محمد سہیل مونس
کرکٹ ہم نے بھی کھیلی ہے، جم خانہ جاتے تھے جبکہ بچپن میں وجاہت اللہ واسطی وغیرہ کے ساتھ قیوم اسٹیڈم میں پنجہ آزمائی ہوتی تھی جہاں اب ہاکی کا میدان ہے۔ اس وقت ہم عمران خان کے دیوانے تھے ان کی سٹائل میں باؤلنگ کی ناکام کوشش کرتے تھے لیکن اس وقت ٹیم میں کوئی عمران خان بننے کی کوشش کرتا تو میں کھیلنے سے معذرت کر لیتا کیونکہ لاڈلوں سے ہماری نہیں بنتی۔
خیر وقت گزرا، ہمیں احساس ہوا کہ کرکٹ کھیلنا ہمارے بس کا کام نہیں لہٰذا جو چیز ہم کر سکتے ہیں وہی کر لیں تو بہتر ہے لیکن خان صاحب کو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ دیکھا تو اک ہیرو ہی کو پایا۔ یہ قصہ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر تک تو ٹھیک تھا لیکن جب وہ سیاست میں آئے تو سارے کئے دھرے پر پانی پھیر دیا۔
ان کی شخصیت کی جب پرتیں کھلیں تو معلوم ہوا کہ ایک اچھی پیکنگ میں یہ تو کوئی خاص مال ہی نہیں اور جوں جوں بات آگے بڑھی تو ان کی ساری خامیاں ایک ایک کر کے واضح ہونا شروع ہوئیں۔ ہم اگر ان کی ڈھلتی عمر کو اس کی وجہ قرار دیں تو بھی ایک صحیح بات ہے کیونکہ سٹھیائے ہوئے شخص سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے لیکن حیرت اس بات کی ہے کہ ان کے سحر میں گرفتار لوگ معلوم نہیں کیوں ان سے اتنی والہانہ محبت کرتے ہیں۔
ان کی زندگی تو ایک کھلی کتاب ہے، جو جو کرتوت ان کے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں، چلو یہ مان لیتے ہیں کہ مغرب میں رہ کر ان سے بھول چھوک ہو گئی، یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے شاید رب نے ان کی غلطیاں معاف کر دی ہوں لیکن یہ بڑی زیادتی تھی کہ ان کو قوم پر مسلط کر دیا گیا لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ جس نے مسلط کیا تھا انہی کے لئے دردسر بنتا جا رہا ہے۔
ان کے لئے دی گریٹ کے الفاظ اس واسطے استعمال کئے ہیں کہ جو کام پاکستانی سیاست میں کوئی دوسرا مائی کا لعل نہ کر سکا وہ اس لاابالی شخص نے چند ہی برس میں کر دکھایا۔ عمران خان کے کریڈٹ پہ چند کارنامے تو ضرور گننے لائق ہیں۔ مثلاً اس نے قوم کو جگایا اور یہ بتایا کہ پرانے کانگڑ کیا کیا کھیل مقتدر اداروں کے ساتھ مل کر کھیلتے تھے۔ اس نے پاکستانی عوام کے خالی دماغوں میں یہ ڈال دیا کہ میں اصل میں اس قوم کا نجات دہندہ ہوں اور یہ ایک کرشمہ سے کم بات نہیں تھی کہ لوگ ان کی باتوں میں آ گئے ورنہ آج کل کوئی اپنے باپ کی بھی نہیں سنتا۔
ان کی شخصیت کا یہ کرشمہ بھی ماننے لائق ہے کہ پاکستانی یوتھ کا بیشتر حصہ ان کا اس حد تک معتقد ہے کہ ان کی ہر بات پہ یقین کر لیتا ہے جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ نہ ان کا لیڈر اس پایے کا ہے کہ اس کو کسی یونین کونسل کا کونسلر ہی بنایا جا سکے وہی حال ان کے فالوورز کا بھی ہے جن کی خاصیت یہ ہے کہ اتنے اول فول بکنے کے بعد بھی وہ ان سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔
دور کچھ اس طرح کا چل رہا ہے کہ قدرت دودھ کا دودھ پانی کا پانی کرنے پہ تل گئی ہے؛ عمران خان کے ہاتھوں دوسری سیاسی جماعتوں اور فوج کا جو اتارنا مقصود تھا اتار لیا اور پھر انہی پرانے ڈرامہ بازوں کے ہاتھ عمران خان کی جتنی درگت بننا تھی یا ابھی بننی باقی ہے وہ سلسلہ بالآخر اختتام پذیر ہو جائے گا۔ اس فیز کے بعد بھی اگر پاکستانی قوم نے اپنے مستقبل کے لئے بہترین فیصلے نہ کئے تو حالات یہاں نہیں رکیں گے بلکہ مزید خراب ہوں گے۔
خیر پاکستان کا کیا ہے وہ تو بنا ہی اس طرح کے کھیل کے لئے تھا تاکہ برصغیر میں پھر کوئی مسلمان اٹھ کر ہندوستان بھر پہ حکومت کرنے کے قابل نہ رہے۔ ہم نے خان صاحب کو اتنا قریب سے دیکھ لیا ہے کہ اب تو کسی ہیکر کی ویڈیو کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ ہیکر کی ویڈیوز کا پاکستان کی صحت پر اتنا برا اثر پڑے گا یا نہیں لیکن جو اثر گزرے چار پانچ برسوں میں پاکستان کے تابوت میں آخری کیلیں ٹونکنے تک ہو چکا ہے اس کا ازالہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
یہ سارے کا سارا کیا دھرا مقتدر اداروں کا ہے جو اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے جمہوریت کا گلہ مسلسل گھونٹ رہے ہیں، قارئین اس بات سے اندازہ لگائیں کہ شوکت عزیز جیسے شخص کو باہر سے منگوا کر وزیر اعظم بنایا گیا۔ ایک اور صاحب معین قریشی کے نام سے پاکستان لائے گئے جن کو بھی اس منصب پر بٹھایا گیا اور کل کی خبر ہے کہ اسٹیٹ بینک کی نئی رکھوالی کرنے والی خاتون جو آئی ایم ایف کی جانب سے آئی ہے سنا ہے کہ کوئی ہندوستانی ہے۔
اس ملک کے مستقبل کا تو معلوم نہیں لیکن خان صاحب اس ملک میں آگ لگا کر ہی دم لیں گے اور خود کسی پرائیویٹ جیٹ میں بیٹھ کر نکل جائیں گے اور اپنی اولاد کے ساتھ خوش و خرم زندگی بتائیں گے جبکہ اپنے پوتوں کو کہانیاں سنائیں گے کہ ہندوستان کے مغرب میں ایک ملک ہوا کرتا تھا جس میں، میں نے جنم لیا، وہاں کے لوگوں نے مجھے بڑی عزت دی حالانکہ میں نے کوئی ایسا تیر بھی نہیں مارا تھا، ایک ورلڈ کپ جیتا جس میں، میں خود زخمی تھا اور اسی کو بنیاد بنا کر ایک شفاء خانہ ایک آدھ یونیورسٹی بنائی وہ بھی اپنی جیب سے نہیں بلکہ اس بیوقوف قوم نے جتنا پیسہ دیا اس میں سے یہ کام بھی کئے اور زندگی بھر وہی خیرات و زکوة میرے کام آتی رہی حتی کہ تمہاری پھوپھیاں بھی ارب پتی بن گئیں۔ اس کے بعد پوتوں کو سونے کا کہیں گے اور خود چند لمحے سابقہ بیویوں، معاشقوں، یوٹرنز اور ان باتوں کے بارے میں سوچیں گے کہ جب وہ تقاریر کے دوران گستاخانہ کلمات استعمال کرتے تھے اور ان کا کوئی بال تک بیکا نہیں کر سکتا تھا۔
اس کے بعد یہ دعا مانگ کر سویا کریں گے کہ اے خدا! اگر تو یہ سب نہ چاہتا تو اس طرح نہ ہوا ہوتا، اس سلسلے میں کم از کم مجھ پر تو کرم فرما، بے شک زرداری، نواز شریف، مولانا وغیرہ کے ساتھ ساتھ فوج کے بڑوں کی جو درگت بنانی ہے مجھے اس سے محفوظ رکھیو۔۔۔ آمین!
نوٹ: کالم نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