”پارک میں بیٹھے شخص نے ایسی حرکت کی کہ ہمارا دماغ بالکل سن ہو گیا”
حمیرا علیم
پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اس کے باوجود یہاں خواتین کو وہ تحفظ حاصل نہیں ہے جس کی وہ حق دار ہیں۔ گھر ہو یا بازار آفس ہو یا کوئی تفریح گاہ انہیں ہر جگہ ہراساں کیا جاتا ہے۔ شاید ہی کوئی عورت ہو جسے زندگی میں ہراسگی کا سامنا نہ ہوا ہو۔
وفاقی محتسب سیکرٹریٹ فار پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ (FOSPAH) کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ کام کی جگہ پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کی شکایت کی شرح 2019 میں 432 سے بڑھ کر 2020 میں 535 ہو گئی ہے۔
ایف او ایس پی اے ایچ کی سالانہ رپورٹ 2022 میں درج ذیل اعداد و شمار بیان کیے گئے ہیں: 2018 سے 2022 کے درمیان کل شکایات کی تعداد 2169 تھی، سرکاری شعبے میں 582 خواتین اور 148 مردوں کی طرف سے درج کرائی گئیں۔ نجی شعبے میں خواتین کی جانب سے 994 اور مردوں کی جانب سے 445 شکایات موصول ہوئیں۔
خواتین کے خلاف ہر طرح کے امتیازی سلوک کے خاتمے سے متعلق کنونشن (CEDAW) جنسی ہراسانی کی تعریف اس طرح کرتا ہے: "ہراسانی میں جسمانی رابطہ، ناپسندیدہ رویے، جنسی تبصرے، فحش نگاری اور جنسی مطالبات کو ظاہر کرنا شامل ہے۔ اس طرح کا طرز عمل ذلت آمیز ہو سکتا ہے اور صحت اور حفاظت کا مسئلہ بن سکتا ہے یہ امتیازی سلوک ہے۔”
اس کے خلاف پاکستان کے پاس الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) بھی ہے۔ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) پی ای سی اے کو نافذ کرتی ہے۔ اور اس کا سائبر کرائم ونگ خاص طور پر خواتین کی شکایات کی تحقیقات کرتا ہے۔ تاہم 34 ملین انٹرنیٹ صارفین کے ملک میں سائبر کرائم ونگ کے پاس صرف 500 افراد کی ٹیم ہے۔ 2018 اور 2019 کے درمیان اس نے خواتین کی 8,500 شکایات درج کیں۔
2010 میں ورک پلیس پر ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ ایکٹ منظور کیا گیا تھا جس کے ضابطہ اخلاق کی کاپی آفس میں نمایاں جگہ پر آویزاں کرنا بھی لازمی ہے۔ لیکن یہ قانون صرف کاغذ کے ٹکڑے کا کام کرتا ہے اور اس پر عمل درآمد میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مقدمات اکثر برسوں عدالتوں میں پڑے رہتے ہیں اور بروقت کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا جاتا۔ اس سے خواتین کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور بہت سے لوگ شکایات درج نہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
خواتین پرہجوم مقامات پر جاتی ہیں تو انہیں نامناسب انداز میں چھونے، گھورنے، فحش اشارے کرنے، آوازے کسنے اور غیراخلاقی سرگرمیوں کے لیے پیسوں کی آفرز جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک وائس اوور آرٹسٹ کے طور پر حنا کا پندرہ سالہ پیشہ ورانہ کریئر اس وقت رک گیا جب اس نے اپنے کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کے خلاف آواز اٹھائی۔ اگرچہ وہ ہراساں کرنے کا مقدمہ جیت چکی ہے لیکن اسے کردار کی بدنامی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اب وہ نوکری تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔
ایک نایاب قسم کی معذوری میں مبتلا فارمیسی کی ڈاکٹر یسریٰ گیلانی بتاتی ہیں کہ معذور خواتین کی ایک بڑی تعداد کو جنسی ہراسانی کا مسئلہ درپیش ہے لیکن معاملے کی حساسیت کی وجہ سے وہ اس پر کھل کر بات نہیں کرتیں۔ ماریہ قریشی کہتی ہیں کہ معذور خواتین آسانی سے جنسی ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی خاتون کہتی ہیں انہیں گزشتہ سال ملازمت سے برطرف کر دیا گیا تھا کیونکہ ایچ آر منیجر اسے ہراساں کرتا تھا، اس کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کرتا تھا۔ جب اس نے اپنے رویے کی اطلاع اعلیٰ انتظامیہ کو دی تو انہوں نے شفاف انکوائری شروع کرنے کے بجائے اس بہانے استعفیٰ دینے کو کہا کہ اب ان کی خدمات کی ضرورت نہیں ہے۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ایم ایس اکنامکس کی طالب علم شنایا نے چھ سال قبل اپنی دو بہنوں اور ایک کزن کے ساتھ اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون کی گول مارکیٹ کے پارک میں پیش آئے ایک برے تجربے کے بارے بتایا کہ جب ہم پارک میں داخل ہوئے تو ایک 40-45 برس کی عمر کا شخص بیٹھا تھا۔ پہلے تو ہم نے اس کی طرف توجہ نہیں دی کیونکہ عموماً وہاں کوئی نہ کوئی بیٹھا ہوتا ہے۔ پارک میں داخل ہوتے وقت میں اپنی بہن اور کزن سے تھوڑا پیچھے تھی مگر جب میں ان کے پاس پہنچی تو وہ کافی گھبرائی ہوئی تھیں۔ میں نے ان سے گھبراہٹ کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا کہ وہ شخص کافی دیر سے انھیں گھور رہا ہے، کبھی آنکھ مارتا، تو کبھی عجیب تاثرات دیتا ہے۔
جب میں نے اس شخص کی طرف توجہ کی تو وہ اس وقت بھی بے شرموں کی طرح مسکرا رہا تھا اور کچھ ہی لمحوں بعد اس نے ہمارے سامنے پتلون اتار کر غیراخلاقی حرکت شروع کر دی۔ یہ ہمارے لیے اتنا حیران کن تھا کہ دماغ بالکل سن ہو گیا اور اس وقت کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ مجھے کس طرح کا ردعمل دینا چاہیے۔
میری بہن اور کزن صرف 15-16 سال کی تھیں جبکہ میرے لیے بھی پہلا ایسا تجربہ تھا اور ہماری سمجھ سے باہر تھا کہ ایک مرد کیسے عوامی مقام پر ایسی گھٹیا حرکت کر سکتا ہے اور اس سے بھی زیادہ دماغ کو مفلوج کر دینے والی بات یہ تھی کہ اس پارک میں لوگ گزر رہے تھے اور بہت سے لوگوں نے اسے دیکھا بھی مگر سب اس کو نظرانداز کر کے گزر گئے۔
جب کسی نے کوئی اقدام نہیں اٹھایا تو ’میرے دماغ میں یہی آیا کہ ردعمل دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور ہم بھی وہاں سے چپ کر کے واپس آ گئے۔ ہم نے واپس آ کر یہی فیصلہ کیا کہ ہمیں گھر میں اس واقعے کے متعلق کسی کو نہیں بتانا چاہیے کیونکہ اس وقت ہماری عمریں بھی کم تھیں اور ہمیں یہ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا اور کیسے بتائیں۔ اور دوسرا یہ کہ ہمارے اکیلے باہر آنے جانے پر پابندی عائد ہو سکتی تھی۔‘
