تعلیمکالم

ورلڈ لٹریسی ڈے: ہر ملک اپنی مقامی زبان میں تعلیم دیتا ہے

حمیرا علیم

8 ستمبر ورلڈ لٹریسی ڈے یعنی خواندگی کا عالمی دن ہے۔ یونیسکو نے نومبر 1995 میں اس دن کا اعلان کیا تھا اور 1996 سے اس کے منانے کا آغاز ہوا۔ اس دن کا مقصد خواندگی کی اہمیت، اس کے فوائد اور اقدامات کا جائزہ لینا ہے۔

تعلیم حاصل کرنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ یہ حق مفت فراہم کرے مگر پاکستانی آج بھی بنیادی سہولیات زندگی سے محروم ہیں۔ حالانکہ بحیثیت مسلمان ہمیں علم حاصل کرنے کا حکم 610ء میں ہی ‘اقراء باسم ربک الذی خلق’ کے ذریعے دے دیا گیا تھا۔ ”اقراء” ہی کسی ملک کی ترقی کا ضامن ہے۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 25-A کے تحت ریاست ہر پانچ تا سولہ سال کے ہر بچے کو مفت تعلیم مہیا کرنے کی پابند ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ریاست ان 75 سالوں میں یہ ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 3 تا 5 پانچ سال کے ایک کروڑ 44 لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں۔ پرائمری میں 2 کروڑ 57 لاکھ، مڈل میں 79 لاکھ سے 83 لاکھ، میٹرک میں 42 لاکھ سے 45 لاکھ، انٹر میں 25 لاکھ، فنی اور تکنیکی طلباء 4 سے 5 لاکھ ہیں۔ 73 فیصد مرد اور 9.51 فیصد خواتین خواندہ ہیں۔ عالمی شرح خواندگی کے لحاظ سے پاکستان 200 میں سے 173ویں نمبر پر ہے۔

1947 سے آج تک 22 تعلیمی پالیسیز کا اجراء ہوا مگر کوئی بھی پالیسی عوام کو باشعور اور خواندہ نہیں بنا پائی۔ ترقی یافتہ ممالک میں تعلیمی بجٹ اچھا خاصا ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں 22-2021 میں تعلیم کے شعبے کے لیے 109 ارب روپے مختص کیے گئے۔ پچھلے پچاس سالوں کے بجٹ کا جائزہ لیں تو ہمارا تعلیمی بجٹ 3 فیصد ہی رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں ناروے کا %4.6، امریکہ کا %1.6، نیوزی لینڈ کا %3.6 اور ہندوستان کا %1.3 رہا ہے۔ حکومت کو تعلیمی بجٹ میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کے استعمال کو بھی یقینی بنانا ہو گا۔

ہمارے تعلیمی اداروں میں موضوعات کو سمجھانے کی بجائے رٹا سسٹم پہ زور ہوتا ہے جو طلباء کو نمبرز کی دوڑ میں تو اول پوزیشن دلا دیتا ہے مگر ان کے علم میں اضافہ نہیں کرتا حتی کہ پی ایچ ڈی ایم فل لوگ بھی اپنے مضمون پہ کمانڈ نہیں رکھتے نتیجتاً اعلی اعزازت کے ساتھ ڈگری لینے والے بھی انٹرویوز، ٹیسٹس میں اور عملی زندگی میں ناکام ہو جاتے ہیں۔

ٹیچر ایجوکیشن اور ٹریننگ بہت اہم ہیں۔ تربیت یافتہ اساتذہ معاشرے سے نفرت، بدعنوانی، اقربا پروری، چوری اور ذات پات کے بت توڑنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اساتذہ کے لیے بھی پائلٹس کی طرح لائسنس کا اجرا لازمی ہونا چاہیے ہے۔ تربیت یافتہ اور ڈگری ہولڈر اساتذہ کا تقرر کیا جائے جن کی باقاعدگی سے تربیت کی جائے اور انہیں جدید کورسز کروائے جائیں۔ ٹیچرز ٹریننگ کا لازمی جزو سزا و جزا کا تصور بھی ہے۔ اساتذہ خود ایمان داری سے اپنے فرائض سرانجام دینے والے ہوں گے تو ہی شاگردوں میں یہ وصف پیدا کر سکیں گے۔ اگر کوئی اپنے فرائض سے غفلت برتے تو اس کا محاسبہ کیا جائے اور بہترین کارکردگی پہ انہیں انعام سے نوازا جائے تو اس شعبے میں بہتری کا امکان ہے۔

تعلیمی لحاظ سے دنیا کے بہترین ملک فن لینڈ میں اسکولز کو کھیل کے میدان اور دیگر غیرنصابی سرگرمیوں کا مرکز بنا دیا گیا ہے جہاں کتب کی بجائے عملی تعلیم دی جاتی ہے۔ اساتذہ کی تعیناتی کا نظام اتنا دشوار ہے کہ دس میں سے ایک ٹیچر منتخب ہوتا ہے۔ ان کی ڈگریز کے ساتھ ساتھ ان کی تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کو پرکھا جاتا ہے۔ انہیں کلاس روم میں اپنی صلاحیتوں کا کامیاب اظہار کرنا ہوتا ہے تب جا کر ان کی تعیناتی ہوتی ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں سفارش اور سیاسی بنیادوں پہ کوئی جعلی ڈگری ہولڈر بھی استاد منتخب ہو جاتا ہے جو کہ خود کسی قابل نہیں ہوتا تو وہ بچوں کو کیا سکھائے گا۔

