ارم رحمان
بویا ہے آزادی کا قائد نے جہاں بیج
وہ سرزمین سرسبز و شاداب چاہیے
مٹانا ہے دنیا سے فرعونیت کو اگر
ہمیں خنجر و بندوق نہیں کتاب چاہیے
تعلیم ایک لاشعوری جذبہ ہے؛ انسان پیدا ہوتے ہی سیکھنا شروع کر دیتا ہے اور ہر بچہ سب سے پہلے اپنی ماں کی زبان سیکھتا ہے خواہ وہ کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو۔ پھر دھیرے دھیرے دیگر امور زندگی، اور اپنے آنے والے شاندار کل اور
باعزت روزگار کمانے کے لیے اسے اس بچپن سے اس قابل بنانا ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔
کسی بھی بچے کے بہتر مستقبل کا خیال رکھنا والدین کی ہی نہیں ریاست کی بھی ذمہ داری ہے، خوددار اور غیرت مند بنانا ملک اور قوم کے لیے مفید اور ہنرمند بنانا کسی بھی انسان کے لیے لازم و ملزوم ہے کیونکہ فرد سے افراد اور افراد سے اقوام تشکیل پاتی ہیں۔
ساری دنیا میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ ساری دنیا میں ہی تعلیم اور تربیت کو جدید انداز میں رائج کرنا لازمی ہے، ایٹمی جنگوں سے بچنا ہے تو تعلیم اور تربیت کا یکساں حصول ممکن بنانا ہو گا، عدم تشدد اور عدم برداشت کی فضا ختم کرنے کے لیے ساری دنیا کے ساتھ چلنا ہو گا اور اپنی نسلوں کو جدید تعلیمی نظام سے آراستہ کرنا لازمی ہو چکا ہے۔ اور ویسے بھی کسی بھی ملک کے لیے یہ بات باعث شرمندگی ہے کہ وہاں کی عوام ان پڑھ اور کسی بھی ہنر سے بے بہرہ ہو، یہ عوام کے ساتھ ساتھ اس ملک کی بھی تنزلی کا سب بنتا ہے۔
سب سے پہلے بچہ اپنی مادری زبان ہی سیکھتا ہے لہذا اس کی ابتدائی تعلیم علاقائی زبان میں ہو اور اس کے بعد قومی زبان میں مہارت ہونی چاہیے۔ دیگر بدیسی زبانیں جیسے وقت اور حالات کی نوعیت ہو سکھانے کا بندوبست کرنا حکومت کا کام ہے۔ دوسری زبانیں جتنی بھی اچھی ہوں لیکن قومی زبان پر ترجیح اور فوقیت نہیں دینی چاہیے۔
جیسے ہمارے ملک میں انگریزی زبان کو اردو پر فوقیت دی جاتی ہے جو کہ سراسر غلط روش ہے۔ انگریزی زبان ابتدا میں سکھانے سے تعلیمی بنیاد کمزور رہ جاتی ہے اور بچے تعلیم ادھوری چھوڑ جاتے ہیں۔ ابتدائی پانچ جماعتیں علاقائی زبان میں ہوں اور بڑی جماعتوں میں انگریزی اور دوسری زبانیں اختیاری مضمون کے طور پر رکھی جائیں تو بہتر ہو گا۔
اسی طرح اردو میڈیم اور انگریزی میڈیم اس سے بھی طبقاتی فرق پیدا ہوتا ہے؛ جو بچے اردو میڈیم میں پڑھتے ہیں وہ بچے انگریزی میڈیم سکولز میں پڑھنے والے بچوں سے کم تر سمجھے جاتے ہیں اور ان میں احساس کمتری پیدا ہونے کا بہت زیادہ امکان ہوتا ہے۔
پورے ملک میں سارے سکولوں میں امراء اور غرباء کی مالی حیثیت میں بے شک فرق ہو لیکن سکولوں کا نصاب دسویں جماعت تک بالکل ایک ہونا چاہیے۔ بچے ایرکنڈیشنڈ سکولوں میں پڑھیں یا ٹاٹ اور چوکیوں پر بیٹھ کر، نصاب ایک ہو تاکہ جو بچہ قابل ہو ذہین ہو اسے آگے بڑھنے کا بھرپور موقع مل سکے۔
دسویں جماعت کے بچوں کو کوئی ہنر سیکھانا لازم قرار دینا چاہیے تاکہ جو بچے 18 سال کی عمر میں میٹرک پاس کریں وہ کسی ہنر میں ماہر بھی ہوں تاکہ اگر وہ آگے تعلیم حاصل نہ بھی کر سکیں یا کرنا چاہیں تو سیکھے ہوئے کورس میں مذید ڈپلومہ کر کے باعزت روزگار کما سکیں۔ ان ہنروں میں الیکٹریشن، پلمبر، ترکھان، جولاہا اور موٹر مکینک وغیرہ بچے کے میلان کے مطابق ہو، اس کا بھی امتحان ہو اور پاس کرنے کی شرط رکھی جائے۔ بچوں کو بچپن سے ہی ٹریفک کے قوانین سکھانے کی ضرورت ہے تاکہ بچہ بڑا ہوتے ہی ان ساری معلومات سے آگاہ ہو۔
