جب فرنینڈس ہار کے بھی ہیرو بن گئے تھے
حمیرا علیم
باسکی کھلاڑی ایوان فرنینڈس انایا، برلاڈا ناورے میں کراس کنٹری ریس میں حصہ لے رہے تھے۔ وہ ریس لیڈر ایبل مطائی سے کچھ فاصلے پر دوسرے نمبر پر تھے۔ لندن اولمپکس میں 3,000 میٹر اسٹیپل چیس میں کانسی کا تمغہ جیتنے والے مطائی جو سب سے آگے تھے یہ سوچ کر کہ وہ پہلے ہی لائن عبور کر چکے ہیں غلطی سے فنشنگ لائن سے تقریباً 10 میٹر پیچھے رہ گئے۔ فرنینڈس نے انہیں اس کی غلطی کا بتا کر آگے بڑھنے کا کہا مگر زبان سے ناواقفیت کی بنا پر مطائی کھڑے رہے جس پر فرنینڈس نے انہیں دھکیل کر آگے کیا۔
تماشائی اس سپورٹس مین سپرٹ پر دنگ رہ گئے۔ فرنینڈس ہار کے بھی ہیرو بن چکے تھے۔
ایک صحافی نے بعد میں فرنینڈس سے پوچھا: "آپ نے یہ کیوں کیا؟” فرنینڈس نے جواب دیا: "میرا خواب ہے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ قائم کریں جہاں کوئی دوسرے کو اس لئے دھکا دے تاکہ وہ جیت سکے۔”
صحافی نے پھر پوچھا "مگر آپ نے کینیا کے ایتھلیٹ کو کیوں جیتنے دیا؟”
فرنینڈس نے جواب دیا: "میں نے اسے جیتے نہیں دیا، وہ ویسے ہی جیت رہا تھا، یہ دوڑ اسی کی تھی۔”
صحافی نے اصرار کیا: "مگر آپ یہ دوڑ جیت سکتے تھے؟”
فرنینڈس نے اس کی طرف دیکھا اور بولے: "اس جیت کا کیا میرٹ ہوتا؟ اس میڈل کی کیا عزت ہوتی؟ میری قوم میرے بارے میں کیا سوچتی؟ اقدار نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو سکھانا چاہیے کہ جیتنے کے لئے کوئی بھی ناجائز طریقہ اختیار نہیں کرنا۔ وہ آپ کی نظر میں جیت ہو سکتی ہے دنیا کی نظر میں آپ کو بددیانت کے علاوہ کوئی خطاب نہیں ملے گا۔ اگر وہ مجھے بتاتے کہ جیتنے سے مجھے یورپی چیمپئن شپ کے لیے ہسپانوی ٹیم میں جگہ مل جاتی تو بھی میں ایسا نہیں کرتا۔ میں سوچتا ہوں کہ میں نے جو کچھ کیا ہے اس سے زیادہ نام کمایا ہے۔ اور یہ اہم ہے کیونکہ زندگی کے تمام شعبوں میں، فٹبال میں، معاشرے میں، سیاست میں ایمانداری ختم ہو چکی ہے۔”
سوچی ونٹر اولمپک گیمز میں جب ایک مشہور روسی اسکائیر انتون غفاروف نے خود کو ٹوٹی ہوئی سکی کے ساتھ پایا تو اس نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ تمغہ تو حاصل نہیں کر سکتا تھا لیکن وہ اپنی باقی سکی کے ساتھ چلتے رہے۔ کینیڈا کے سکی کوچ جسٹن واڈس ورتھ نے اسے ایک قدم آگے بڑھایا۔ اس کی ٹیم پہلے ہی دوڑ سے باہر تھی، اور اس کے پاس اسپیئر سکی تھی۔ اس نے اسے غفاروف کو دے دیا تاکہ موخر الذکر ریس جاری رکھ سکے۔ یوں غفاروف کوارٹر فائنل میں دوسرے نمبر پر رہے۔
آسٹریلیا کے جان لینڈی کو ”4 منٹ کا میل” (”آ مائل اِن فور منٹس” ریکارڈ) توڑنے والے دوسرے آدمی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا کارنامہ تھا جس کے بارے میں زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ ایسا ممکن نہیں لیکن اس نے انگریز راجر بینسٹر کے صرف 46 دن بعد ایسا کر دکھایا۔
1956 کے آسٹریلین نیشنل چیمپیئن شپ کے دوران لینڈی ایک ریس میں تھا جب ایک مدمقابل 19 سالہ رون کلارک ان کے سامنے گر پڑا۔ لینڈی نے ابتدائی طور پر کلارک کے اوپر چھلانگ لگائی لیکن کوشش میں اسے اپنے کلیٹس سے کھرچ دیا۔ لینڈی اس بات کو یقینی بنانے کے لیے رک گیا کہ کلارک ریس میں دوبارہ شامل ہونے سے پہلے ٹھیک ہے اور پھر بھی 4 منٹ 4 سیکنڈ میں پہلے نمبر پر پہنچنے میں کامیاب رہا۔
آج کے دور میں ایسی مثالیں شاذ ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہر شخص زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتا ہے اور دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر خود جیتنے کو جائز سمجھتا ہے۔ مگر کبھی کسی نے سوچا کہ اگر آپ خود قربانی دے کر دوسرے کو آگے بڑھے کا موقع دیں تو اصل جیت یہی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "پیٹھ پیچھے مسلمان بھائی کی دعا قبول ہوتی ہے۔ ایک فرشتہ دعا کرنے والے کے سر کے قریب مقرر ہوتا ہے؛ جب کوئی کسی مسلمان بھائی کے لیے دعا کرتا ہے تو فرشتہ اس پر آمین کہتا ہے اور یوں کہتا ہے "مسلمان کے حق میں تو نے جو دعا کی ہے وہ تیرے لیے بھی اس جیسی ہی خوشخبری ہے۔” (مسلم)
ایک اور حدیث میں فرمایا: "جس نے کسی مومن کی دنیا کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کر دی اللہ تعالیٰ بروز قیامت اس کی پریشانیوں میں سے ایک پریشانی دور کر دے گا۔ جس نے کسی تنگ دست پر آسانی کی اللہ اس پر دنیا و آخرت میں آسانی کرے گا۔ جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ برابر بندے کی مدد میں ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہوتا ہے۔ ” (مسلم)
قرآن و حدیث میں بار بار دوسروں کی مدد کرنے، ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا حکم ہے مگر افسوس ہم ان تعلیمات کو بھلا کر ان کے الٹ کرنے میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں بدامنی اور بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ جب کہ غیرمسلم اسلامی تعلیمات سے استفادہ کر رہے ہیں۔