انگلینڈ سے شکست: پی سی بی چیئرمین جواب دیں!
حیدر عباس
پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم نے ہاتھ آیا ٹی 20 ورلڈ کپ چمپئن بننے کا بہترین موقع گنوا دیا؛ اس کے پیچھے کئی ایک عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں۔
ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی پرفارمنس پر نظر دوڑائی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ماسوائے نیوزی لینڈ کے میچ کے پاکستان ٹیم کی مجموعی کارکردگی تسلی بخش نہیں تھی، کبھی باؤلرز بلے بازوں کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتے جبکہ بلے بازوں سے رنز نہیں ہو پا رہے تھے۔ سفارشی کلچر اور پسند و ناپسند کے تحت منتخب قومی ٹیم کمزور ترین ٹیم ثابت ہوئی۔
جب ایونٹ شروع ہوا تو غالب گمان تھا کہ پاکستانی ٹیم ٹائٹل جیت جائے گی لیکن اس سے بھی زیادہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اگر جیت نہیں پاتی تو کم از کم ان کی پرفارمنس متاثرکن ضرور ہو گی لیکن جب ایونٹ شروع ہوا تو لگاتار شکستوں نے قوم کو اپنی ٹیم سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، زمبابوے اور بھارت سے شکست تاریخ کے اوراق پر درج ہیں، انہیں دیکھ کر کارکردگی کا پول کھل جاتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ ٹیم کو ایونٹ کیلئے تیار ہی نہیں کرایا گیا تھا۔
مبصرین اور تجزیہ نگار ان کی فائنل میں انٹری سے قبل 92 ورلڈ کپ سے موجودہ میگا ایونٹ کے اشاریے جوڑتے اور شائقین کو خوش کرنے کیلئے اپنی اپنی رائے کا وقتاً فوقتاً اظہار کرتے رہے ہیں، اس میں کھلاڑیوں کی دادرسی کا عنصر بھی چھپا رہتا تھا کہ شاید ان کی فارم بحال ہو اور ان پر پڑا پریشر کم ہو لیکن سب باتیں انگلینڈ کے مدمقابل آ کر ہوا ہو گئیں۔
یہاں یہ بات مزے کی ہے کہ فائنل میں پہنچنے سے قبل قومی ٹیم کو اگر مگر کی صورتحال سے بھی گزرنا پڑا اور کئی مراحل پر ہمیں آگے بڑھنے کیلئے دیگر ٹیموں کی کارکردگی پر انحصار کرنا پڑا۔ آئرلینڈ کا بھی مشکور ہونا چاہئے کہ ان کی میچ میں کامیابی کی بدولت ہم سیمی فائنل میں پہنچے۔
شاہین آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ کے فائنل میں بھی جم کر کھیل نہ سکے، قومی ٹیم کسی کلب لیول کی ٹیم دکھائی دی، رضوان جن سے امیدیں وابستہ کی جا رہی تھیں جلد آؤٹ ہو گئے ان کے بعد تو جیسے کھلاڑی خود ہی انگلش باؤلرز کو وکٹیں دیتے رہے اور پوری ٹیم 20 اوورز میں 8 وکٹوں پر 137 کا مجموعہ ترتیب دینے تک محدود رہی اور ملبورن کی وکٹوں سے خصوصی واقفیت رکھنے والی انگلش ٹیم نے، جو ایشز سیریز انہی میدانوں پر سالوں سے کھیلتی آ رہی ہے، یہ آسان ٹارگٹ 5 وکٹوں پر ایک اوور قبل پورا کر کے نہ صرف ٹائٹل قبضہ کر لیا بلکہ ان کی اس جیت میں 92 ورلڈ کپ کی شکست کا بدلہ لینے کی بھوک بھی جھلکنے لگی تھی۔
ان کی شروع سے کوشش رہی ہے کہ پاکستان سے 1992 ورلڈ کپ فائنل میں شکست کا بدلہ لیا جا سکے اور ان کی یہ کوشش 30 سال کے طویل وقفے کے بعد پوری ہو پائی۔