ہمارے وطن پاکستان میں تعلیمی شرح بہت کم ہے؛ شہروں میں بمشکل 58 فیصد اور گاؤں دیہات میں 30 تا 35 فی صد جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں سو فی صد یا شاید کچھ کم دیکھی جا سکتی ہے اس لیے ریاستی ذمہ داری ہے کہ آبادی کے درست اندراج میں خواندگی کی شرح سو فی صد بنانے کی کوشش کی جائے تاکہ پیدا ہونے والا ہر بچہ 18 سال کی عمر تک لازمی پڑھے، سکول جائے اور ہنر سیکھے۔
غریب بچوں کو مفت تعلیم دی جائے تاکہ غربت کی وجہ سے کوئی بچہ بھی بنیادی تعلیم سے محروم نہ رہے اور پاکستان کے ہر بچے کو خواندہ بنانے کا امر یقینی بنایا جائے۔
دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ ساری دنیا میں جدید تقاضوں کے مطابق تعلیم کے طور طریقے بدل رہے ہیں۔ پرانا گھسا پٹا نظام جو ساری دنیا میں متروک ہو چکا ہے اس سے نکل کر نئے تعلیمی نظام کو اپنانا ہو گا تاکہ بچوں کو وہی تعلیم دی جا سکے جو مستقبل میں ان کے کام آ سکے کیونکہ تعلیم کا اصل مقصد ہی باعزت اور باوقار زندگی گزارنا ہے۔
بچوں کو صرف نصاب کے رٹے لگوانے کی بجائے انھیں ابتدا میں دینی اور اصلاحی درس دینے چاہئیں۔ دینی تقاضوں کے مطابق بچوں کی عمر اور سمجھ دیکھ کر درس و تدریس کو فروغ دینا چاہیے تاکہ معاشرے میں توازن، روادری اور بردباری پر مبنی رویوں کو بچپن سے ہی پروان چڑھایا جا سکے۔
کسی بھی معاشرے کی ترقی میں اخلاقی اقدار کو اپنانے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جو تعلیم طبقاتی فرق پیدا کرے ایک انسان کو دوسرے انسان پر برتر محسوس کروائے، اخلاق اور کردار کو مسخ کر کے صرف دولت اور اقتدار کی ہوس پیدا کرے وہ تعلیم نہیں صرف ڈگری کا حصول ہے۔
اچھی عادات اور اخلاق سے محروم معاشرہ جرائم اور تشدد کو جنم دیتا ہے، مایوسی اور بے زاری کا سب بنتا ہے۔ تعلیم کتنی بھی اچھی ہو لیکن اگر ہمارے وطن کا تعلیمی نظام دین کی واقفیت نہیں دیتا تو ایسا نظام کھوکھلا اور بے جان ڈھانچہ کی طرح ہے جو بہت جلد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔
بچپن میں ابتدائی تعلیم میں بچوں کو نیکی اور مخلوق کی خدمت کی طرف رغبت دلائی چاہیے؛ ان کو ایک دوسرے کی مدد کرنا اور احساس دلانا چاہیے۔ کسی کو پانی پلانا کسی کو کھانا کھلانا مختف مضامین دوستوں کو سمجھنے میں مدد کرنا اور راستے میں چیزیں نہ پھینکنا اور راستے سے رکاوٹ ہٹانے کا درس دینا چاہیے۔
صفائی نصف ایمان ہے اور بچوں کو بچپن سے ہی اس کا عادی بنانا، گھر اور سکولز میں جسمانی صفائی، کتابوں اور نوٹ بکس کو صاف رکھنا ناخن دانت سب کی صفائی کا خیال رکھنا سکھایا جائے۔
گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشئرز پگھل رہے ہیں اور سب سے بڑا گلیشئرز کا سلسلہ جو سات ہزار میل تک پھیلا ہوا ہے اس صدی کے آخر تک دو تہائی پگھلنے کا اندیشہ ہے ایسے میں سیلاب اور زلزلوں سے بچنے کے لیے سب بچوں کو درخت لگانے کی طرف مائل کیا جائے؛ سکول کے بچوں کو پودوں کی اہمیت بتائی جائے اور لازمی طور پر بچوں کے درمیان مقابلے بازی کروائی جائے کہ کس سکول کے بچوں نے ایک سال میں کتنے پودے لگائے ہیں۔
اسی طرح سے تعلیم میں ہر وہ چیز اور بات بتائی جائے جو بچوں کو اچھی ڈگری دلانے کے ساتھ ساتھ اچھا انسان بننے میں مدد کر سکے۔ ہر فرد اگر ایک اچھا شہری ایک اچھا انسان ہو تو منظم معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