اشاروں کی زبان کا عالمی دن: پاکستان میں قوت سماعت سے محروم 10 ملین شہری کس حال میں ہیں ؟
حمیرا علیم
ہر سال 19 ستمبر سے 25 ستمبر تک قوت سماعت سے محروم افراد کا عالمی ہفتہ منایا جاتا ہے جبکہ 23 ستمبر اشاروں کی زبان کا عالمی دن ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز 1958 میں 135 انجمنوں پر مشتمل ورلڈ فیڈریشن آف دی ڈیف نے روم میں کیا تھا اور 2017 کو اقدام متحدہ نے 23 ستمبر کو اشاراتی زبانوں کا عالمی دن قرار دیا۔
اس دن کا مقصد قوت سماعت سے محروم لوگوں اور اشاروں کی زبان استعمال کرنے والوں کی حمایت کرنا اور ان کی روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔اس دن سے ایک رسم بھی ادا کی جاتی ہے۔قوت سماعت سے محروم افراد کو تمام عوامی مقامات، سرکاری عمارتوں، گھروں، سٹی ہالز وغیرہ کو نیلی روشنی میں نمایاں کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔
ورلڈ فیڈریشن آف دی ڈیف کے مطابق دنیا بھر میں 72 ملین سے زائد افراد قوت سماعت سے محروم ہیں ان میں سے 80 فیصد سے زائد ترقی پذیر ممالک میں رہتے ہیں ،اجتماعی طور پر 300 سے زیادہ مختلف اشاروں کی زبانیں استعمال کی جاتی ہیں جبکہ ایک ایسی بین الاقوامی اشاروں کی زبان بھی ہے جسے بہرے لوگ بین الاقوامی ملاقاتوں، سفر کے دوران اور سماجی تعلقات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہر ملک کی آبادی کا 5 فیصد لوگ قوت سماعت سے محروم ہے۔اس تناسب سے پاکستان میں تقریبا دس ملین سماعت سے محروم شہری ہیں۔اتنی بڑی تعداد کے باوجود پاکستان میں اس کمیونٹی کے لیے کچھ خاص مواقع میسر نہیں ہیں۔ان کے سب سے بڑا چیلنج عام لوگوں سے رابطہ کرنا اور معلومات کا حصول ہے۔پاکستان میں اشاروں کی زبان کے ترجمانوں کی کل تعداد 95 ہے جس میں سے صرف 22 سند یافتہ ہیں اور یہ بھی بڑے شہروں میں ہیں یعنی صرف کراچی، لاہور، پشاور اور اسلام آباد کے لوگ ہی ان تک رسائی رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سماعت سے محروم افراد کو ڈاکٹروں، اساتذہ اور آجروں اور عام لوگوں سے بات چیت میں چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے۔
پاکستان میں 1980 سے اسکول اینڈ کالج فار ڈیف موجود ہیں۔ اسی کی دہائی میں ایک امریکی رچرڈ گیری ہاروٹز انکی اہلیہ فلپائن سے پاکستان منتقل ہوئے وہ برسوں سے فلپائن اور دہلی میں ڈیفس کے ساتھ کام کر رہے تھے۔
انہوں نے اپنے پیدائشی بہرے بیٹے کے ساتھ کراچی کی کچی آبادی کے پندرہ بچوں کو ایک کمرے میں پڑھانے کا آغاز کیا اور اس اسکول کو ڈیف ریچ کا نام دیا جس سے فیملی ایجوکیشن سروسز فاؤنڈیشن بنی۔سات اسکولز،کا ایک نیٹ ورک کراچی، حیدرآباد، رشید آباد، سکھر اور نواب شاہ کے ساتھ پنجاب میں لاہور تک پھیلا ہوا ہے۔
ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے پنجاب اور سندھ میں ڈیفس انسٹرکٹر اور ابسا اسکول کی ہیڈ ٹیچر روبینہ طیب کے ساتھ مل کر ایک نیا آن لائن لغت تیار کرنے کا کام کیا جو 5000 الفاظ اور فقروں پر مشتمل ہے اس کی ویب سائٹ پر ہر روز ایک نئ ویڈیو میں مردوں، عورتوں، لڑکیوں، اور لڑکوں کو انگریزی اور اردو میں دہرائے جانے والے فقرے پر اشارے کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔پی ایس،ایل کے انچارج فاؤنڈیشن آفیسر ہارون آواسین اس لغت کو ایک حتمی لغت کے طور پر نہیں بلکہ ایک پورٹل کے طور پر بیان کرتے ہیں۔جس کے ذریعے اشاراتی زبان کی ترقی جاری رہ سکتی ہے۔
آن لائن ٹولزکے ساتھ ایک کتاب، ایک سی ڈی اور ایک فون ایپ ہے۔کلاس رومز،میں کمپیوٹر اور ٹیلی ویژن نمایاں ہیں۔اساتذہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر اضافی مواد تلاش کریں۔پی ایس،ایل کے ٹولز بیک وقت تین زبانوں کو پرنٹ کرتے ہیں اردو انگریزی اور پی ایس ایل بچوں ان کے رشتے داروں اور دوسروں بھی سیکھنے کے قابل بناتے ہیں۔
” یہ نہ کہو” اور ” سائن اٹ” کے نام سے تشہیری مہم شرمین عبید چنائے اور کرکٹر شاہد آفریدی کو مختصر آن لائن ویڈیو کلپس میں سادہ فقروں پر اشارے کرتے ہوئے دکھایا گیا جس سے اس خیال کی تردید ہو گی کہ قوت سماعت سے محرومی ایک معذوری ہے۔ تنظیم کی لغت اور ڈی وی ڈی کی دس ہزار کاپیز پاکستان بھر میں تقسیم کی جا چکی ہیں۔
اس کے بعد فاونڈیشن 25 شہروں میں قوت سماعت سے محروم رہنماؤں کو بھیجے گی تاکہ وہ اپنی کمیونٹی سے ملاقات کریں اور چھوٹے گاؤں کے لیے مواد فراہم کریں۔18000 پی ایس ایل، 7000 ڈی وہ ڈی سیٹس تقسیم کرنے کے بعد تنظیم کو امید ہے کہ 150000 افراد اس سے مستفید ہوں گے۔
پاکستان سائن لینگوئج کو تیار کرنے کے لیے ابتدائی تحقیق کی گئی اور اسے پورے ملک میں پھیلانے کی کوشش کی گئی۔خصوصی تعلیم کے 302 اداروں میں 35000 افراد تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ڈیف ریچ اسکول تقریبا 1000 طلباء کو تعلیم دیتے ہیں اور اضافی فاؤنڈیشن پروگرام پیشہ ورانہ اور تکنیکی تربیت، والدین اور اساتذہ کی تعلیم پیش کرتے ہیں۔
کچھ نوجوانوں نے2017 میں کنیکٹ ہیئر کے نام سےایک پراجیکٹ شروع کیا تھا جس کا مقصد ڈیفس کو اشاروں کی زبان تک رسائی، انہیں با اختیار بنانا، اسٹرنگز بینڈ کے ساتھ کنسرٹ، جیو نیوز کے ساتھ انٹرپریٹیڈ الیکشن نائٹ اور لام کراچی کے ساتھ ڈیف تھیٹر کا مقابلہ کروانا ہے۔ان کا عزم ہے کہ ماہر ترجمانوں کوتربیت دے کر اشاراتی زبان کی خواندگی کو فروغ دیا جائے۔اس کے لیے انہوں نے YES کے نام سے اشاراتی زبان کا تربیتی پروگرام شروع کیا۔ یہ پروگرام دنیا بھر کے پیشہ ورانہ ترجمانی کے تربیتی پروگراموں پر مشتمل ہے۔
یوتھ ایکسچینج اینڈ اسٹڈی پروگرام نے ہمیشہ معذور افراد کی حوصلہ افزائی کی ہے۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں انہیں سائنسکے مضامین پیش نہیں کیے جاتے۔اور صرف آرٹس کی تعلیم کی اجازت ہے۔ان کے ٹاپرز کو میڈیا کوریج دی جاتی ہے نہ ہی کوئی ایوارڈ کہ ان کی حوصلہ افزائی ہو۔سینیٹ میں بھی ڈیفس کے لیے کوئی نشست نہیں جو کہ مساوی حقوق پہ ایک سوال ہے۔
