محمد سہیل مونس
پاکستان کی تاریخ میں سیاسی قتل مقاتلوں کی فہرست آہستہ آہستہ بڑھتی چلی جا رہی ہے؛ ہم نے سب سے پہلے لیاقت علی خان کے جنازے کو کندھا دیا جسے بھرے مجمع میں قتل کیا گیا جبکہ ان کے قتل کا معمہ، معمہ ہی رہا۔ پھر ایسی کئی لاشیں گریں جو تاریخ کے صفحات میں دب کر رہ گئیں لیکن شہید ذوالفقار علی بھٹو کی اسیسینیشن ہو یا ان کے بیٹوں کا ماورائے عدالت قتل یا پھر بی بی شہید کو گولیوں سے چھلنی کرنا ہو کسی بھی واقعہ کی نہ تفتیش صحیح طریقے سے ہوئی اور نہ ان واقعات کے درپردہ کرداروں کو کیفرکردار تک پہنچایا گیا۔
آج پھر اس کہانی کو دوبارہ دہرانے کی کوشش کی گئی جس پر یہ بات بالکل صادق آتی ہے کہ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ عمران خان پر قاتلانہ حملے کے حقائق تو بہرطور سامنے آ جائیں گے کیونکہ حملہ آور آلہ قتل سمیت دھر لیا گیا ہے لیکن خدشات ایک سے بڑھ کر ہیں جن کی چھان پرکھ ہونا ضروری ہے۔
اس حملے کے پیچھے سب سے پہلے جو عام لوگ سمجھتے ہیں ہاتھ فوج کا ہی محسوس ہوتا ہے جبکہ حزب اختلاف میں سے کسی ایک دھڑے کی کارستانی کا اندیشہ بھی بہرصورت موجود ہے لیکن سب سے راسخ گمان یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ عمران خان صاحب کے پرانے ساتھیوں یا پھر ساتھ ساتھ رہنے والوں پر بھی شک کیا جا سکتا ہے۔
ان خدشات کے بعد بیرونی ہاتھ کو کسی بھی طرح رد نہیں کیا جا سکتا جس میں پاس پڑوس والوں کا مقصد نہایت ہی واضح ہو گا کہ پاکستان میں افراتفری پھیلے اور ملک انارکی کی جانب جائے جبکہ ایسی حالت میں بیرونی قوتیں پاکستان کے ایٹمی اثاثے لے اڑیں۔
یہ بات تو یقینی ہے کہ عمران خان پر فائرنگ ملک کے امن و امان کو تباہ کرنے کی سوچی سمجھی سکیم ہے جس سے اگر ایک جانب بیرونی قوتوں کو فائدہ ہو سکتا ہے تو دوسری جانب فوج بھی حالات خراب ہونے کا بہانہ بنا کر مارشل لاء بھی لگا سکتی ہے جو کہ اب کی بار نہایت ہی مشکل کام لگتا ہے کیونکہ آج شام کو ہی کورکمانڈر کے گھر کے باہر پشاور میں شہریوں نے احتجاج شروع کر دیا تھا۔ یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ عوام اس بار کسی بھی قسم کے مارشل لاء کے خلاف ہوں گے اور کسی بھی صورت پاکستان کو پھر سے چوکیداروں کے حوالے نہیں کریں گے بلکہ بین الاقوامی طاقتیں بھی اس اقدام کے خلاف ہوں گی۔
قوموں کی زندگی میں ایک نہ ایک دن ڈیفائننگ موڑ ضرور آتا ہے اور میرے خیال میں وہ وقت آن پہنچا ہے کہ قوم اپنی تقدیر کے فیصلے خود کرنے کے لئے ذہن بنا لے کیونکہ بہت ہو چکی یہ ہیرا پھیری، جھوٹ، دھونس اور انتہاء پسندی کی یہ تاریک رات، اب سچ کے سورج کے نکلنے کی تیاری ہو لینی چاہیے۔ پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک ایماندار لیڈرشپ کی اشد ضرورت ہے جو کہ ایک باوقار طریقے سے معاملات کو لے کر چلے اور ملک کو کامیابی کی بلندی پر لے کر جائے۔
عمران خان پر حملہ اسی طرح ہی قابل مذمت ہے جس طرح اسفندیار ولی خان اور نیشنل پارٹی کے دوسرے راہنماؤں پر کیا گیا تھا، اسی طرز کا حملہ اگر مولانا فضل الرحمان صاحب سے لے کر آفتاب احمد خان شیرپاؤ پر بھی ہو تو بحیثیت انسان اور پاکستانی ہم اس سفاکیت کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ ہم نے پرائی جنگوں میں کود کر جو لاشے اٹھائے ہیں قوم مزید اس طرح کے جنگوں اور حملوں کی متحمل نہیں ہو سکتی، ہم نے ایک مہذب قوم کی طرح ساری غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئے اس بھنور سے نکلنا ہو گا۔
اس لمحے ہمیں عمران خان کے واقعہ کو بنیاد بنا کر ان مکروہ چہروں سے نقاب ہٹانا ہی ہو گا جو ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے درپے ہیں۔ معاشرے حسن سلوک، رواداری، باہمی پیار محبت اور اتحاد و یگانگت کے ساتھ آباد رہتے ہیں، ہم نے امن کو گھونسے اور لاتیں مار مار کر ادھ موا کر دیا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ماحول میں گھٹن کا احساس بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہیں، کسی کو پاکستان میں ایک لمحہ گزارنا بھی مشکل لگ رہا ہے۔
ان تمام باتوں کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے نظام کا بدبودار ہونا جس کو بدلے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے اور یہ بات تبھی ممکن ہے کہ جب ملک میں انتخابی اصلاحات ہوں، عدالتیں انصاف کرنے کو ترجیح دینا شروع کر دیں۔ اس ملک کے تمام ادارے جب تک آئین و قانون کی بالادستی کو تسلیم نہیں کریں گے حالات اس سے بھی زیادہ مخدوش ہوتے جائیں گے۔
ہم نے اپنے 75 برس فضول میں ضائع کر دیئے، جن برسوں میں چین معاشی ترقی میں عروج پا گیا، بھارت معاشی طاقت بن گیا، عرب کے ریگستان آباد ہوئے، ہم نے ریورس گیئر لگا کر اپنا ہی ستیاناس کر دیا۔
ہم اگر آج بھی نہ سنبھلے تو مٹ جائیں گے اور اس مٹنے کا انتظار کافی سارے لوگوں کو ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کا ردعمل اس واقعہ کے بعد کیا آتا ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ اب یہ ستم کے ضابطے نہیں چلنے والے اور پاکستان بالآخر اپنی حقیقی آزادی کی جانب جائے ہی جائے۔
نوٹ: مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں