عالمی امن اک خواب۔۔۔ مگر بدنام اسلام کیوں؟
حمیرا علیم
اقوام متحدہ نے 2001 میں 21 ستمبر کو عالمی یوم امن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد عدم تشدد اور جنگ بندی کو فروغ دینا اور دنیا بھر کے لوگوں میں امن کی اہمیت اور جنگوں سے ہونے والی بربادی کے بارے میں آگاہی دینا اور ہم آہنگی، انسانیت کا احترام اور برداشت کو پروان چڑھانا ہے۔
اس دن کی مناسبت سے پوری دنیا میں سول سوسائٹیز اور حکومتی ادارے مختلف تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں مگر دنیا میں ہر طرف بدامنی، دہشت گردی، اندرونی و بیرونی جارحیت، عالمی اداروں کی بے حسی نے امن کو ایک خواب بنا کر رکھ دیا ہے۔ عراق، فلسطین، شام، برما، چین، کشمیر ہو یا یوکرین ہر جگہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگیں ہمیشہ دوسرے ممالک پہ قبضے، اپنے نظریات و افکار مسلط کرنے اور مال طاقت کی ہوس میں کی جاتی ہیں لیکن یہ بھی دہشت گردی ہی کی ایک قسم ہے۔
المیہ تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ جو کہ اس دن کا خالق ہے وہی اس دہشت گردی کو بھی پروان چڑھا رہا ہے۔ امن کے نام پہ مسلم ممالک پہ حملے کر کے انہیں تباہ و برباد کر رہا ہے۔ گوانتاناموبے ہو یا سری نگر جیل یا فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کا عمل جس طرح بے گناہ معصوم انسانوں کی جسمانی اور ذہنی تذلیل کی جاتی ہے وہ دل دہلا دیتی ہے۔
مغربی دنیا اسلام کو دہشت گردی سے منسوب کرتی ہے۔ اسلام جس کا مطلب ہی امن اور اطاعت ہے جو ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے وہ کیسے دہشت گردی کا درس دے سکتا ہے؟ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: "دونوں فریقین (مسلم و غیرمسلم) میں امن کا زیادہ حقدار دار کون ہے۔ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ جو لوگ صاحب ایمان ہیں اور جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم و شرک کی ہر ملاوٹ سے پاک رکھا ہے امن انہی لوگوں کے لئے ہے اور وہی حق پر بھی ہیں۔” الانعام 81
اللہ تعالٰی امن کو ایک نعمت قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے: "اہل قریش کو اس گھر کے رب کی عبادت کرنا چاہیے ہے جس نے انہیں بھوک سے بچایا کھانا کھلایا اور خوف سے امن دیا۔” القریش 4
آل عمران کی آیت 97 میں فرمان ربی ہے: "مکہ میں داخل ہونے والا ہر شخص صاحب امان ہو گا۔”
9/11 جیسے ڈرامے کر کے مسلم ممالک پہ حملوں کے جواز بنائے جاتے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس ساری اسلام دشمنی میں مسلم ممالک کے سربراہان بھی اسلام دشمن تنظیموں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں جب کہ اللہ تعالٰی نے تو ہمیں دشمن سے بھی عدل کرنے کا درس دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی مسلم ملک میں غیرمسلم بھی امن و امان کے ساتھ رہائش پذیر ہوتے تھے اور ہوتے ہیں۔
ایک ایسا نبی جو اپنے دشمنوں کو بھی معاف فرما دے، ان کے لیے رحمت ہو وہ کیسے اپنے پیروکاروں کو دہشت گردی کی تعلیم دے سکتا ہے؟ ان کی نرم دلی کی کئی مثالیں ہیں جیسے کہ جب مکہ میں قحط پڑا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو سفیان کو 500 درہم بھیجے کہ وہ ضرورت مندوں میں تقسیم کر دے۔ دشمن علاقوں کو فتح فرمایا تو فوج کو حکم دیا کہ کوئی درخت نہ کاٹا جائے، فضل نہ تباہ کی جائے، عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کیا جائے، ان کی عبادت گاہیں منہدم نہ کی جائیں، اگر غیرمسلم جزیہ ادا کریں تو انہیں بالکل ویسا ہی تحفظ دیا جائے جیسا کہ مسلمانوں کو۔
