طلاق یا مذاق
ارم رحمان
انڈیا کی نامور کھلاڑی ثانیہ مرزا اور پاکستان کے نامور کھلاڑی شعیب ملک میں طلاق دھچکہ لگا کیونکہ دونوں ہی بہت سمجھدار ہیں اور دونوں ہی کھلاڑی ہیں اور سب جانتے ہیں Sports man spirit کسے کہتے ہیں
لیکن جب دونوں کھلاڑی ہی یہ خوبی نہیں رکھتے تو کسی عام انسان سے کیا گلہ یا پھر یوں سمجھیے کہ انسان کسی بھی پیشے سے ہو یا شعبے سے اس کی عمر جتنی مرضی ہو اور جتنا بھی قابل ہو اس بات کی بالکل ضمانت نہیں کہ وہ واقعی ایک اچھا انسان ہے۔
کم تعلیم یافتہ بنا ڈگری کے، غربت اور عسرت زدہ زندگی گزارنے والے خوش باش رہتے ہیں اور امیر کبیر اداس دکھی اور عدم توازن کا شکار اسی طرح سے کچھ دنوں میں کئ اداکار جوڑوں میں طلاق کی افسوس ناک خبریں سننے میں آرہی ہیں۔
حالیہ دنوں میں فیروز خان جیسے نہایت لاجواب ادکاری کرنے والے ہیرو اپنی شریک حیات پر تشدد کی وجہ سے خبروں میں ہے۔ ذہنی اور جسمانی تشدد کے بعد طلاق اور پھر دونوں بچے بھی ماں کی شفقت سے محروم کر دئیے گئے
اور ایک بہت اونچا نام ماضی کی معروف اداکارہ نغمہ کی با صلاحیت بیٹی اداکارہ مدیحہ نقوی صاحبہ اور ان کے اداکار شوہر کے درمیان میں بھی طلاق سننے میں آئی یعنی جدائی کی پکی دیوار کھڑی ہوگئ۔
اور اس پر مزید بیان بازی کے” ہم اپنی دوبچیوں کی وجہ سے اچھے والدین کی طرح ملیں گے اور انھیں کوئی مشکل نہیں پڑے گی ” اب ان سب کو کون سمجھائے کہ طلاق ایک ایسی حلال چیز ہے جو حرام سے بھی بڑھ کر خطرناک ہوتی ہے اور لوگ اسے حلال کہہ کر سارے مسئلے حل کرنا چاہتے ہیں۔
ٹھیک ہے "طلاق ایک جائز عمل ہے لیکن اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ترین اور سب سے بڑھ کر طلاق کے بعد اچھے والدین بنیں گے اس کا مطلب ہے والدین اور اولاد جیسے مقدس رشتے میں بھی ” اداکاری” کریں گے۔
چلیے اداکاری کرنی ہی تھی تو طلاق کے بغیر بچوں کی اچھی تربیت اور خوشی کی خاطر اداکاری کر لیتے ،
یہ طفل تسلی کس کو دے رہے ہیں ؟
صرف خود کو نارمل ظاہر کرنے کے لیے کہ میڈیا ان کو تنگ نہ کرے ورنہ طلاق تو نام ہی دکھ کا ہے ہنسی خوشی طلاق ہوتی اور اس کا کوئی نقصان نہیں ہوتا تو شادی کرتے ہی حجلہء عروسی میں بیوی کی تعریف کریں اور کہہ دیں کہ ہم دونوں اچھے دوست رہیں گے ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے لیکن ساتھ نہیں رہیں گے ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی نہیں بنیں گے تحفہ میں ” طلاق طلاق طلاق”
لیجیے پتہ نہیں اتنی اہم بات لوگ کیوں نہیں سمجھ پارہے کہ طلاق ایک بائی پاس آپریشن ہے جب پرہیز ،دوا ،خوراک اور دیگر تمام حربوں کے باوجود آرام نہ آئے تو آپریشن کی نوبت آتی ہے، اور یوں سمجھیے کہ یہ پسٹل کی وہ بلٹ ہے جو صرف شدید موقع پر ماری جائے لیکن ایک ایک کرکے ،
ایکدم تین گولیاں مار دیں اب بندہ کیسے بچے گا ،؟ ایک گولی مارتے پھر ایک ماہ جدا رہتے سوچتے بڑوں کو مخلص دوستوں عزیز و اقارب سے مشورہ کرتے لیکن لوگ سمجھتے ہیں کہ تماشہ بنے گا لوگ کیا کہیں گے لیکن کچھ بھی ہو جاتا صلح کے چانسز تو تھے Table talk ہوتی ،گلے شکوے اور شکایتیں رازداری سے سنی کہی جاتیں
لیکن ایک دم تینوں گولیاں اپنی بیوی کے سینے میں اتار دیں اور پھر تماشا نہیں ہوگا۔
