لائف سٹائلکالم

پاکستانیوں کو ہوا پانی ملے نہ ملے اچھی خوراک لازمی ملنی چاہیے

حمیرا علیم

ویسے تو ہر شخص کو اپنی ماں کے ہاتھ کا کھانا ہی پسند ہوتا ہے مگر میری والدہ ایک کشمیری خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بہترین شیف ہیں؛ دال ہو یا سبزی، چپاتی ہو یا بل دار پراٹھا ہر چیز نہایت ذائقہ دار اور لاجواب ہوتی ہے۔ میرے بہنوئی میرے چھوٹے بھائی کے کلاس فیلو اور نہایت اچھے دوست ہیں، مڈل سٹینڈرڈ سے ان کا ہمارے گھر آنا جانا ہے، جب بھی آتے تو والدہ سے آلو والے پراٹھوں اور کشمیری دال کی فرمائش ضرور کرتے تھے۔ شادی کے بعد انہوں نے بہن سے مذاقاً کہا "میں تو امی کے پراٹھوں کی وجہ سے پھنس گیا۔”

میرے علاوہ (مجھے بیکنگ، سنیکس، سموسے، چاٹ، گول گپے  اور باربی کیو کڑاہی ٹائپ چیزوں میں مہارت حاصل ہے جبکہ میرے خیال میں اصل مزہ تو تب ہے جب دال سبزی بھی اس قدر اچھی بنے کہ سب انگلیاں چاٹتے رہ جائیں) ماشاءاللہ میرے سب بہن بھائیوں کے ہاتھ میں بھی بے حد ذائقہ ہے۔ ہر کھانا ایسے بناتے ہیں جیسے ماہر شیف نے بنایا ہو لیکن والدہ کی ہی ریسیپیز استعمال کی جاتی ہیں۔ ویسے تو ہر ڈش ہی مزیدار ہوتی ہے مگر جس چیز کی سب سے زیادہ فرمائش کی جاتی ہے۔وہ ہے کشمیری دال، اس کی ریسیپی نہایت آسان مگر محنت طلب ہے۔

کشمیری دال، چاول کے ساتھ

کوئی سا بھی گوشت لے لیں؛ مٹن، بیف، چکن اسے پیاز، لہسن، ادرک، ٹماٹر اور گھی کے مصالحے میں اچھی طرح بھون کر اس میں چنے کی دال ڈھیر ساری سبز مرچ اور گرم مصالحہ ڈال کر پکائیں جب گل جائے تو اس کو ساگ کی طرح خوب گھوٹ لیں۔ جب گوشت اس میں مکس ہو جائے اور دال گاڑھی ہو جائے تو چاول یا چپاتی کےساتھ سرو کریں۔

مجھے ہوٹلنگ پسند نہیں ہے مگر کبھی کبھار نئے ریسٹورنٹ یا ہوٹلز میں کوئی خاص ڈش چکھنے کے لیے چلے ہی جاتے ہیں۔ کوئٹہ کی کڑاہی، روش سجی، افغانی کباب اور کھڈا کباب، لاندی کا بڑا چرچا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان ڈشز کو چکھ کر مجھے کچھ خاص مزہ نہیں آیا کیونکہ بلوچ اور پٹھان بھائی کم مرچ مصالحہ کھانے کے عادی ہیں شاید اسی لئے وہ سرخ و سفید اور صحتمند ہوتے ہیں۔

افغانی کباب کے لیے ایک مشہور ہوٹل کا رخ کیا؛ جیسے ہی اندر قدم رکھا دنبے کی چربی میں بنے کبابوں کی خاص ہمک سے دل متلانے لگا لہذا باہر ہی بیٹھ کر ان سے لطف اندوز ہونے کا سوچا۔ دنبے کے گوشت پر صرف نمک لگا کر اسے روغن دار چربی میں لپیٹ کر سیخ میں پرو کر  کوئلوں پر لپیٹ کر پکایا جاتا ہے۔ چربی تو نہ کھا سکی مگر گوشت کو ضرور چکھا۔ پھر کوئٹہ کے مشہور سجی بنانے والے ایک چھوٹے سے تندور نما اسٹال گئے۔ رش دیکھ کر سوچا یقیناً نہایت مزیدار ہو گی۔ لیکن جب کھایا تو حسب روایت صرف نمک میں پکی چکن اور مٹن کی سجی پر چاٹ مصالحہ ڈالنا پڑا۔ ہم ٹھہرے پنجابی اسپائسی، اور وہ بھی ایسے اسپائسی کھانے کھانے کے عادی کہ آنکھوں سے پانی بہہ نکلے۔