یہی طرز عمل خلفائے راشدین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور مسلم بادشاہوں کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو ان کی سلطنت کے یہودی بھی رو رہے تھے۔ اسلام حقوق اللہ سے زیادہ حقوق العباد پہ زور دیتا ہے پھر ایسا مذہب کیسے اپنے ماننے والوں کو ظلم و تشدد کی ترغیب دے سکتا ہے؟
جنگوں کے نتیجے میں دنیا میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں۔ اپنے پیاروں کو کھو دیتے ہیں۔ ہاتھ پاؤں گنوا دیتے ہیں۔ انہیں دوسرے ممالک میں پناہ لینی پڑتی ہے۔ جہاں وہ مہاجر کیمپس میں خیموں میں موسموں کی سردی گرمی برداشت کرتے ہیں۔ بچے والدین سے اور والدین بچوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ناکافی خوراک اور طبی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے بیماریوں کو شکار ہو جاتے ہیں۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ اپنے ہمسایہ ممالک کی وجہ سے اسے بہت سی دشواریوں کا سامنا ہے۔ کبھی کے پی میں اے پی ایس پہ حملہ تو کبھی کراچی میں بیس پہ حملہ کبھی راولپنڈی میں ایجنسی کے آفس پہ دھماکہ اور کبھی کوئٹہ اور پشاور میں مساجد اور امام بارگاہوں اور ہاسپٹلز پہ خودکش دھماکے، وزیرستان اور بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملوں سے جتنا نقصان پاکستان نے سہا ہے شاید ہی کسی اور ملک نے برداشت کیا ہو۔
مجھے کوئٹہ میں رہتے ہوئے چودہ سال ہوئے ہیں۔ ابتدائی سالوں میں تو بازاروں، ہاسپٹلز، کورٹ اور شاہراہوں پہ بم دھماکے یا خودکش حملے اس قدر عام تھے کہ لوگ باہر نکلنے سے بھی ڈرتے تھے لیکن گذشتہ چند سالوں میں لیویز اور ایف سی کی بہترین کارکردگی کی بدولت امن و امان کی صورتحال کچھ بہتر ہوئی ہے۔ کئی بار گھر کے کھڑکیاں دروازے دھماکوں کی وجہ سے لرز گئے اور ایک بار کسی میزائل کے گزرنے کی وجہ سے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔ دن رات میں کسی بھی وقت فائرنگ شروع ہو جاتی ہے۔ جتنی بری صورتحال ہے اتنا میڈیا پہ پیش نہیں کیا جاتا۔
ہمارے گھر کے ایک طرف ایک پل ہے جہاں پولیس کی چوکی ہے اور دوسری طرف سریاب روڈ جہاں آئے روز دھماکے عام سی بات ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں لوگ شہید ہوئے تو کئی زخمی۔ ہلاک شدگان کے اہل خانہ کو اپنے پیاروں کے بچھڑنے کا دکھ تو سہنا ہی پڑتا ہے مگر دیگر مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ میزان چوک میں ہونے والے بم دھماکے میں نوے لوگ شہید ہوئے مگر یہ صرف نوے لوگ نہیں بلکہ نوے خاندان تھے جو اس دن مر گئے۔ کئی خاندانوں کے کفیل مرد اس میں جان سے گزر گئے۔
کورٹ میں ہونے والے دھماکے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے لواحقین اپنے پیاروں کی خبرگیری کے لیے سینڈیمن ہاسپٹل پہنچے تو پارکنگ میں ہونے والے دھماکے کی نذر ہو گئے۔ کسی کا اکلوتا بیٹا گیا تو کسی کے والد، بھائی بیٹے سب مارے گئے۔ ایک ٹی وی چینل میں کام کرنے والی خاتون کو اس کے رپورٹر سے اطلاع ملی کہ اس کا اکلوتا بھائی اس حادثے کی نذر ہو گیا۔ حال ہی میں زیارت جاتے ہوئے نادرا کے ایک آفیسر کو اس وقت اغواء کر لیا گیا جبکہ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ تفریح کی غرض سے زیارت جا رہے تھے۔ انہیں اور ان کے ڈرائیور کو اغواء کر لیا گیا اور دو دن بعد ان کی لاش ملی۔ ایسے اغواء اور قتل بھی روزمرہ کا معمول ہیں۔ کئی تاجروں اور ڈاکٹرز کو اغواء کر لیا جاتا ہے پھر بھاری تاوان کے عوض رہا کیا جاتا ہے یا کہیں سے ان کی لاش ملتی ہے۔
