عالمی یوم جمہوریت اور اسلامی نظام
عبد المعید زبیر
روئے زمین پر آج تک جتنے بھی نظام رائج رہے ہیں، ان میں عوام کی خوشحالی و بحالی کے ساتھ ساتھ ریاست کی تعمیر و ترقی کا عنصر غالب رہا ہے۔ ہر نظام ایک مخصوص طرز اصول پر قائم رہا، جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا بھی رہا ہے۔ اگر ایک نظام میں کسی ایک خاص اصول یا فکر کو ممتاز حیثیت رہی تو دوسرے نظام میں کوئی دوسرا اصول یا فکر ممتاز رہی۔ پھر اسی فکر پر ریاستوں کی توسیع و تکمیل ہوتی تھی لہذا انہی مختلف افکار سے مختلف سیاسی نظریے بھی وجود میں آتے رہے۔
انسانوں کے تخلیق کردہ ان مختلف نظریات و افکار میں جس فکر کو سب سے زیادہ پذیرائی ملی وہ روسو کا "عمرانی معاہدہ” ہے جسے انقلاب فرانس کے بعد فلسفہ سیاست میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ روسو جو خود تو ساری زندگی مشکلوں میں رہا، مگر 1762ء میں لکھی گئی اس کی کتاب "معاہدہ عمرانی” جو اس کی زندگی میں تو بدنامی کا باعث رہی، مگر پھر اسے ریاستوں اور حکومتوں کے قیام میں معتبر نسخہ سمجھا جانے لگا حتی کہ انگلستان کے رچرڈ ہوکر نے اس کتاب کو ریاست کی "بنیاد” قرار دیا۔
روسو کا نظریہ انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کو فروغ دیتا ہے۔ وہ قوم کے فیصلوں کا اختیار چند افراد کو دینے کی بجائے قوم کو ہی دیتا ہے کہ وہ اپنا فیصلہ خود کرے، وہ جسے چاہے منتخب کرے، وہ جو چاہے قانون بنائے، وہ جیسے چاہے آزاد زندگی بسر کرے۔ روسو کے نزدیک اصل چیز فطرت ہے، وہ قوم کو کسی خاص فکر سے آزاد کر کے اپنی آزادانہ زندگی جینے کی بات کرتا ہے۔ وہ مذہب کو ریاست کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے اس کو گھر کی چاردیواری میں بند کرتا ہے، وہ قوم کو ہی طاقت کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔
اس وقت جس نظام کو عالمی سرپرستی حاصل ہے، وہ یہی جمہوری نظام کہلاتا ہے۔ جس کا سب سے بڑا دعوے دار امریکہ اور اس کا ایک "ذیلی ادارہ” اقوام متحدہ ہے۔ جو اپنے زیراثر ملکوں میں اس نظام کو بہتر بنانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسی تناظر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2007ء کے 62ویں اجلاس میں 15 ستمبر کو عالمی یوم جمہوریت منانے کا اعلان کیا جس کا مقصد عالمی سطح پر جمہوریت کے شعور کو اجاگر کرنا، غیرجمہوری قوتوں کا راستہ روکنا اور عوام میں اس کی اہمیت کو مقبولیت فراہم کرنا ہے۔ اس کے لیے مختلف سیمینارز اور اجتماعات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
دہشت زدہ بدحال عوام کے سامنے جمہوریت کو مخصوص نعروں کے ساتھ یوں پیش کیا جاتا ہے کہ محسوس ہونے لگے کہ واقعی یہی ایک نظام نجات دہندہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جمہوریت اقتدار کو کسی خاندان یا شخص کی ذاتی ملکیت سے نکال کر عوام کے سپرد کرتی ہے کہ وہ اپنے ووٹوں سے اپنی پسند کا شخص منتخب کریں، جو ان کے حقوق کی بات کرے، ان کی فلاح و بہبود میں کام آ سکے، معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ اس ووٹ دینے میں جاہل اور پڑھے لکھے کو برابر تصور کرتی ہے۔ پھر اختیارات ایک شخص کے سپرد کرنے کی بجائے مختلف لوگوں میں بانٹ دیتی ہے تاکہ ریاست میں توازن برقرار رہے۔ جمہوریت قوم کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنے منتخب شدہ لوگوں سے جواب طلبی کر سکیں۔ وہ حکومتی پالیسیوں پر آزادانہ رائے زنی کر سکیں۔ وہ اپنی آزادانہ فطرت کے پیش نظر کثرت رائے سے اپنی مرضی کا قانون بنوا سکیں۔
