لنڈن سے لنڈے تک
ارم رحمان
لنڈا بازار کتنوں کے بھرم رکھے ہوئے ہے۔
اور اس لنڈے بازار میں سب باہر کا یعنی imported مال دستیاب ہوتا ہے؛ ایک سے بڑھ کر ایک سویٹر جرسیاں، کوٹ، ہینڈ بیگ، خالص چمڑے کے جوتے، کراکری، پردے حتی کہ کچن کا سامان، ڈیکوریشن پیس تک مل جاتے ہیں۔
اور ایسی اشیاء جو عام جگہوں پر شدید مہنگی ملتی ہیں اور خالص ہونے کی ضمانت بھی نہیں، اس بازار میں بہ آسانی کم نرخ پر دستیاب ہوتی ہیں۔
امراء ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور پھر لنڈے سے مطلوبہ سویٹرز، کوٹ، جینز، ہینڈ بیگز اور لیڈیز کوٹ، شوز کو باہر مقیم کسی آنٹی یا انکل کا تحفہ کہہ کر اپنی پوش سوسائٹی میں متعارف کرواتے ہیں۔
اس لنڈے بازار کی تاریخ اور اس کا قیام کچھ بھی ہو لیکن دراصل یہ سارا مال امیر ممالک سے امدادی طور پر غریب ملکوں کو مفت بھیجا جاتا ہے اور پھر عزیزان وطن اس مال کی چھانٹی کرتے ہیں؛ بہترین اور قیمتی مال "پوش علاقوں” میں بھاری قیمت پر بیچا جاتا ہے، پھر جیسے جیسے کپڑوں اور دیگر اشیاء کی مارکیٹ ویلیو ہوتی ہے اس حساب سے نرخ کم زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔
کچھ اچھے علاقوں میں قیمت زیادہ کچھ اوسط علاقوں میں کم غرضیکہ مفت کا مال، کسی کو مفت میں نہیں ملتا، اس بازار میں صرف "اترن” نہیں ہوتی بلکہ old fashioned چیزیں کپڑے اور wool stuff بھی بالکل نئی حالت میں مل جاتا ہے۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یورپین ممالک میں چونکہ لانڈری بہت مہنگی پڑتی ہے تو گورے پرانے میلے کپڑے وغیرہ دھونے کی بجائے نئے لینا مناسب سمجھتے ہیں۔ یا یوں بھی سمجھیے کہ نیا مال سستا ہوتا ہے اور لوگوں کی قوت خرید اچھی ہے اس لیے میلا کپڑا دھلوانے کی نسبت نئے کپڑے لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ویسے بھی صاف بات ہے میل کپڑوں کا ہو یا دل کا مشکل سے ہی صاف ہوتا ہے، دل تو نیا نہیں لے سکتے کپڑے تو لیے جا سکتے ہیں۔
لنڈے بازار کی قدرو منزلت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ پاکستان کے ہر بڑے شہر میں لنڈا بازار موجود ہے اور اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے امیر پہنتا ہے تو امیر ترین لگتا ہے اور غریب، غریب ترین کیونکہ جو میٹریل یہاں دستیاب ہے وہ بہت عمدہ ہے، اور عام بندہ خرید نہیں سکتا اور لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ اس نے لنڈے سے لیا ہے۔
لاہور کے ریلوے سٹیشن اور بس سٹاپ کے پاس یہ بازار کافی وسیع ہے اور دیگر بازاروں میں بھی ایک دو دکانیں آرام سے نظر آ جاتی ہیں۔ کچھ عرصے تک صرف وہ لوگ لنڈا بازار جاتے تھے جو سفید پوش تھے اور ہاتھ پھیلانے کی لعنت سے بچنے کے لیے چوری چھپے کم قیمت پر دستیاب لنڈے سے اپنے استعمال کے کپڑے وغیرہ اور ضروریات کے مطابق اشیاء خرید لاتے تھے مگر دور حاضر میں امیر اور فیشن ایبل لوگ اگر لنڈے بازار میں خریداری کرتے پکڑے جائیں تو بیان کرتے ہیں کہ "لنڈے بازار سے تو خالص اور منفرد سامان ملتا ہے اور پاکستان کی عوام کو تو اچھے برے کی تمیز ہی کہاں لہذا ہم تو یونیک چیزیں لینے جاتے ہیں۔”
لیکن سچ یہ ہے کہ لنڈا بازار غریبوں کی عزت رکھنے اور غربت چھپانے کی پناہ گاہ تھا۔ کچھ بھی کہیں یہ جگہ دھتکاری ہوئی چیزوں کی آماج گاہ ہے اور سفید پوش کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر کسی کی پرانی چیز سستے داموں خرید کر گزارا کرتے ہیں۔
اور ہمارے معاشرے کی منافقت کا اندازہ کر لیجیے کہ کبھی کسی نے آ کر کسی بھی فنکشن میں فخریہ نہیں بتایا کہ "ہم تو لنڈے سے ہی شاپنگ کرتے ہیں کیونکہ بہت منفرد اور خالص سامان ملتا ہے۔”
اور حساب لگائیے گا کہ سردی سے ٹھٹھر کر مرنے والوں میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جن کی لنڈے سے بھی سویٹر یا گرم سامان خریدنے کی حیثیت نہیں ہوتی۔ کوئی غربت سے خودکشی کرنا نہیں چاہتا لیکن وہ بے چارے سستا سامان، اترن تک نہیں خرید سکتے۔
اور پاکستان میں حالیہ شدید سیلاب کے بعد اب مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہو گیا ہے۔ لنڈے کا عام سا سویٹر، جوتا اور جیکٹ بھی غریب عوام کی پہنچ سے دور ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ غریبوں کے لیے امدادی سامان غریب سفید پوشوں تک مفت پہنچا دیا جاتا یوں بازار لگا کر ان کی غربت کو سربازار رسوا نہ کیا جاتا۔ لنڈے بازار سے "یونیک، امپورٹڈ سامان”، جو خریداری کرنا چاہیں، کریں لیکن کچھ دکانیں تو صرف غریبوں کے لیے چھوڑ دیں!
درحقیقت لنڈا بازار اور اس میں مہنگی اشیاء جو کسی بھی غریب کی ضرورت پوری نہ کر سکیں، حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہیں کہ عوام کو ضروریات زندگی مہیا کرنا ریاست کا فرض ہے اور وہ اسے پورا نہیں کر سکتی۔ اس پر مزید ظلم کہ جو امیر ممالک امدادی سامان بھیجتے ہیں وہ بھی آپس میں ساز باز کر کے مہنگے داموں بیچا جاتا ہے اور اصل حقدار ہمیشہ کی طرح محروم رہ جاتے ہیں۔
اور اب تو یہ سامان بھی اسقدر مہنگا ہو گیا ہے کہ سفید پوش بھی خرید نہیں پاتے۔
جن لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یونیک چیزیں ملتی ہیں ان سے کہیں کہ وہ لنڈے سے یونیک سامان لے کر اپنی عام چیزیں پاکستانی عوام میں مفت بانٹ دیں، پھر دیکھتے ہیں کتنے انفرادیت پسند لوگ، عام اور پرانے سامان سے اٹا گھر خالی کرتے ہیں تاکہ باہر ممالک کی نوادرات گھر میں رکھ سکیں اور غریب اور کم فہم عوام ان کے پرانے سامان پہ گزارا کر سکیں جنییں ان کی طرح کھرے کھوٹے کی پہچان ہے ہی نہیں۔