لائف سٹائلکالم

کاش ہم موت سے پہلے مردہ نہ ہوتے!

ارم رحمان

ہمارے پیارے بھائی، جرنلسٹ ارشد شریف کی اچانک اور تکلیف دہ موت نے کم و بیش سب کو شدید دکھ اور پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے، اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے! ساری قوم کو عجیب سی تشویش لاحق ہے کہ ان کا کینیا جانا اور پھر بڑے غلط انداز سے ان کا جاں بحق ہونا یہ سب قابل تفتیش ہے اور اس حوالے سے بہت سے سوال اٹھتے ہیں لیکن وہ سوالات اور ان کی شفاف تحقیقات ریاست اور پولیس اور اعلیٰ عہدیداران کی ذمہ داری ہے اور ایسے واقعات دوبارہ کبھی پیش نہ آئیں اس کا مناسب انتظام کرنے کا بندوبست کرنا بھی اس تفتیش کے دائرے کا اہم نکتہ یا شق ہونی چاہیے۔

بہرحال بحیثیت ایک مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ ہر ذی نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے لیکن کب اور کیسے یہ صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور ساری مخلوق کی فنا اور بقا صرف قادر مطلق کے دست قدرت میں پنہاں ہے۔

آج مجھے بحیثیت ایک ذمہ داری شہری باقی قوم کو یہ احساس دلانا ہے کہ موت آئی اور مر گئے لیکن جو زندہ ہیں ان کے کیا فرائض ہیں؟ کیا ذمہ داری ہے؟ لواحقین کے ساتھ رویہ اور برتاؤ کیا ہونا چاہیے؟ دل جوئی کے طریقے بھی درست نہ ہوں تو دل مزید دکھتا ہے۔

آج کل ہر وقت سوشل میڈیا پر ہر دوسرا بندہ مرحوم ارشد شریف کی تصویر لگا کر ان کے بارے میں تعزیتی جملے لکھ کر یا ان کے معصوم نوخیز بیٹے کی تصویر دکھا کر باپ سے مماثلت دکھائی جا رہی ہے، پھر مرحوم کی والدہ کے بیوہ اور اب بے اولاد ہونے کے دکھ کو بار بار موزوں سخن بنا رہا ہے۔

ایک بار سوچیے! کتنی بے حسی ہے کہ ان کے آنسو ابھی خشک نہیں ہوئے، وہ صدمے میں ہیں، ان کو احساس دلائیں کہ ہم سب ان کے ساتھ ہیں، ان کے دکھوں کو بار بار پوسٹ اور شیئر کر کے لائیکس دیکھتے ہیں کہ یہ دکھ کتنا وائرل ہوا، مرحوم کی بیوہ محترمہ جویریہ صاحبہ کو یہ اپیل کرنی پڑی کہ مرحوم شوہر، دوست اور بہترین صحافی کی موت سے قبل آخری تصویر یا ویڈیو وائرل نہ کی جائے۔

کیا ہم لوگ اتنے بے حس ہیں؟ ہمیں نہیں علم کہ دکھ پھیلانے سے دکھ مزید بڑھتا ہے؟ ایسے سوگوار ماحول کو گھٹانے کی بجائے اور ہوا دینا اور ان کو بتانا کہ دیکھیے ارشد بھائی کے کلپس پر کتنے لائیکس ملے، کتنے لوگوں نے مغفرت کی دعائیں کیں۔ اور مزید ان کے اہل خانہ کی تصویریں دکھا کر اذیت دینا!