ایک اور حل سب سے خاموشی سے کسی عالم دین سے ملتے اپنی اور اپنی زوجہ کی زندگی کی تفصیل اور معمولات بتاتے پھر صرف دوسرے شریک سفر کو ہی نہیں خود کو بھی بدلنے کی کوشش کرتے سب سے بڑا مسئلہ ایک ہی ہے
اور وہ ہے ” خود پرستی ” دونوں فریقین اپنی بات پر اڑ جاتے ہیں خواہمخواہ کی ضد بازی ، اکڑ اور جھوٹی انا ، اب مذکورہ بالا تینوں واقعات میں یہ تین جوڑے بہت مشہور اور میچور ہیں لوگ ان کو دیکھنا اور سننا پسند کرتے ہیں آئیڈلائز کرتے ہیں
یہ اداکار اور کھلاڑی وہ لوگ ہیں جو پوری عوام کو اپنے پیچھے لگا سکتے ہیں فلاح عامہ کرسکتے ہیں بنا کسی ذاتی خرچ کے لوگ ان جوڑوں کی مثالیں دیتے ہیں ثانیہ مرزا اور شعیب ملک تو انڈو پاک کے درمیان ایک خوشگوار ترین احساس تھا
لیکن سب درہم بھرم ہوگیا۔
دوسرا دکھ یہ کہ اب لوگ کس کی پیروی کریں کیونکہ ہم سب دن رات سمجھدار ،امیر ،اور مشہور لوگوں کی زندگی کو یوں احمقانہ اور بزدلانہ فیصلوں کی بھینٹ چڑھتا دیکھ رہے ہیں جب انسان اپنے سوا کسی کا احساس نہیں کرتا اس کی نظر میں کسی کی کوئی وقعت ، عزت اور اہمیت نہیں ہوتی تو وہ کتنا ہی پڑھا لکھا ، مشہور ،امیر اور باصلاحیت کیوں نہ ہو ، وہ اچھا انسان نہیں کہلاتا عدم برداشت ،عدم توازن بڑے بڑوں کے ابدی پچھتاوے کا باعث بنتا ہے۔
ایک انٹرویو میں سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان سے سوال پوچھا گیا کہ جب اپنے بچوں سے ملے تو انہوں نے کہا طلاق کا سب سے بڑا نقصان اولاد سے دوری کا ہے مجھے اپنے دونوں بیٹوں سے ملے ہوئے ڈھائی سال ہوگئے” ،حالانکہ جمائمہ ایک اچھی خاتون ہیں اور عمران خان کی ایک خیر خواہ طلاق کے باوجود وہ عمران خان کی ہمیشہ حمایت کرتی نظر آتی ہیں پھر بھی ساری خوبیوں کے باوجود طلاق ایک ایسا دھبہ ہے جو آپ کے قیمتی وجود کو گہنا دیتا ہے ،مرد یا عورت جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ طلاق سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،وہ جھوٹ بولتے ہیں یا انتہائی احمق ہوتے ہیں۔
بلاوجہ کسی شرعی عذر کے طلاق دینے والا مرد اور طلاق مانگنے والی عورت دونوں ہی اللہ کے نافرمان ہیں
اگر آپ مسلمان ہیں اوراللہ کی وحدانیت اور رسول پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی ذات اقدس کو آخری نبی مانتے ہیں تو ان کے احکامات پر عمل بھی تو کریں مسلمان کہلانے اور ہونے میں فرق سمجھیں۔
مسلمان کا اخلاق ہی اس کی پہچان ہے اور حدیث پاک کا مفہوم ہے” تم میں سب سے بہتر انسان وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے بہترین ثابت ہو ” اور طلاق کا حق مرد کو دیا ہی اس لیے گیا ہے کہ مرد بردبار اور زیادہ ذمہ دار ہوتا ہے جبکہ عورت جذباتی اور عجلت پسند لیکن اب یہ حال ہے کہ عورت سے زیادہ مرد عجلت پسندی اور غیر ذمہ دار ہے
ٹھیک ہے پھر تیار رہیے کہ کل کو دنیا بھر میں آل کی پہچان معمولی باتوں پر طلاق دینے والی قوم کی حیثیت سے ہوگی اور یقین ہے اسلام کو بدنام کرنے والے مشرک اور کافر نہیں خود مسلمان ہوں گے کہ یہ وہ قوم ہے جنھیں دنیا میں رہنے کا سلیقہ سکھانے کے لیے بہترین انسان اور کتاب اتری اور اپنی گمراہی سے نہیں نکل سکے۔
اللہ ہم سب جو ہدایت دے آمین