکنڈل” اس قدر بڑا دھبہ تھا کہ اس کے بعد تو اس گینگ کے کرتا دھرتا سمیت سب کو ان کے انجام تک پہنچا دینا چاہیے تھا اور ایسی عبرت ناک سزائیں دیتے کہ دوبارہ کسی کی ہمت نہیں پڑتی لیکن سب ہوائی باتیں ، کچھ دن کا شورو غوغا پھر کوئی اور واقعہ دکھ یہ ہے کہ سارے انتظامات اور قوانین کے باوجود صورتحال سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے ، ہر سال واقعات میں اضافہ تمام باتوں سے زیادہ ایک اہم ترین بات والدین کو آگاہی دینا ہے۔
والدین کی تربیت کی جائے کہ کس طرح اپنے چھوٹے بچوں کا خیال رکھنا ہے کسی پر اندھا بھروسہ نہیں کرنا چاہیے
لیکن بدقسمتی کی انتہا دیکھیے کہ جنسی زیادتی کے بہت سارے واقعات میں سگے خونی رشتے موجود ہیں ، ماموں ،چچا اور بڑے کزنز ، اب بچے ماموں چچا جیسے مقدس رشتوں پر بھی اعتبار نہ کر سکیں تو تف ہے ان قریبی خونی رشتوں پر ملازم اور گلی محلے والوں سے تو بندہ بچا سکتا ہے اپنوں سے کون بچائے لیکن اس کو بھی کوشش کرکے کچھ بچت کی کوشش کی جاسکتی ہے۔
بچوں کو کسی سے بھی زیادہ بے تکلف نہ ہونے دیں کسی کے گھر رہنے اور جانے کا عادی نہ بنایا جائے کسی سے کچھ بھی لے کر کھانے سے ممکنہ منع کیا جائے سب سے بڑھ کر تھوڑے بڑے بچوں کو کسی کے حوالے نہ کیا جائے
ملازمت پیشہ خواتین کی مجبوری ہوتی ہے کہ بچوں کو ملازم یا ملازمہ کے رحم و کرم پر چھوڑنا پڑتا ہے کیونکہ گھر میں ان کو سنبھالنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
اس ملازم اورملازمہ کا سارا ریکارڈ بھی معلوم ہو رہائش اور شناختی کارڈ وغیرہ لیکن خدشات ہمیشہ رہتے ہیں
کیونکہ مجرم ہر احساس اور ذمہ داری حتیٰ کہ ڈر ،خوف سے عاری ہوکر جرم کرتا ہے لہذا اپنی بھر ہور کوشش کرتی رہنی چاہیے کہ ںچوں کو بچایا جا سکے۔
اب بات کرتے ہیں بچوں کے ساتھ بدفعلی یا زیادتی کی اور بچہ زندہ بچ گیا تو اس کا خاص خیال کرنا چاہیے اسے اتنا حوصلہ اور اعتماد دیجیے کہ وہ بتا سکے کہ اس کے ساتھ یہ ظلم کس نے کیا ہے ؟
بچے کو یہ احساس دلایا جائے کہ اس کے والدین اور سرپرست اس کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن یہ معاشرہ اتنا ظالم ہے کہ مظلوم کو ہی ذلیل و رسوا کرتے ہیں اسے طعنے دیتے ہیں یا اس کے والدین کو اتنا تنگ کرتے ہیں کہ انھیں نہ ہوتے ہوئے بھی سارا قصور بچوں کا نظر انے لگتا ،چڑچڑاہٹ اور صدمے سے دو ار والدین بھی بچوں کو ہی طعنے اور کوسنے دینے لگتے ہیں۔
تھوڑی دیر تو سوچیے کیا ہم واقعی انسان ہیں ؟ ہمیں اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے ؟ ظلم زیادتی ایک کے ساتھ ہو ساری انسانیت لرز جاتی ہے کیا کسی کا بچہ ،اتنا بے بوقعت ہے کہ اپ اس کے بارے میں جو بھی سوچیں ،جو بھی کریں کوئی فرق نہیں پڑتا اگر اس بچے بچی کی جگہ اپ کا بچہ ہوتا تو ؟ روح کانپے گی نا، پھر ہم ایسے لوگوں کی ذہنی اور اعصابی مدد کیوں نہیں کرتے اخلاقیات کو پیچھے کیوں چھوڑ دیتے ہیں جرائم روکنا ریاست کی ذمہ داری ہے،
مجرم کو پکڑنا سزا دینا پولیس اور عدالت کی ذمہ داری ہے، باقی عوام کی کیا ذمہ داری ہے ؟
اخلاق ذمہ داری، سماجی ذمہ داری ایسے گندے گھناؤنے واقعات سے متاثر شدہ والدین اور بچوں کی دل جوئی کیجیے ان کے غم میں برابر کے شریک بن جائیں اور معصوم بچے اور بچی کو اتنی عزت احترام اور محبت دیں کہ وہ اپنے ساتھ ہوئے ظلم کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ سکے۔
اس کے زخم کا مرہم بن جائیں طعنے تشنے اور مضحکہ خیز اشارے بازی سے بچیں سب کو برا اور غلط کہنے کی بجائے اپنا فرض بھی تو پورا کریں کیونکہ عوام اگر ایک دوسرے کی عم گسار بن جائے تو شاید ہم پر حکومت کرنے والے حکمران اور سارے وردیوں والے بھی درست کام کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کیونکہ کہتے ہیں نا کہ بدتر قوم پر بدترین حکمران مسلط کر دئیے جاتے ہیں۔