اب بچہ باپ کی طرح لگ رہا ہے، ظاہری بات ہے اکثر اولاد باپ یا ماں کی طرح ہوتی ہے، یہ تو جینیاتی عمل ہے۔ اب مرحوم کی بیوہ کو یہ تصویر دکھائی جائے اور مرحوم کی ماں کو تو کیا خیال ہے کیا ان کا دکھ کم ہو گا؟ سوچیے۔۔ ہرگز نہیں بلکہ یہ احساس ان کو مزید تکلیف دے گا۔ وہ نا چاہتے ہوئے بھی مسلسل موازنہ کریں گے اور کیا پتہ ان کو بچے کے مستقبل کا ڈر ستانے لگے۔

ہمارے مذہب نے اس لیے صرف تین دن کا سوگ رکھا ہے تاکہ موت اور عزیز کی جدائی کا دکھ اور اذیت وقت کے مرہم لگنے سے کم ہوتا جائے، کب تک آپ کسی مرحوم کے خاندان کو رلانا چاہتے ہیں؟

اگر ہمدردی ہے تو ان کے آنسو پونچھیے اور ان کو انصاف دلانے میں مدد کریں۔ اگر مرحوم کے کچھ گھریلو مسائل تھے تو ان کو حل کیجیے، خاندان کے دکھوں کا مداوا کیجیے۔ ارشد شریف بھائی کے اہل خانہ کو تحفظ اور تکریم دیجیے، ان کے درد کی داد رسی کیجیے، ان کی تکلیفوں اور دکھوں کو بڑھاوا نہ دیجیے۔

خوددار اور غیرت مند لوگوں کی سفید پوشی ان کا اثاثہ ہوتی ہے۔ کوئی بھی ایسا عمل مت کیجیے اور قدم مت اٹھائیے جو لواحقین خاص طور پر ماں، بیوہ اور یتیم بچوں کی دل آزاری کا باعث بنے۔

تین دن کے بعد یہ سب پوسٹ بازی ختم کیجیے۔ یہ صرف پوسٹ کرنے والے کی پوسٹ پر لائیکس کی تعداد بڑھاتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض پورا کر دیا اور ہم نے مرحوم سے لگاؤ کا مظاہرہ کر دیا اور پوری قوم کی یک جہتی کا اظہار ہو گیا۔ لیجیے ہو گیا ہر حق ادا اور فرض پورا!

خدارا! بس کیجیے ایسی پوسٹس لگانا اور فیس بک پر تعزیت نامے، جائیے مرحوم کے لواحقین کی مدد کیجیے، ان کا کوئی پرسان حال ہے یا نہیں یہ دیکھیے۔

آواز اٹھانی ہے تو حق کے لیے آواز اٹھائیں اور ہر پوسٹ پر حکومت اور اعلیٰ ریاستی اداروں پر دباؤ ڈالیے کہ اس سارے واقعہ کا بھرپور اور شفاف طریقے سے تفتیش کا عمل جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ کوشش کی جائے کہ اب ایسی کوئی پوسٹ منظر عام پر نہ آئے جو مرحوم کے لواحقین کے لیے باعث تکلیف ہو اور دکھ میں اضافہ کرے۔ ان کے آنسو خشک کیجیے، ان کو خون کے آنسو رونے پر مجبور مت کریں۔

ہم سب نے مرنا ہے اور موت کے بعد بظاہر ہم بے حس ہو جائیں گے لیکن سچ یہ ہے کہ جیتے جی ہماری بے حسی ہمیں موت کے بعد شدت سے احساس دلائے گی کہ کاش ہم موت سے پہلے مردہ نہ ہوتے، ہم اپنے جیسے دوسروں کا احساس کیا کرتے تو شاید ہماری موت کے مراحل آسان ہو جاتے اور قبر کی گرمی اور اندھیرے سے نجات مل جاتی۔

براہ مہربانی موت سے پہلے نہ مریں خود کو زندہ رکھیں، دوسروں کے دکھ کا احساس نہ کرنا موت سے پہلے موت کے مترادف ہے۔ اللہ ہمیں موت سے پہلے زندہ رہنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین!

Erum
ارم رحمٰن بنیادی طور پر ایک شاعرہ اور کہانی نویس ہیں، مزاح بھی لکھتی ہیں۔ سیاست سے زیادہ دلچسپی نہیں تاہم سماجی مسائل سے متعلق ان کے مضامین نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ پڑوسی ملک سمیت عالمی سطح کے رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button