اسلام آباد کے ایک مشہور کالج کی چند طالبات نے بتایا کہ امتحانات کے دوران پریکٹیکل کے لیے آنے والے مرد اساتذہ ان
کے جسم کو چھوتے ہیں ان سے پاس کرنے کے عوض جسمانی تعلق کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ نرسنگ کی طالبات کے ساتھ ہوتا ہے جو دوردراز علاقوں سے نرسنگ کی تعلیم کے لئے بڑے شہروں میں آتی ہیں۔ ان کے اساتذہ اور ہاسپٹلز کے ڈاکٹرز ان کا جنسی استحصال کرتے ہیں حتی کہ یونیورسٹی کے پروفیسرز بھی طالبات کو فیل کرنے کی دھمکیاں دے کر ان سے اس قسم کے مطالبات کرتے ہیں۔ پشاور یونیورسٹی کے عربی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ کا واقعہ کچھ زیادہ پرانا نہیں ہے۔ کچھ خواتین ہمت کر کے ایسے واقعات پہ آواز اٹھاتی ہیں مگر زیادہ تر خاموش ہی رہتی ہیں۔ اور بعض اوقات وہ خودکشی کر لیتی ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ خواتین کا حلیہ مردوں کو انہیں ہراساں کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ میرے خیال میں بنیادی وجہ یہ نہیں ہے ورنہ گھر میں موجود محرم رشتوں کا تقدس پامال نہ ہوتا۔ کوئی باپ، بھائی، بیٹا،دادا، چچا وغیرہ بیٹی، بہن، ماں، پوتی وغیرہ کو ریپ نہ کرتا نہ ہی کوئی برقعے میں ملبوس لڑکی ریپ ہوتی نہ ہی دو سے آٹھ سال کی ننھی کلیوں کو مسلا جاتا۔
اس معاشرتی بگاڑ کی وجہ صرف دو اسلامی احکام کی خلاف ورزی ہے۔ ایک عورتوں کو اپنی زیب و زینت چھپا کر رکھنی چاہیے اور مردوں سے بلاضرورت اختلاط سے گریز کرنا چاہیے۔ اور مردوں کو نگاہ نیچی رکھنی چاہیے۔
فرض کیجئے آپ امریکہ یا کسی اور مغربی ملک میں رہائش پذیر ہیں۔ جہاں کی خواتین نیم برہنہ پھرتی ہیں تو کیا آپ کو یہ لائسنس مل جاتا ہے کہ آپ کسی بھی خاتون کو کہیں پہ بھی ہراساں کریں یا اسے ریپ کر دیں؟ جی نہیں! آپ کو اپنی نظر کو جھکانا ہے تاکہ آپ کسی فتنے میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ یہی حکم پاکستان میں بھی یاد رکھیے۔ اگر خواتین کا لباس مناسب نہیں ہے تو اپنی نگاہ کی حفاظت کیجئے کیونکہ اللہ کے نزدیک مرد ہو یا عورت افضل وہی ہے جو اپنی عزت کی حفاظت کرے۔
حکومت کی ذمہ داری صرف چند قوانین بنا دینے تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ اسے اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ ملک میں غیراخلاقی مواد، سائٹس یا لٹریچر نہ ہو تاکہ اس طرح کے واقعات سے بچا جا سکے۔ کل ہی ایک چینل پہ خبر دیکھی جس میں ایک چھ سالہ معذور بچی کو اس کی والدہ کی غیرموجودگی میں بارہ سالہ کزن نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ اس نے یہ سب کہاں سے سیکھا تو اس نے بتایا کہ اس کے ماموں موبائل پہ یہ سب دیکھتے تھے اور اسے بھی اسے دیکھنے کی عادت ہے۔
سوچیے ایسا مواد ہمارے بچوں کا بچپن چھین کر انہیں شیطان بنا رہا ہے۔ ان کی تنہائیوں کو ناپاک کر رہا ہے۔ اگر ہم اپنے بچے بچیوں کو ایسے حادثات سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو گھر میں قرآن حدیث کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ملکی سطح پر ایسے تمام مواد پہ پابندی بھی ضروری ہے۔