محمد سہیل مونس
آج سے تقریباً آٹھ نو ماہ قبل پرائمری سطح پر اساتذہ کی خالی آسامیوں کو پُر کرنے کے لئے محکمہ ہذا کی جانب سے ایک اشتہار جاری کیا گیا جس میں سے ان آسامیوں کو پُر کرنے کے لئے ایٹا کا ٹیسٹ دینا اور مخصوص نمبروں سے پاس کرنا لازمی تھا۔ اس ٹیسٹ کا انعقاد کرایا گیا اور جب امیدوار ٹیسٹس دے کر فارغ ہوئے تو شام کو ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس نے ایک تہلکہ سا مچا دیا کیونکہ ویڈیو میں متعلقہ پیپر کے لیک ہونے کا انکشاف کیا گیا تھا۔
اس واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور وزیر تعلیم کے علاوہ کئی ایک سرکردہ افسران نے ایکشن لیا، جس کا نتیجہ آج تک نہ نکل سکا بلکہ اس وقت اندازتاً میں نے جمع تقسیم کر کے حساب لگایا تو امیدواروں سے کوئی بیس لاکھ روپے سے زائد رقم ایٹا والوں نے بٹوری تھی اور لاکھوں روپے کے اخراجات امیدواروں نے امتحان گاہ تک آنے جانے میں صرف کر دیئے تھے۔
ایک عرصہ بعد اسی ادارے کی جانب سے ایک مزید اشتہار ذرائع ابلاغ کی زینت بنا جس میں سے تعلیم کے میدان میں ایک نئی آسامی کا اضافہ دیکھنے کو ملا جس کو سکول لیڈر کا نام دیا گیا، جس کا کام اپنے ضلع میں چار سے پانچ سکولوں کے انتقال علم کی استطاعت کو بہتر بنانا اور جدیدیت کے ساتھ ساتھ نت نئے حربے استعمال کر کے اپنے علاقے کے سکولز کے ماحول کو بہتر و خوشگوار بنانا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی چیزیں ہو سکتی ہیں لیکن اس کا علم تب ہو گا جب ان امیدواروں کو کام کرنے کی اجازت ملے گی جو چار ماہ سے زیادہ کا عرصہ بیت جانے پر بھی گو مگو کی حالت سے دوچار ہیں۔
ان خالی آسامیوں کے لئے بھی ایٹا کا ٹیسٹ لازمی قرار دیا گیا تھا جو آج سے کئی ماہ قبل ہو چکا ہے، جون سے قبل ان آسامیوں کے لئے کوالیفائی کرنے والوں نے پر تولنا شروع کر دیئے تھے لیکن بقول اکاؤنٹنٹ جنرل آفس کے عملہ کے متعلقہ ادارہ اس بجٹ کے بعد اس لئے ان آسامیوں کو پُر کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ نئے آنے والوں کو اینکریمنٹ لگانے کی جھنجھٹ سے ہم فی الحال بچ جائیں۔
آج جون کو بھی گزرے تین ماہ ہونے کو ہیں لیکن ان آسامیوں کو پُر کرنے کا اتہ پتہ ہی نہیں، معلوم نہیں متعلقہ ادارہ ان خالی آسامیوں کا اچار ڈال رہا ہے کہ کیا بات ہے، سارے امیدوار حیران و پریشان بیٹھے ہیں نہ کسی دوسری جگہ داخلہ لینے کی سعی کر سکتے ہیں کیونکہ جہاں جاؤ ہزاروں روپے داخلہ فیس اور نہ جانے کون کون سی چیزوں کے واسطے جمع کرنے پڑتے ہیں جس کی واپسی بھی نہیں ہوتی۔
اس کے علاوہ ان آسامیوں پر لئے جانے والے امیدواروں کی اولین فہرستیں لگنے کے بعد محکمہ ہٰذا نے ایک نئی پسوڑی یہ ڈال دی کہ جن امیدواروں کا ڈومیسائل ایڈریس مستقل پتہ سے فرق ہے چاہے وہ باوا آدم کے زمانے سے عارضی ایڈریس پہ رہائش پذیر ہے اور اپنے ضلع کا ڈومیسائل کینسل نہیں کیا تو ایسے امیدوار کو اس آسامی کے لئے نہیں چنا جائے گا۔
اب اس نکتے کی سمجھ تو یہ آ رہی تھی کہ کسی نے دو نمبری سے دوسرے ضلع کی ڈومیسائل بنا لی ہو تاکہ وہاں کا فائدہ حاصل کر سکے لیکن اصل مسئلہ ان لوگوں کو لاحق تھا کہ جو پشاور کے حیات آباد جیسے علاقے یا دوسری تیسری کسی نئے ٹاؤن شپ میں عرصہ دراز سے اپنا گھر گاؤں چھوڑ کر سکونت پذیر ہیں، ان کے ووٹ تک یہاں ہیں، ان کی تعلیم یہاں مکمل ہوئی ہے، وہ اسی ضلع میں رہ کر سارے ٹیکسز ادا کرتے آئے ہیں۔
اس کا حل تو مشتہر نے بالآخر یہ نکالا کہ ادارہ شناختی کارڈ کے بدلتے ایڈریسز کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صرف اور صرف ڈومیسائل کے پتہ پر نشستیں پُر کرے گا لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ کوئی نئی کہانی بیچ مین نہ نکل آئے۔
ہم ابھی نئی کہانی کا سوچ ہی رہے تھے کہ کہانی نکل آئی۔ چند دن قبل متعلقہ محکمہ کے ڈائریکٹر صاحب کے پاس بیٹھا تھا، ویسے ہی اس بارے دریافت کیا کہ سر ان آسامیوں کا کیا بنا تو صاحب گویا ہوئے کہ چند دن مزید لگیں گے کیونکہ اکاؤنٹنٹ جنرل آفس والوں نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ ہمارے پاس محکمہ تعلیم کے اس نئے کیڈر کا کوئی اندراج نہیں ہے، کل کلاں کو اگر ان کی تنخواہوں کا کوئی مسئلہ ہو گا یا اینکریمنٹس وغیرہ لگنے میں رکاوٹیں آئیں گی تو ذمہ دار ہم نہیں ہوں گے۔
صاحب نے مزید کہا کہ ان کی بات بھی صحیح ہے ہم سکول لیڈر کو اگر اسسٹنٹ ڈی ای او بنا دیتے تو بہتر ہوتا، اب ان کی بات میں کتنی صداقت تھی لیکن مجھے پاکستانی اداروں کی گلیاں اور سڑکیں بنانے کا خیال آیا۔ ان اداروں کی حکمت عملی اتنی ناقص ہوتی ہے کہ ایک ادارہ سڑک بنا کر کارپٹ کر دیتا ہے، دوسرا آ کر اس کی کھدائی شروع کر دیتا ہے اور اس میں سے سیوریج کا پائپ گزارنے لگتا ہے کہ اتنے میں گیس و فائبر آپٹیک بچھانے والے آ جاتے ہیں اور اچھے خاصے سڑک کا ستیاناس کر دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں منصوبہ بندی کا اتنا فقدان ہے کہ جس کا کوئی حساب ہی نہیں، آپ ذرا محکمہ تعلیم کے ان کارناموں کو ہی دیکھ کر اندازہ لگائیں کہ باقی ملک کا کیا حال ہو گا۔
ان حالات میں جہاں لوگ مہنگائی اور طرح طرح کے مصائب میں گرے پڑے ہیں ، اتنی امید تو رکھ سکتے ہیں کہ ہماری اولادوں نے اگر اتنا پڑھ لکھ لیا ہے اب اگر بروقت صاحب روزگار بن جائے تو چلو ہماری بھی کمر سیدھی ہو جائے گی لیکن ہمارے ہاں انسان کو تڑپا تڑپا کر مارنے کا رواج قائم ہے، اس لیگیسی کو لے کر چلنا ہر صاحب اقتدار نے اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے۔
اس وقت پاکستان کی کثیر آبادی ان حالات سے تنگ آ کر پرسکون موت کی تمنا دل میں لئے ہوئی ہے کہ کب بلاوا آ جائے اور بندہ اس جہاں سے کوچ کر جائے، وہ عمران خان صاحب کی بات کہ سکون تو قبر میں ہے۔۔۔