ایک نجی ادارے کی قوت سماعت سے محروم کارکن اقصی جن کا تعلق اسلام آباد سے ہے انہیں ایک انٹرویو کے دوران خاصی دقت پیش آئی۔چونکہ انہوں نے میٹرک کیا ہوا ہے اس لیے سوال لکھ کر دینے کے باوجود وہ پڑھ نہ سکیں۔آخرکار صحافی نے ویڈیو کال پہ ایک مترجم کے ذریعے سوال کیے اور ان کے جوابات حاصل کیے۔پاکستان کامسئلہ یہ ہے کہ یہاں برٹش، امریکن اور مقامی لوگوں کی اپنی ایجاد کردہ سائن لینگویجز تو ہیں مگر کوئی یکساں سائن لینگوئج نہیں جو پورے پاکستان میں سمجھی جاتی ہو۔
سائن لینگوئج کے ماہر اور اسپیشل ٹیلنٹ ایکسچینج پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عاطف شیخ کہتے ہیں”سائن لینگوئج پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ ہے اگر ہمارے پاس ایک معیاری سائن لینگوئج نہیں ہو گی تو قوت سماعت سے محروم بچے تعلیم حاصل نہیں کر سکیں گے۔اسپیچ تھراپی سے ان بچوں کو تعلیم دی جا سکتی ہے جو تھوڑا بہت بولنا جانتے ہوں لیکن بالکل محروم بچوں کو بغیر اشاراتی زبان کے پڑھانا ممکن نہیں۔اگر وہ تعلیم حاصل نہیں کریں گے تو روزگار کے مواقع بھی کم ہو جائیں گے۔ان کی زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع بھی کم ہوتے جائیں گے۔اس وقت جو سائن لینگوئج پاکستان میں استعمال ہو رہی ہے وہ بہت زیادہ دیسی ہے۔یعنی ہر دیہات، علاقے اور شہر میں اپنی ضرورت کے حساب سے اشارے بنا لیے گئے ہیں۔والدین اپنی ضرورت کے مطابق اشارے بنا کر بچوں سے بات کر لیتے ہیں۔لیکن یہی بچے باہر نکل کر دوسروں سے بات نہیں کر پاتے۔پنجاب سے کوئی شخص کے پی یا سندھ میں جا کر بات نہیں کر سکتا۔”
قوت گویائی سے محروم افراد کے ڈائریکٹوریٹ کی انچارج شیریں مزاری کہتی ہیں:” ہمارے سینٹر میں سائن لینگوئج کو نہ صرف ایک زبان میں بلکہ علاقائی زبانوں میں بھی مرتب کیا جا رہا ہے۔کیونکہ بچے کو انگلش یا اردو نہیں آتی تو وہ اپنے آپ کو معذور سمجھے گا۔اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے ایک سے زائد زبانیں فراہم کی جائیں حتی کہ بریل بھی۔”
خرم یسین اسپیشل ٹیلنٹ ایکسچینج پروگرام اسلام آباد میں 2007 سے بطور سائن لینگوئج ٹرینر کام کر رہے ہیں۔وہ پیدائشی طور پر قوت سماعت سے محروم ہیں۔
انہوں نے بتایا” پاکستان میں کوئی مناسب سائن لینگوئج نہیں ہے۔میں جب کراچی جاتا ہوں تو وہاں کی ڈیف کمیونٹی کو میری باتیں سمجھ نہیں آتیں۔میں پشاور اور بلوچستان جاتا ہوں تو وہاں مختلف سائن لینگوئجز ہیں جس کی وجہ سے ہمیں مسائل سامنا کرنا پڑتا ہے۔لیکن جب میں امریکہ گیا تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔وہاں امریکی سائن لینگوئج ایک ہی تھی جو سب کو سمجھ آتی ہے۔”
عاطف شیخ کہتے ہیں” پاکستان میں نیشنل سائن لینگوئج بنانا بالکل ممکن ہے۔اس کا حل ایک ریسرچ، تفصیلی مطالعہ اور ڈیف افراد سے مشاورت ہے۔پاکستان کے علاقوں سے قوت سماعت سے محروم افراد اور سائن لینگوئج پہ کام کرنے والے اداروں، تعیلم دینے والوں کو بلایا جائے اور جامع ریسرچ کی جائےتبھی ہم ایک اسٹینڈرڈ سائن لینگوئج بنا سکیں گے۔” قوت سماعت سے محروم افراد کو بااختیار بنایا ہی پاکستان کے سماجی تانے بانے کو مضبوط بنا سکتا ہے۔