حقیقت میں یہ صرف باتیں ہیں۔ جمہوریت کا نام نہاد علمبردار امریکہ کئی سالوں سے مختلف ممالک میں خون کی ہولی کھیل رہا ہے، انسانی حقوق کو پامال کر رہا ہے، ان کی آزادانہ ریاستی حیثیت کو ختم کر کے اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ریاستی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔
اگر ہم اپنے ملکی معاملات دیکھیں تو جمہوری حکومت چند خاندانوں کے گھر کی لونڈی بن چکی ہے۔ وہ ہر دور میں وفاداریاں بدل کر حکومتوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہاں طاقت کے زور پر حکومتوں کی بندر بانٹ ہوتی ہے۔ قوم کے پیسوں پر جمہوریت کے رکھوالے عیاشیاں کرتے ہیں۔ امیر پہلے سے زیادہ مالدار اور غریب طبقہ مہنگائی، ظلم، قتل و غارت گری اور ناانصافیوں کا سامنا کر رہی ہے۔
ایسی صورتحال میں اگر متبادل نظام کے طور پر دیکھا جائے تو اسلامی نظام ہی نظر آتا ہے جس کی بنیاد ہی جمہوریت سے متصادم ہے۔ کیوں کہ اسلام میں اصل حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے، لہذا اسلامی حکومت کا بنیادی تصور یہ ہے کہ جو کوئی بھی سربراہ ریاست بنے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کو نافذ کرے گا، اقامت دین کی زمہ داری پوری کرے گا، عدل و انصاف کو قائم رکھے گا، لوگوں کو امر بالمعروف اور نہی عنہ المنکر کرے گا۔ مگر جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہے۔ لہذا احکامات الٰہیہ سے بالکلیہ صرف نظر کرتے ہوئے، کثرت رائے سے عوامی امنگوں کا احترام کیا جاتا ہے۔ کثرت رائے سے آزادانہ فطرت کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اسی لیے تو آج کل ٹرانسجینڈر کے نام پر کثرت رائے سے ہم جنس پرستی کو قانون بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہاں جمہوریت ایک پارٹی کو اختیارات سونپ کر باقیوں کو پانچ سال تک غلامی پر مجبور کرتی ہے۔
اسلام میں منصب کی اہلیت کے لیے عاقل، بالغ، سلیم الطبع، نیک، متقی اور احکام شریعت کا عالم ہونا ضروری ہے، جو اپنی رعایا کی صحیح معنی میں خدمت کر سکے۔ مگر ہماری جمہوریت میں جو جتنا قوم کو جھوٹ بول کر، سبز باغ دکھا کر اور قوم کے ضمیر کو چند ٹکوں کے عوض خرید کر زیادہ ووٹ حاصل کر لے، وہی عوامی نمائندگی کا حقدار کہلاتا ہے۔
اسلام میں اصل قانون قرآن و سنت ہے اور وہی "مقدس” کہلاتا ہے۔ جس کے شارع خود اللہ تعالیٰ ہیں۔ مگر جمہوریت میں انسانوں کا تیار کردہ آئین "مقدس” کہلاتا ہے۔ پھر موقع محل اور مجرم دیکھ کر اس کی اپنی مرضی سے تشریحات کی جاتی ہیں۔ اگرچہ وہ اسلام کے خلاف ہی کیوں نہ ہون۔ پھر ہر حکومت کو پانچ سال تک مکمل اختیار دے کر حاکمیت اعلیٰ اسی کے سپرد کر دی جاتی ہے کہ جو چاہے، جیسے چاہے کرے۔ اگلی دفعہ کسی دوسری پارٹی کی باری آ جاتی ہے اور وہ اپنی مرضی کی قانون سازی کرتی ہے۔ اسی لیے ہمارے "مقدس” آئین میں بیس سے زائد مرتبہ ترمیمات ہو چکی ہیں۔ گویا ہمارے ہاتھوں ہمارا مقدس آئین ہی محفوظ نہیں رہ سکا۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ مسلمان ملک ہونے کے باوجود ساٹھ ستر سالوں سے توہین رسالت کے قانون کی پہرہ داری کرنی پڑ رہی ہے۔ ہر دور کے اندر اس میں ترامیم کرنے یا غیر موثر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ذرا سوچیے! جو انسان خود نامکمل ہے وہ مکمل چیز کیسے بنا سکتا ہے۔ جو خود کے فیصلے سو فیصد درست نہیں کر سکتا، وہ پوری قوم کے فیصلوں کی ذمہ داری کیسے اٹھا سکتا ہے۔ لہذا قوم و ملت کی ترقی کے لیے ایسے قانون اور نظام کی ضرورت ہے جو کامل ہو، جس میں تمام انسانیت کے لیے راہ نمائی ہو، جو سب کو بلاتفریق انصاف مہیا کرتا ہو، جو امن و امان کا ضامن ہو۔ اور وہ اسلامی نظام حکومت ہے ۔