محمدؐ: تشدد کے بغیر تبدیلی لانے والوں میں سرفہرست!
حمیرا علیم
ابتدائے آفرینش سے ہی انسان تشدد کا شکار رہا ہے؛ قابیل کے ہابیل کو قتل کرنے سے لے کر ایٹمی حملوں تک دنیا نے خونریز جنگیں دیکھی ہیں جن میں لاتعداد جانوں کا خاتمہ ہوا۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ کس طرح کسی کے لالچ یا اقتدار کی ہوس نے بے گناہ لوگوں کو قتل کیا اور خوبصورت شہروں کو تباہ کیا یہاں تک کہ وہ جنگیں بھی جو ایک اچھے مقصد کے لیے لڑی گئیں، جیسے امریکہ کی خانہ جنگی جس کے نتیجے میں غلامی کا خاتمہ ہوا، بہت زیادہ اموات کی ذمہ دار رہی ہیں تاہم خوش قسمتی سے اس دنیا میں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے تشدد یا خالص وحشیانہ طاقت کے بغیر اپنی ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کی ہیں۔ ان میں سرفہرست نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات ہے۔
اس کے علاوہ شہری حقوق کے کارکن مارٹن لوتھر کنگ اور روزا پارکس، بیٹلز کے اسٹار جان لینن، انسانی ہمدردی کے لیے سرگرم کارکن اور "کنگ آف کیلیپسو” ہیری بیلفونٹے اور نسل پرستی کے خلاف تحریک کے رہنما نیلسن منڈیلا شامل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی زندگی کی کہانیاں دلچسپ اور متاثرکن ہیں۔
اگر آپ کے بچے ہیں تو یہ دن انہیں بہادری، ہمدردی اور استقامت کی خوبیاں سکھانے کا بہترین وقت ہو سکتا ہے۔ بچے ایک دوسرے پر تشدد کر سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنے بچوں میں صحیح اور غلط کا مضبوط احساس پیدا کریں۔غیر متشدد مزاحمت کے معروف اسکالر پروفیسر جین شارپ نے اپنی کتاب ”دی پالیٹیکس آف نان وائلنٹ ایکشن” میں درج ذیل تعریف استعمال کی ہے: "عدم تشدد کی کارروائی ایک ایسی تکنیک ہے جس کے ذریعے وہ لوگ جو بے حسی اور اطاعت کو مسترد کرتے ہیں اور جو جدوجہد کو ضروری سمجھتے ہیں، وہ بغیر کسی تشدد اور تنازعہ کے اپنا مسئلہ حل سکتے ہیں۔ عدم تشدد کی کارروائی تنازعات سے بچنے یا نظرانداز کرنے کی کوشش نہیں ہے۔ یہ اس مسئلے کا ایک ردعمل ہے کہ کس طرح سیاست میں موثر طریقے سے کام کرنا چاہیے اور کیسے طاقت کا موثر استعمال کیا جائے۔”
اسلام ایک پرامن مذہب ہے کیونکہ یہ زمین پر فساد سے منع کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: "اور نیکی کرو جیسا کہ اللہ نے تمہارے ساتھ بھلائی کی ہے اور زمین میں فساد نہ ڈھونڈو.بے شک اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔” (القصص 28:77)
یہ حکم صرف انسانوں کے لیے نہیں بلکہ تمام مخلوقات لیے ہے۔ نبی صلعم نے جانوروں کے ساتھ بھی رحم کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ رسول اللہ نے جانوروں کے چہرے پر مارنے اور داغنے سے منع فرمایا ہے۔ (مسلم)
حتی کہ جنگ کے دوران دشمن کے ساتھ بھی رحم کا معاملہ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کے سپہ سالار کو نصیحت کی تھی: "تم ایک ایسی قوم کو پاؤ گے جنھوں نے اپنے آپ کو خدا کی عبادت کے لیے وقف کر دیا ہے، ان کو چھوڑ دینا۔ میں تم کو دس باتوں کی نصیحت کرتا ہوں کسی عورت، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا، پھل دار درخت کو نہ کاٹنا، کسی آباد جگہ کو ویران نہ کرنا، بکری اور اونٹ کھانے کے سوا ذبح نہ کرنا، نخلستان نہ جانا، مال غنیمت میں غبن نہ کرنا اور بزدل نہ ہونا۔“
قرآن پاک میں فرمان ربی ہے: "اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ انصاف اور حسن سلوک سے نہیں روکتا جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا۔ بے شک اللہ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے” (الممتحنہ 60:8)
اہل مغرب نبی صلعم اور مسلمانوں پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے اسلام بزور تلوار پھیلایا۔ اس کی نفی اس واقعہ سے ہوتی ہے۔ ثمامہ بن اثال گرفتار ہو کر آئے تو انہیں مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہونے والے تھے تو آپ نے ثمامہ کو دیکھا اور اپنے ساتھیوں سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ تم کس کو لے کر آئے ہو؟ "نہیں، خدا کے رسول!” انہوں نے جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ثمامہ بن اثال الحنفی ہیں۔ تم نے اسے پکڑ کر اچھا کیا ہے۔”
اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کے پاس واپس آئے اور فرمایا: "جو کھانا تم سے ہو سکے ثمامہ بن اثال کے پاس بھیج دو۔” اور اونٹ کا دودھ پلانے کا حکم دیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ سے اس امید پر بات کی کہ وہ اسے مسلمان ہونے کی ترغیب دیں گے: "تمہیں اپنے لیے کیا کہنا ہے؟” اس نے کہا: "میں نے آپ کے کچھ آدمیوں کو مار ڈالا ہے میں آپ کے رحم و کرم پر ہوں۔ اگر آپ اپنے فضل سے معاف کرنا چاہتے ہیں تو میں شکر گزار ہوں گا۔ اگر آپ معاوضے میں رقم چاہتے ہیں تو آپ جو بھی رقم مانگیں گے میں آپ کو دوں گا۔”
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو دن کے لیے چھوڑ دیا۔ لیکن پھر بھی ذاتی طور پر اسے کھانا پینا اور دودھ بھیجا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس اس کے پاس گئے اور پوچھا کہ تم اپنے لیے کیا کہنا چاہتے ہو؟ ثمامہ نے وہی بات دہرائی جو اس نے ایک دن پہلے کہی تھی۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے اور اگلے دن آپ کے پاس واپس آئے۔ "تمہیں اپنے لیے کیا کہنا ہے؟” اس نے دوبارہ پوچھا اور ثمامہ نے ایک بار پھر وہی کہا جو اس نے کہا تھا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ: ” اسے آزاد کر دو۔”
ثمامہ نے مسجد نبوی کو چھوڑ دیا اور البقیع کے قریب کھجور کے باغ پہنچے۔ اپنے اونٹ کو پانی پلایا اور خوب دھویا۔ پھر واپس پلٹے اور مسجد نبوی کی طرف گئے۔ وہیں مسلمانوں کی ایک جماعت کے سامنے کھڑے ہوئے اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کہا: "اے محمد، خدا کی قسم! اس روئے زمین پر آپ سے زیادہ ناپسندیدہ چہرہ کوئی نہیں تھا۔ اب آپ کا چہرہ میرے لیے سب سے زیادہ پیارا ہے۔”
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم جو کہ اسلام کے ماننے والے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی کے دعویدار ہیں ان کی تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں اور معمولی سی بات پر ایک دوسرے کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
نبی صلعم نے اپنے آخری خطبہ حجتہ الوداع میں خصوصی تاکید فرمائی تھی: "لوگو! تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی حرام ہیں جیسا کہ تم آج کے دن کی اس شہر کی اور اس مہینہ کی حرمت کرتے ہو۔ دیکھو عنقریب تمہیں خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال فرمائے گا۔ خبردار میرے بعد گمراہ نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہو۔۔۔۔۔۔ لوگو! اپنی بیویوں کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہو۔ خدا کے نام کی ذمہ داری سے تم نے ان کو بیوی بنایا۔۔۔ تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں جو خود کھاؤ ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ۔”
” تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔” مسلم
"تم میں بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے بہترین ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لئے تم سب سے اچھا ہوں۔” (ترمذی:۳۹۲۱)
مگر آج میڈیا پہ ایسی لاتعداد خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں جن کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے۔ بہن بھائیوں حتی کہ والدین کو بھی جائیداد کی خاطر قتل کر دیا جاتا ہے۔ رشتہ نہ ملنے پہ لڑکیوں پہ تیزاب پھینک دیا جاتا ہے۔ لوگوں میں برداشت اور صبر ختم ہو چکے ہیں۔
بحیثیت مسلمان ہمیں اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیمات یاد رکھنی چاہئیں اور ان پہ عمل کرنا چاہیے تاکہ دنیا میں امن قائم ہو سکے۔ اور یہ صرف کسی ایک دن سے منسوب نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیں اپنی پوری زندگی یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم کسی کے لیے باعث تکلیف نہ بنیں بلکہ سب کے لیے باعث راحت ہوں۔ کیونکہ یہی نبی صلعم کی نصیحت بھی ہے۔ "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو محفوظ سمجھیں۔” (ترمذی 2627)