محمد حارث: قومی ٹیم میں ایک نئے پشاوری ہیرو
حیدر عباس
پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں میں پشاور کے 21 سالہ محمد حارث کسی تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں، ان کی پرفارمنس نے سلیکٹرز کو اپنی جانب متوجہ کرانے پر مجبور کر دیا اور پلینگ الیون میں انہیں موقع دیا گیا جبکہ فخر زمان انجری کی وجہ سے نہیں کھلائے جا رہے۔ اور شاید یہی ان کیلئے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔
محمد حارث دائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے کے ساتھ آف بریک باؤلر بھی ہیں جن کی بدولت انہوں نے انڈر 19 میں بہترین پرفارمنس دی اور خوب نام کمایا کیونکہ انہوں نے قومی ٹیم تک پہنچنے سے پہلے کئی مراحل طے کئے، پشاور زلمی، انڈر 19 کے علاوہ خیبر پختونخوا کے سیکنڈ الیون اور کراچی کنگز کی جانب سے بھی کھیلتے ہوئے جوہر دکھا چکے ہیں۔ اپنے کریئر ایورج میں انہوں نے بیٹنگ کرتے ہوئے 178 کے رن ریٹ سے رنز جوڑے جبکہ باؤلنگ میں بھی انہوں نے مدمقابل کو رنز کرنے سے روکے رکھا۔
پشاور زلمی اور انڈر 19 کے میچز میں جاندار کارکردگی کے بعد انہیں جاری ورلڈ کپ میں آزمانے کا فیصلہ کیا گیا اور نیا ٹیلنٹ آگے چل کر ملکی ٹیم کو بام عروج بخشے گا، یہ سوچ کر پی سی بی حکام نے انہیں ٹی 20 ورلڈ کپ میں آزمانے کا فیصلہ کیا، یہ حقیقت ہے کہ اس سے قبل ان کی کافی مخالفت کی جا رہی تھی اور کہا جا رہا تھا کہ تمام ٹیم نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے، ان میں کوئی بھی تجربہ کار کھلاڑی موجود نہیں جس سے اوپننگ سے لے کر مڈل آرڈر اور ٹیل انڈرز پر پریشر آئے گا، ساتھ میں باؤلنگ بھی متاثر ہو گی۔
شاید یہی بات تھی کہ سینئرز کی جانب سے ٹیم آرڈر تبدیل کرنے کا کہا گیا اور بابر اعظم سے ون ڈاؤن پوزیشن پر کھیلنے کا کہا گیا لیکن یہ تمام باتیں ایک طرف رکھتے ہوئے پلینگ الیون میں کوئی تبدیلی نہ کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کیخلاف سیمی فائنل میں بھی وہی آرڈر آزمایا گیا جس کا نتیجہ کامیابی کی صورت میں نکلا اور سب نے دیکھا کہ کامیابی کس کا مقدر بنی، سیمی فائنل میچ سے قبل حارث نے کہا تھا کہ مجھے کسی بھی پوزیشن پر بھیجا جائے کھیلنے کو تیار ہوں، ایک بہترین کھلاڑی کی یہی خوبی ہونی چاہئے کہ پوزیشن بدلنے کی بجائے وہ اپنے کھیل پر توجہ دے۔
ٹی 20 ورلڈ کپ کے پہلے سیمی فائنل میں اوپننگ پیئر محمد رضوان اور بابر اعظم نے ٹیم کو بہترین آغاز فراہم کیا جس کی بدولت مڈل آرڈر اور ون ڈاؤن کی اہم پوزیشن پر کھیلنے کیلئے آنے والے حارث نے ٹینشن سے فری ہو کر اپنے جینوئن کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دلکش سٹروک کھیلے اور 26 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے 2 چوکوں اور ایک سکسر کی مدد سے 30 رنز جوڑ کر قومی ٹیم کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اب ٹی 20 ورلڈ کپ فائنل کیلئے بھی ان سے امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں اور امید ہے کہ محمد حارث اسی کارکردگی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی پوری پوری کوشش کریں گے۔
بعض کرکٹ تجزیہ کاروں کے مطابق محمد حارث کی اوورآل پرفارمنس بالخصوص بیٹنگ سٹائل میں شاہد خان آفریدی کی جھلک نظر آتی ہے، میچ سیچوئشن خواہ کچھ بھی ہو محمد حارث اپنی نیچرل گیم کا ہی مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے اسی جذبے سے کھیلتے ہوئے آگے بڑھانا حقیقی کامیابی ہے لیکن اس کیلئے پی سی بی کو بھی کردار ادا کرنا ہو گا نہ کہ جنید خان، یاسر شاہ، محمد عباس اور ان جیسے کئی بہترین کھلاڑیوں کو ایک فارمیٹ تک رکھتے ہوئے یا مکمل نظرانداز کرتے ہوئے کھڈے لائن لگایا جائے جس سے ان کھلاڑیوں کی پرفامنس اور دیگر امور متاثر ہوتے ہیں لیکن اس کے علاوہ بورڈ کی نادانی بھی دنیا بھر میں عیاں ہو جاتی ہے۔
ملکی کرکٹ کیلئے حکومت کو کسی ایک صوبہ کی جانب توجہ دینے کی بجائے کوشش کرنی چاہئے کہ ٹیم میں ہر علاقے سے کھلاڑیوں کو منتخب کیا جائے، سفارش کلچر اور دیگر غیرمصدقہ ذرائع سے کھلاڑیوں کا انتخاب ٹیلنٹ ضائع کر دیتا ہے، محمد حارث کی کارکردگی بھی یہی تقاضہ کرتی ہے کہ انہیں مواقع فراہم کئے جائیں اور حسب سابق و حسب معمول اس طرح کے ٹیلنٹ سے بھرپور دیگر کھلاڑیوں کی طرح نظر انداز نہ کیا جائے۔
اتوار کو آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی ٹرافی کیلئے پاکستان کے مدمقابل کون ہو گا، انڈیا یا انگلستان، اس کا فیصلہ کل ہو کر رہی رہے گا تاہم ایک فیصلہ قومی ٹیم کو بھی کرنا ہو گا کہ اس دن، بالخصوص اگر مدمقابل اپنا روایتی حریف بھارت آئے تو، وہ نہ ہی زیادہ پریشر لیں گے اور نہ ہی ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کریں گے بلکہ پروفیشنل انداز میں، ٹیم ورک کے ساتھ، شاندار پرفارمنس دکھائیں گے، نتیجہ اس کے بعد جو بھی نکلا شائقین کرکٹ کی جانب سے انہیں داد ضرور ملے گی۔