مانیٹرنگ کے نظام کے ذریعے اسٹاف اور طلباء کی حاضری، معیاری تدریس اور طلباء کے اندراج پہ نظر رکھی جا سکتی ہے۔ گھوسٹ اسکولز بند کر کے بہتر کارکردگی والے اسکولز کو ہائر اور کالج لیول پہ ترقی دی جا سکتی ہے۔

اگر ترقی یافتہ ممالک کی پالیسی فالو کریں تو ہر ملک اپنی مقامی زبان میں تعلیم دیتا ہے اور بطور سیکنڈ لینگویج انگلش یا فرنچ پڑھائی جاتی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اردو زبان میں تعلیم کو ممکن بنائیں اور انگلش، فرانسیسی، چینی یا عربی زبانوں کو بطور سیکنڈ لینگویج پڑھایا جائے۔

سلیبس بھی جدید خطوط پہ استوار کیا جائے۔ ایسی کتب مرتب کی جائیں جو طلباء کو عملی زندگی میں کام کرنے اور کامیاب ہونے کے قابل بنائیں۔ ہمارا نصاب، اس کے اہداف و معیار، درسی کتب اور کتب خانے 1947 سے ایک جیسے ہیں۔حالانکہ نصاب پہ ہر چار پانچ سال بعد نظرثانی ضروری ہے تاکہ اسے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق بنایا جا سکے۔ ماہرین تعلیم، اساتذہ، پرنسپلز، طلباء، والدین اور حکمرانوں کی مشاورت سے نصاب مرتب کیا جانا چاہیے۔ مختلف میڈیم کے ذریعے انہیں تربیت دی جائے۔

میلبورن انسٹیٹیوٹ آف اپلائیڈ اکنامکس اینڈ سوشل ریسرچ کے مطابق چھوٹے بچوں کو گھر میں کتاب پڑھ کر سُنانے سے اسکول جانے پہ ان کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے۔ ٹی وی، ریڈیو، نمائش، سیمینار، چارٹ، ماڈل اور پوسٹرز کے ذریعے تعلیم دی جائے۔ بچوں کو جدید ٹیکنالوجی کا استعمال سکھایا جائے تاکہ وہ عالمی سطح پہ مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔ جدید کمپیوٹر، ملٹی میڈیا، اسمارٹ بورڈ، لیبز اور ہزاروں کتب موجود تو ہیں مگر ان پہ قفل لگا ہوا ہے استعمال کی اجازت نہیں یا قابل اساتذہ نہیں کہ انہیں استعمال کر سکیں۔ یا وہ چیزیں پرنسپلز کے گھروں میں شفٹ کر دی جاتی ہیں۔صرف جدید وسائل مہیا کرنا ہی کافی نہیں بلکہ اداروں کو ان کا استعمال سکھانے کی بھی ضرورت ہے۔

جامع منصوبہ بندی کے ساتھ تمام مدارس، فیکٹریز، فارمز یونین کونسلز، اور دیگر اداروں میں تعلیم بالغاں کے مراکز کھولے جائیں خصوصاً خواتین کو تعلیم دی جائے اور روایتی طریقہ ہائے تدریس کے ساتھ ساتھ جدید رجحانات سے بھی استفادہ کیا جائے۔

مختلف تعلیمی اداروں میں شراکت داری ہونی چاہیے۔ بہتر کارکردگی دکھانے والے تعلیمی اداروں کے اسٹاف کے ذریعے دوسرے اداروں کی ٹریننگ کروائی جائے۔ وہ لوگ اپنے تجربات، وسائل، کامیابیاں اور مشکلات ایک دوسرے سے شئیر کریں اور ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔ اسٹاف کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے۔ اسٹاف، پرنسپلز، والدین اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی کمیٹیز بنا کر تعلیمی اداروں کا بہتر ڈیویلپمنٹ پلان بنایا جا سکتا ہے۔ ایک دوسرے کے لیے ماہرانہ رائے دی جائے۔

ہمارے ملک میں دوہرا تعلیمی نظام ہے؛ انگلش ایجوکیشن سسٹم کا آئی بی کریکولم، او لیول اور اے لیولز، اور غریب طبقے کے لیے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ۔ یکساں نصاب تصور اچھا ہے مگر اس کے نقائص بھی ہیں۔ بجائے پرائیویٹ اسکول کے سلیبس کے گورنمنٹ اسکولز کا سلیبس رائج کر کے پرائیویٹ اسکولز کی کارکردگی کو بھی متاثر کیا گیا۔ اس پہ تمام اسٹیک ہولڈرز اور سیاسی جماعتوں کا اتفاق نہیں تھا کیونکہ بیشتر پرائیویٹ ادارے منسٹرز، ان کی بیگمات یا بہن بھائیوں کے ہیں۔

والدین تعلیمی اداروں کا سب سے اہم اسٹیک ہولڈر ہیں۔ وہ ادارے اور اسٹاف پہ اعتماد کر کے اپنے بچوں کا مستقبل ان کے ہاتھوں میں سونپتے ہیں۔خود بھوکے رہ کر بچوں کی فیس، اسٹیشنری، کتب، یونیفارم، وین کا کرایہ اور دیگر ضروریات پوری کرتے ہیں لیکن انہیں فیصلہ سازی میں شامل نہیں کیا جاتا نہ ہی انہیں تعلیمی کارکردگی سے آگاہ کیا جاتا ہے۔والدین، ادارے اور بچوں کی تکون میں ایک سائیڈ ہمیشہ سمجھوتہ کرتی ہے جس کا اثر معیاری تعلیم کے حصول پر ہوتا ہے۔

تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے تعلیمی نظام کی خامیاں دور کر کے اسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ شرح خواندگی میں اضافے سے ہی کوئی ملک ترقی کر سکتا ہے اور معاشرے میں امن و امان قائم ہو سکتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button