حکومت بلوچستان نے رواں سال کے بجٹ میں امن و امان کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے اس کے علاوہ بھی ایف سی اور دیگر فورسز کو خطیر رقم دی جاتی ہے۔ بلوچستان اس جنگ میں فرنٹ لائن پر ہے اور کم وسائل کے باوجود اس آگ کو ملک کے دوسرے صوبوں تک نہیں پھیلنے دیا جا رہا۔
وزیرستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملوں اور دہشت گردی سے ایک کثیر تعداد متاثر ہوئی ہے، لوگ ان حملوں کے نتیجے میں معذور ہو گئے۔ ہزاروں لوگوں کو اپنا علاقہ چھوڑ کر پنجاب اور کے پی کے مختلف علاقوں میں پناہ لینی پڑی۔سینکڑوں گاؤں تباہ ہو گئے۔ کسی زمانے میں نادرن ایریاز سیاحوں کے لیے ایک بڑی اٹریکشن تھے مگر خراب حالات نے اس صنعت کو بھی نقصان پہنچایا۔ ہمارے کئی فوجی آفیسرز اور جوان دہشت گردوں سے مقابلے کے دوران شہید ہوئے۔پاکستان کو اس جنگ میں نہ صرف مالی اور جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اس کی شہرت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ لوگ پاکستان میں آنا پسند نہیں کرتے کیونکہ انہیں یہاں جان کا خطرہ ہو سکتا ہے۔
اس سب کے باوجود پاکستانی افواج ہر مشکل گھڑی میں نہ صرف عوام کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں بلکہ دیگر شورش زدہ ممالک میں بھی قیام امن کے لیے اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ہمارے سیکورٹی اہلکار جنگ زدہ علاقوں میں امن و سلامتی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان 28 ممالک میں 46 اقوام متحدہ پیس مشنز میں حصہ لے چکا ہے اور 158 پاکستانی پیس کیپرز اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ اب تک دو لاکھ فوجی اقوام متحدہ کے امن مشنز میں حصہ لے چکے ہیں۔
جنرل یو این انتونیو گوتریس نے پاکستانی امن دستوں کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا: "پاکستان اقوام متحدہ مشن میں ٹاپ کنٹریبیوٹر ہے۔ اس مشن میں پاکستانی خواتین اور مرد اہلکاروں سے میری ملاقات بڑی متاثر کن تھی۔ میں ان کے جذبہ امن کو داد پیش کرتا ہوں۔”
اس دن کو منانے کے لیے انفرادی سطح پہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ مخیر حضرات جنگوں سے متاثرہ لوگوں کی مالی مدد کریں سکتے ہیں۔ بطور مصنف اپنی تحاریر کے ذریعے مسائل کی اہمیت اجاگر کریں۔ ایک استاد سیمینارز، لیکچرز اور تقاریر کے ذریعے طلباء کو آگاہ کر سکتا ہے۔ عالم دین اسلام میں حقوق العباد اور امن کے بارے میں بتائے۔ دکان دار، نوکری پیشہ افراد اور تجار اپنی آمدنی کا ایک حصہ ایسے لوگوں کی بحالی کے لیے مختص کر سکتے ہیں۔ ایک مصور اپنی تصاویر کے ذریعے امن کا پیغام دے سکتا ہے۔ طلباء مضامین، تقاریر اور ریلیز منعقد کر سکتے ہیں۔ میڈیا سے وابستہ افراد ڈاکیومینٹریز، پروگرامز اور کالمزکے ذریعے جنگ سے متاثرہ لوگوں کے مسائل کے بارے میں آگاہی پھیلا سکتے ہیں۔ مبلغ حضرات اس حوالے سے اسلامی تعلیمات اور انصار و مہاجرین کی مثالیں دے کر لوگوں کو نیکی پہ آمادہ کر سکتے ہیں۔ ہیومن رائٹ ایکٹیوسٹ جنگوں اور قیدیوں پہ کیے جانے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھا سکتے ہیں۔ این جی اوز کے سربراہان عالمی سطح پہ اس سلسلے میں فنڈز اکھٹے کر سکتے ہیں۔
اسی طرح بین الاقوامی اداروں میں کام کرنے والے پالیسیز بنانے میں مدد کر سکتے ہیں۔ مہاجرین کی رہائش، ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں، جبری مشقت، مذہبی تبدیلی کے لیے جبر اور ان پر عائد پابندیوں کے خلاف بات کر کے ان کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بحیثیت ایک عام پاکستانی کے شروعات اپنے گھر اور محلے سے کیجئے۔ اہل خانہ اور اہل محلہ سے نرم دلی، محبت اور رواداری سے پیش آئیے۔تاکہ معاشرے میں امن و امان پھیلے۔