اس ایونٹ کے فیصلہ کن میچ سے قبل 1992ء ورلڈ کپ فاتح ٹیم کے کپتان عمران خان سمیت 2009 کے فاتح سکواڈ کے لیڈر یونس خان بھی قوی ٹیم کو کامیابی کے کئی گر بتا چکے تھے۔ اور تو اور خود پی سی بی چیئرین رمیز راجہ جو 92 ورلڈ کپ کا حصہ تھے وہیں میچ سے قبل موجود تھے لیکن ان کی موجودگی بھی کوئی جادو نہ جگا سکی الٹا شاید ان کی موجودگی کا پریشر ہی تھا جو ٹیم کی پرفارمنس کے آڑے آیا اور ان کے قدم ڈگمگا گئے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ انگلش ٹیم دوسری بار ٹی 20 کا ٹائٹل لے اڑی، پہلی بار 2010 میں جیتا تھا۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کی فائنل میں شکست میں کھلاڑیوں کی فارم اور فٹنس کا بھی ہاتھ ہو سکتا ہے کیونکہ یہی وہ پہلو ہیں جن کو قابو کرنا کسی بھی کھلاڑی کی کامیابی کی دلیل ہے۔ سابق قومی فاسٹ باؤلر عاقب جاوید نے اس سے قبل شاہین آفریدی کی فٹنس پر سوال اٹھایا تھا جسے درخوراعتنا نہ سمجھتے ہوئے کھلاڑی کو کھیلنے دیا گیا لیکن عین موقع پر اور فیصلہ کن گھڑی میں راز کھل گیا کہ کھلاڑی واقعی فٹ نہیں تھا اور اب شاید اسے کم بیک میں کافی عرصہ لگے، اس بات کا اعتراف خود شاہین آفریدی نے بھی کیا کہ میں نے آنے میں جلدی کی۔
ایسا قطعی نہیں ہونا چاہئے تھا، اس سے ملکی وقار مجرح ہوا۔ پی سی بی کو سفارشی کلچر کا خاتمہ کرنا ہو گا، کیا پی سی بی کے پاس یہی ایک فاسٹ باؤلر تھا جو عجلت مٰں بلایا گیا، اس سے تو خود کھلاڑی کی فٹنس متاثر ہوئی، تربیتی سیشنز میں کئی ایسے پیسرز سامنے آئے لیکن پی سی بی نجانے کس کی باتوں میں آ گیا اور انجری کے شکار کھلاڑیوں کو پلینگ الیون میں شامل کر لیا۔
انگلش اور آسٹریلین سرزمین پر کھیلنے کا تجربہ جتنا محد عباس کو ہے اور جتنی ان کی پرفارمنس ہے شائد ہی کسی اور کی ہو، اس وقت پی سی بی کو جنید خان کیوں دکھائی نہیں دیا، عامر کو کیوں نہیں چنا گیا، ان کے علاوہ بھی اچھی خاصی کھیپ موجود ہے جس میں سے گوہر نایاب ڈھونڈے جا سکتے تھے، کیا ایسا ایک بھی باؤلر نہیں تھا جس کی شمولیت کی جاتی؟
ایسا ہی کھیل بیٹنگ میں بھی کھیلا گیا، اس اہم موڑ پر بھی تجربات کئے گئے، سرفراز احمد کو سپیشلٹ بلے باز کے طور پر بھی کھلایا جا سکتا تھا، ون ڈاؤن پر ان کی پرفارمنس سے خاصا فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا، انہیں کیوں نظر انداز کیا گیا حالانکہ وہ گزشتہ چمپئنز ٹرافی میں کارکردگی کا لوہا منوا چکے ہیں۔
فخر زمان کو انجری اور فٹنس کے معاملے کے درمیان لٹکایا گیا؛ کبھی ادھر تو کبھی ادھر، آخر کیوں اس جیسے گوہر نایاب کے ساتھ مذاق کیا گیا؟ دیگر بھی ایسے کئی کھلاڑی ہیں جن کی پرفارمنس پر آہستہ آہستہ انگلیاں اٹھیں گی۔
یہ بات واضح ہے کہ آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ کیلئے منتخب کھلاریوں کو بشمول چیئرمین اور سلیکشن پینل کے عوام کو جواب دینا ہو گا، یہ ٹرافی سے زیادہ وقار کی بات ہوتی ہے۔
ٹی 20 ورلڈ کپ کے بعد قومی ٹیم کی واپسی پر ہونے والے سوالات کا سامنا کرنے کیلئے بھی کھلاڑیوں کو تیار رہنا ہو گا کیونکہ مداح ان کی پرفارمنس پر خاصے ناراض ہیں، انہیں ان کی باتوں کا برا منانے کی بجائے درست انداز میں سوالات کا جواب دینا ہو گا نہ کہ کسی بھی طرح کا جارحانہ انداز اپنایا جائے۔