سوری تنخواہیں نہیں ہیں۔۔۔!
محمد سہیل مونس
آج سے پانچ برس قبل جب ہم پیالہ اور ہم نوالہ یار دوستوں کے ساتھ محفل جمتی تو اس بات کا تذکرہ ضرور ہوتا کہ ایک روز پاکستانی صبح سویرے اٹھیں گے اور بینکس کا رخ کریں گے، چند روز تو سسٹم میں خرابی کے بہانے پر عوام کو ٹرخا دیا جائے گا اور پھر ایک دن ایسا بھی آ جائے گا کہ پاکستانی بینکس پر صرف حفاطتی عملہ تعینات ہو گا باقی تمام بینکس بند ہوں گے کیونکہ بینکس چلتے پیسوں سے ہیں اور جب پیسہ ہی غائب ہو گا تو تو ٹرانزیکشن کہاں کی اور لین دین کس بات کا یعنی نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گے بانسری!
ہم اس طرح کی پیشگوئی کرنے والے کو خدا کا واسطہ دیتے کہ اس طرح کی بھیانک تصویرکشی تو مستقبل کی نہ کرو تو وہ بگڑ جاتا کہ جو آپ لوگوں کو سدھرنے کا کہتا ہے اور بتا رہا ہے کہ یہ والے حالات آ رہے ہیں تو آپ لوگ یقین کیوں نہیں کر لیتے۔ آج تقریباً پانچ ساڑھے پانچ سال بعد وہی کچھ ہونے جا رہا ہے۔
خیبر پختونخوا کی حکومت کے پاس سرکاری ملازمین خصوصاً اساتذہ کرام کے لئے تنخواہوں کی مد میں دینے واسطے پھوٹی کوڑی بھی نہیں جبکہ صوبہ پہلے سے ہی مالی مشکلات سے دوچار ہے اور اربوں کھربوں کا مقروض بھی۔ یہ تھی موجودہ حکومت اور اس کے بلند و بانگ دعوے جس کو صوبہ سنبھالے ہوئے تقریباً 9 سال ہو گئے، ان کی تبدیلی کا نعرہ بے شک نہایت ہی اچھا تھا لیکن جب ہنی مون پیریڈ ختم ہوا تو ان کو احساس ہوا کہ شادی کرنا تو آسان بات ہے لیکن اس کے بکھیڑے اٹھانا کافی مشکل کام ہے۔ اب ایک عرصے سے لیپا پوتی جاری ہے نہ تو اپنے قائد جیسے اسمارٹ وزیر خزانہ کو کسی چیز کی سمجھ آ رہی ہے اور نہ ان کو وفاق سے کم از کم پن بجلی کے خالص منافع کی ڈیمانڈ کا طریقہ۔ ان حالات میں اس صوبے کی حکومت اس صوبے کی عوام کو مارنا چاہتی ہے یا پھر اس کے پیچھے بھی کسی سائفر وغیرہ کا چکر ہے، اللہ بہتر جانتا ہے۔
پاکستان اور خصوصاً ہمارا صوبہ ایک ایسی منجھدار میں پھنس چکا ہے کہ جس سے نکلنے کی تدبیر شائد سقراط انکل کے ذہن میں بھی بمشکل آتی کیونکہ جہاں ایک جانب سیاسی بصیرت سے فارغ لوگ حکومت میں لائے گئے وہاں ایسی سکیمز لانچ کی گئیں جن کا نہ کوئی سر تھا نہ پیر مثلاً صوبہ بھر میں کھیلوں کے میدان بنانا، خیرات خانوں کا قیام اور اَن دیکھے ڈیمز کی تعمیر جس سے ہزاروں میگا واٹ بجلی بنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا جبکہ اس طرح کے کئی بغیر سر پیر کے منصوبے ہیں جو نہ تو مکمل ہوئے اور نہ ان سے ایک روپے کا فائدہ اب تک سامنے آیا۔