بلوچستان کے کھڈی کباب کا کوئی ثانی نہیں

البتہ کھڈی کباب کا کوئی ثانی نہیں۔ کسی دور میں جب مہنگائی آسمان سے باتیں نہیں کر رہی تھی کھڈی کباب ہر دعوت اور شادی کی خاص ڈش ہوتی تھی مگر اب شوقین لوگ ہی اسے بنواتے ہیں، ہر خاص و عام اسے پکا بھی نہیں سکتا بلکہ اس کے خاص شیفس ہیں اور خاص کچنز جو سالم بکرے یا دنبے کو مصالحے لگا کر میرینیٹ کرتے ہیں پھر اس کے اندر چاول، سبزیاں، گاجر، آلو، پیاز اور نٹس، کاجو، بادام، پستہ، چلغوزے اور کشمش بھری جاتی ہے۔ زیادہ تر لوگ صرف چاول اور سبزیاں ہی پسند کرتے ہیں۔ پھر اسے سیخ میں پرو کر ایک بڑے سے زمین دوز تندور کے اندر چوڑائی میں رکھ کر اوپر سے ڈھک کر مٹی سے لیپ کر کے بند کر دیا جاتا ہے اور ڈھکن پر بھی کوئلے رکھ دیئے جاتے ہیں۔ ڈیڑھ سے اڑھائی گھنٹے میں (بکرے کے سائز اور عمر پر منحصر ہے) یہ پک جاتا ہے۔ پھر ڈھکن کھول کر اسے باہر نکال کر ایک بڑے سے تھال میں سرو کیا جاتا ہے۔ سب لوگ اسی تھال سے کھاتے ہیں۔ گوشت اس قدر نرم ہوتا ہے کہ ہلکا سا ہاتھ لگانے سے بھی ہڈیوں سے الگ ہو جاتا ہے۔ اور چاول بھی مصالحوں کےساتھ پک کر اس قدر مزیدار ہو جاتے ہیں کہ مت پوچھیں۔ (سوچ کر ہی منہ میں پانی آ رہا ہے۔)

پھر باری آئی لاندی کی! سنا تھا کہ نہایت مہنگی اور لذیذ ڈش ہے جو کہ بلوچوں کی روایتی ڈش ہے۔ یہ لوگ سالم بکرے یا دنبے کو نمک اور ہینگ لگا کر خشک کرتے ہیں اور پھر برفباری کے دنوں میں اسے قہوے یا چاولوں کے ساتھ کھاتے ہیں۔سب سے اتنی تعریف سنی تھی کہ کھانے کا اشتیاق ہوا مگر وائے قسمت کہ اب اس کو بنانے کا زیادہ رواج نہیں۔ قبائلی علاقوں میں شاید اب بھی لوگ اسے بناتے ہوں گے مگر شہروں میں شاذونادر ہی دستیاب ہوتا ہے۔ میں نے سوچا شاید ہنٹر بیف ٹائپ کی ڈش ہو گی۔

لاندی۔۔ سردی دور بھگائے

اتفاقاً ایک دن نند کے گھر تھے کہ کسی فیملی فرینڈ نے لاندی والے چاول بھیجے۔ سب نے فوراً پلیٹیں بھر لیں کہ نایاب چیز ہے۔ میں نے دیکھا تو پلاؤ جیسی ڈش لگ رہی تھی مگر پلیٹ میں ڈالنے سے پہلے میں نے سوچا چکھ لیا جائے۔ میاں کی پلیٹ سے تھوڑا سا ٹکڑا اٹھا کر منہ میں رکھنے کی کوشش کی مگر اس قدر تیز بو تھی کہ کھانے کا تو سوچنا بھی محال تھا۔ سب نے بےحد اصرار کیا کہ ایک بار کھا کر تو دیکھو مگر میں تو ہاتھ میں اٹھا کر ہی پریشان ہو گئی تھی۔یقین مانیے دو دن تک ہاتھ دھونے کے باوجود بو نہیں گئی۔ ہو سکتا ہے یہ واقعی ہی مزیدار ہو اور غذائیت سے بھرپور بھی مگر اسے کھانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

ہمارے پٹھان اور بلوچ بھائی قدرتی اور غذائیت سے بھرپور کھانا کھانے کے عادی ہوتے ہیں؛ دیسی گھی، مکھن، کم نمک مرچ مصالحے اور گوشت سے بنی ڈشز ان کی ضرورت بھی ہیں کیونکہ ان کے علاقے کا رہن سہن، موسم اور ان کے پیشے جسمانی محنت کے متقاضی ہیں۔ وہ لوگ جب ایسی مرغن غذا کھاتے ہیں تو کام کے بعد اسے ہضم بھی کر لیتے ہیں جبکہ ہمارے لئے تو  انہیں روزانہ کھانا ناممکنات میں سے ہے۔