اس صوبے کے عوام کی بھی کیا قسمت ہے پہلے لاکھوں مہاجرین کے نیچے کچلے گئے پھر دہشت گردی کے شعلوں میں جھونکا گیا پھر ایم ایم اے کو اس کا عنان اقتدار سونپا گیا اور پھر آتے آتے ان لوگوں کے ہاتھ تھما دیا گیا جن لوگوں کو کسی نے یو سی کا ناظم بنتے نہیں دیکھا وہ بھی ایوانوں میں جا بیٹھے جنھوں نے صوبے کا بیڑا کچھ اس ادا سے غرق کیا کہ اب دوبارہ شائد ہی یہ صوبہ اپنے پیروں پہ کھڑا ہو سکے۔
اب تو یہ حالت ہو گئی ہے کہ جامعہ پشاور کے اساتذہ کرام نے بھی اپنی تنخواہیں یکم اور 30 کی بجائے مہینے کی 10 اور 15 تاریخ تک ملنے کا افسوس کیا ہے جبکہ ان کا کہنا ہے کہ ان تاریخوں میں ہمارے یوٹیلیٹی بلز کی مقررہ تواریخ نکل جاتی ہیں اور پھر ہمیں جرمانہ الگ سے بھرنا پڑتا ہے۔
قارئین کرام! یہ دیوالیہ پن کے آثار ہیں جو دکھائی دینے لگے ہیں۔ ابتداء تعلیم کے شعبہ سے ہوئی ہے اس کے بعد صحت اور پھر آہستہ آہستہ دوسرے اداروں کا نمبر آئے گا، جس کے لئے ایک تجویز یہ ہے کہ پاکستان بھر میں ایسے ادارے بند کئے جائیں جن پر عوامی ٹیکس کا فضول مصرف ہوتا ہے جن میں سے سپارکو، جیولاجیکل سروے آف پاکستان، محکمہ شہری دفاع، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اکادمی ادبیات، محکمہ سروے آف پاکستان، لیبر ڈیپارٹمنٹ اور اس طرح کے مزید کئی ایک ادارے جن سے عوام اور ملک کی صحت پہ کوئی اثر پڑنے والا ہے ہی نہیں بس من پسند افراد کو اکٹھا کر کے سیاسی طور پر نوازا جاتا ہے اور یہ لوگ عوام کے ٹیکسز پر عشروں تک پل رہے ہوتے ہیں۔
ہم اگر سپارکو ہی کو لے لیں تو یہ ادارہ بھارت کے ادارے اسرو سے آٹھ برس قبل قائم کیا گیا تھا بھارت کا اسرو کیا کررہا ہے اور سپارکو کی کیا حالت ہے؟ اسی طرح جیولاجیکل سروے آف پاکستان کو ہی لے لیں اس ادارے کا حاصل وصول کیا ہے، تحریر طویل ہو جائے گی لیکن پاکستان میں جاری بے وقوفیوں کا سلسلہ ختم نہیں ہو گا۔
اس موقع پر عوام سے صرف اتنی گزارش ہے کہ جتنا بھی دھن اب تک جس کے ہاتھ میں ہے نہ تو بینکس میں رکھیں، نہ کسی سے کہی سنی اور سوشل میڈیا پہ گردش کرتی اسکیمز میں انویسٹ کریں اور نہ کسی ڈبل شاہ کے جھانسے میں آئیں۔ا سی پیسے کو اپنے ہاتھوں کسی محنت طلب کام ہی سہی اس میں لگائیں حلال رزق کمانے کی کوشش کریں اور ان ناگفتہ بہہ حالات میں لاچاروں کی مدد ضرور کریں اس نیت سے نہیں کہ اس کا آپ کو ثواب ہی صرف ملے گا، اس سے ذرا آگے کی سوچیں کہ اگر یہی بدحال لوگ آپے سے باہر ہو گئے تو پیسے والوں کا کیا حشر ہو گا، یہ بات ذہن میں رہے۔
ہم ان حالات میں بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ اس لئے لگائیں گے کہ حالات چاہے جو بھی ہوں لیکن ملک تو بہرحال اپنا ہے اب یہ بات الگ ہے کہ اختیار ہمارے پاس ہے یا نہیں لیکن ہم اس یقین کے ساتھ آج بھی زندگی کے شب و روز گزار رہے ہیں کہ وقت بدلے گا اور پاکستان انشاء اللہ اپنے پیروں پہ ضرور کھڑا ہو گا۔