کوئٹہ کا روش بلوچستان بھر میں مشہور

روش کو مختلف طریقوں سے پکایا اور کھایا جاتا ہے۔ دنبے یا بکرے کے گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے گھی اور ڈھیر سارے نمک کے ساتھ دیگچے میں ڈال کر ڈھک کر ہلکی آنچ پر 6 سے 7 گھنٹوں تک پکایا جاتا ہے۔ گوشت گلنے پر اتار لیا جاتا ہے۔اصل روش یا نمکین تو یہی ہے مگر بعض ریسٹورنٹس میں خصوصاً کچلاک کے ایک ہوٹل میں اسے کئی طریقوں سے پکایا جاتا ہے۔ دیگچے میں پیاز، ٹماٹر اور آلو کے بڑے بڑے قتلے کاٹ کر ان پر دنبے کا گوشت اور چربی کے ٹکڑے رکھ کر ڈھک کر ہلکی آنچ پہ پکایا جاتا ہے۔ گوشت گلنے پر شوربا الگ کر لیا جاتا ہے اور ایک پلیٹ میں گوشت اور سبزیاں دوسری میں گریوی اور ساتھ میں ماش کی بھنی دال سرو کی جاتی ہے۔ ایک اور طریقے میں گوشت، چربی، نمک اور کالی مرچ ڈال کر پکایا جاتا ہے۔ زیادہ تر اسے نان کے ساتھ کھایا جاتا ہے مگر چاول کے ساتھ بھی کھا سکتے ہیں۔

سب سے مزے کی چیز بلوچستانی نان ہے۔ افغانی نان سے ملتا جلتا لمبا سا نان اس قدر بڑا ہوتا ہے کہ دو آدمی ایک نان کھا سکتے ہیں۔ اس میں بھی مختلف ورائٹیز ہیں۔ ایک داش کی روٹی، دوسرا افغانی پراٹھا تیسرا تافتان۔ افغانی پراٹھا تو اس قدر لاجواب چیز ہے کہ جب بھی اسلام آباد بائی ائیر جانے کا ارادہ ہو یہ نان ضرور بطور سوغات لے جاتے ہیں۔ یہ خاص افغانی تندوربائی ہی بناتے ہیں۔ لچھے دار نان خاصا کرسپی اور مزیدار ہوتا ہے۔ بغیر سالن کے بھی اسے کھایا جا سکتا ہے اور چائے کےساتھ ناشتے میں بھی۔

ان ڈشز کے علاوہ جو کھاپے ہم سب کے ہاٹ فیورٹ ہیں ان میں گوجرانوالہ کے اللہ رکھا کے چڑے، کباب اور تکے اور سیالکوٹی دروازے کا بٹ کا فالودہ اور سیلمان سوئیٹس کی مٹھائیاں شامل ہیں جن کا پاکستان تو کیا شاید دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ بچپن سے لےکر آج تک ان کھانوں کو کھا کھا کر نہ تو پیٹ بھرا ہے نہ نیت۔ آج بھی بائی روڈ سفر کرنا ہو تو موٹر وے کی بجائے لاہور سے جی ٹی روڈ پر ہی سفر کرتے ہیں تاکہ اپنے من پسند کھانوں اور سوئیٹس سے لطف اندوز ہوتے ہوئے جائیں۔

راولپنڈی کی کمرشل مارکیٹ کی ریفریشمنٹ شاپ کی تو ہر چیز ہی زبردست ہے چاہے چاٹ ہو یا دہی بڑے، برگرز اور باربی کیو یا پراٹھا رولز اور سلاد مگر سموسہ پلیٹ کے تو کیا ہی کہنے ہیں۔ بائی ائیر ٹریول کرنا ہو تو یہ سموسے ضرور لے کر جاتے ہیں۔ اسکیم تھری کا شوارما، جمیل کی مٹھائی اور صدر کا لیمن سوڈا اور سوفٹو والوں کی آئسکریم، چاندنی چوک کا ماموں برگر، دیوان بروسٹ، مری روڈ کی فرائڈ فش اور گراٹو جلیبی، یہ سب اگر پنڈی اسلام آباد والوں نے نہیں کھایا تو وہ بڑی نعمت سے محروم رہ گئے۔

بچپن میں اسکول کے باہر کی لڈو پیٹھیاں، گولا گنڈا، کالے چنوں پر املی کی میٹھی چٹنی اور شکر قندی بھی ناقابل فراموش ہیں اور گورنمنٹ کالج راولپنڈی سکستھ روڈ کے نان کباب، سلاد، چٹنی اور اچار کا ذائقہ تو آج بھی منہ میں گھلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ آج کے بچے تو پِزا، برگرز، میکڈونلڈ، کے ایف سی اور کیکس کے دلداہ ہیں مگر ہم کھانے کے معاملے میں خاصے خوش قسمت واقع ہوئے تھے۔

کسی بھی جاندار کو زندہ رہنے کے لیے خوراک، ہوا اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم پاکستانیوں کو پانی و ہوا ملے نہ ملے اچھی خوراک لازمی ملنی چاہیے۔ اقوام متحدہ نے تو 16 اکتوبر 1945 کو ورلڈ فوڈ ڈے منانے کا آغاز کیا اور دنیا اس دن اچھا کھانا بنا کر کھا کر اور کھلا کر یہ دن مناتی ہے جبکہ ہمارا ہر دن ہی فوڈ ڈے ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف گوجرانوالہ میں روزانہ 700 ٹن گوشت کھایا جاتا ہے۔ تو ذرا سوچیے کہ پورے پاکستان میں گوشت کھانے کی مقدار کیا ہو گی۔ اچھا اور زیادہ کھانا کسی بھی پاکستانی خصوصاً پنجابی کی گھٹی میں شامل ہے۔ اور میں بھی خالص پاکستانی ہوں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button