لائف سٹائلکالم

مرد چلچلاتی گرمی میں برقعہ پہن کر دکھائیں!

مرد کو گرمی میں ململ پہننے اور عورت کو دس کلو برقعہ پہنانے کی تاکید کس نے کی؟

محمد سہیل مونس

ایک روز پبلک ٹرانسپورٹ میں پشاور رنگ روڈ پر سے گھر آنا ہوا، سخت قسم کی چلچلاتی دھوپ تھی اور سواریاں اف اف کر رہی تھیں، گرمی سے نڈھال کچھ خواتین برقعہ پہنے بیٹھی تھیں جبکہ ایک کی گود میں ایک شیرخوار بچہ بھی تھا۔ یہ بچہ مارے گرمی کے بلبلا رہا تھا، ماں اسے دودھ پلانے برقعہ کے اندر کرتی تو بچارے کا سانس پھول جاتا اور باہر لاتی تو بھوک سے چلا اٹھتا۔

وہ بچاری خواتین ایک سٹاپ پر اتر گئیں لیکن حضرات کے بیچ اس موضوع پر بحث چھڑی کہ کیا ہلاکت خیز گرمی ہے، ایک نے کہا اب اس گرمی میں جہاں مرد نہیں پھر سکتے تو عورتوں کا کیا کام کہ اس چلچلاتی دھوپ میں گھر سے باہر نکلیں۔ اسی اثناء ٰابھی کہ میں کچھ کہتا ایک بزرگ نے جواب دیا بیٹا کوئی پاگل تھوڑی ہوتا ہے کہ اس گرمی میں باہر نکلے لیکن ہر بندہ کسی کام کی غرض سے ہی نکلتا ہے۔ اس موقع پر میں نے کہا حیران ہوں کہ ہمارے معاشرے کے مرد کو گرمی میں ململ پہننے اور عورت کو دس کلو برقعہ پہنانے کی تاکید کس نے کی ہے اور اس پر ظلم یہ کہ گود میں نومولود بچہ بھی ہو۔

اس کے جواب میں ایک شیخ صاحب لپک پڑے کہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ کہنے لگے کہ آپ کہاں کے ہیں؟ میں نے اپنا پتہ بتا دیا تو کہا وہاں کے لوگ تو نہایت ہی خالص پٹھان اور ریت و رواج کے پکے لوگ ہیں جبکہ اسلام میں بھی پردے کا حکم آیا ہے۔ میں نے دل میں کہا قاری صاحب! اب تو آپ گئے۔ میں نے عرض کیا جناب مجھے پردے کا طریقہ بتاؤ تو کہنے لگے کہ یہ اس طرح ہونا چاہیے اس طرح ہونا چاہیے عورت کے بال تک کسی غیرمحرم کی آنکھوں کے سامنے نہیں آنے چاہئیں۔ میں نے کہا چاہے وہ اس 46 درجہ سنٹی گریڈ میں خالق حقیقی سے ہی کیوں نہ جا ملے۔ یار خدا خدا کر, جہاں تک ہمارے ریت و رواج کا سوال ہے تو میں نے کبھی پختون کلچر میں برقعہ دیکھا ہی نہیں۔ اگر تو بھی پختون ہے تو اپنی ماں، دادی یا نانی سے پوچھ لے وہ ایک چادر اوڑھا کرتی تھیں جسے سالو کہا جاتا تھا اور پختون عورت مردوں کی طرح پھرتی تھی، اپنے مردوں کے ساتھ کھیت کلیان میں شانہ بشانہ محنت کرتی تھی۔ میں نے اکثر بچپن میں دیکھا تھا کہ عورتیں اپنے بچوں کو غمی خوشی اور ہر تہوار پر مجمع میں بیٹھ کر دودھ پلاتی تھیں لیکن اس وقت انسانوں میں حیاء کا عنصر تھا۔

اس بات پر شیخ صاحب بڑے تلملا گئے لیکن میں نے کہا آرام سے بات کرو اسلام جہاں سے آیا ہے وہاں کی عورت اور اس کا لائف اسٹائل دیکھا ہے، وہ پردہ کس طرح کرتی ہے وہاں کے مردوں کا رہن سہن ان کے چہروں پر حضور اقدس کی سنت کا نظارہ کبھی کیا ہے؟ تو کہنے لگے استغفراللہ کیا ہم بے حیائی کو فروغ دیں اور پردہ کرنا چھوڑ دیں۔ میں نے کہا یہ آپ سے کس نے کہا ہے، ہاں ایسا کرتے ہیں کہ عورتوں کی طرح اس معاشرے کے مرد بھی چند ماہ اس چلچلاتی گرمی میں یہ دس کلو کا برقعہ پہن کر دکھا دیں تو مان جاؤں۔

اس طرح کی سوچ کو تقویت دینے والوں نے چند دن پیشتر بنوں شہر کے چھاؤنی والے علاقے میں خواتین کی ایک سیر گاہ کو کینٹ انتظامیہ پر زور دیتے ہوئے بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ اس سیرگاہ کی وجہ سے اس علاقہ میں بے حیائی پھیلنے کا خطرہ ہے اور ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے یہاں کے غیور عوام اور مذہبی طبقے یہ چیز ہرگز برداشت نہیں کریں گے کہ ان کے علاقے میں بے حیائی پھیلے اور نئی نسل بے راہ روی کا شکار ہو جائے۔

ان لوگوں کو شاید حضرت علیٰ مرتضیٰ کی یہ بات یاد نہیں کہ ایک معاشرہ بے حیائی کے ساتھ تو چل سکتا ہے لیکن ظلم و جبر کے ساتھ نہیں، کیا بنوں کی سیر گاہ میں کھلے عام دعوت گناہ دیا جا رہا تھا یا پھر برہنہ و نیم برہنہ رقص و سرود کی محفلیں جم رہی تھیں۔ ہم اگر سچے مسلمان ہیں تو سب سے پہلے معاشرے سے ظلم و جبر کے خاتمہ کی جانب جانا چاہیے پھر بے راہ روی کی محرکات پر نگاہ ڈالنی چاہیے۔

کیا ہمارے معاشرے میں جہیز اور شادی بیاہ کی رسموں پر کبھی کسی مذہبی طبقے یا حکومت نے بات کی ہے، آج ایک کثیر تعداد میں ہماری بہنیں بچیاں بہتر رشتے نہ ہونے کی وجہ سے یا پھر شادی کے اخراجات کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے گھر پر بوڑھی ہو رہی ہیں۔ ہمارے معاشرے کے مرد نوکری اور ذاتی روزگار نہ ہونے کی وجہ سے یا پھر کم آمدن کی وجہ سے شادی بیاہ سے احتراز کے مرتکب ہو رہے ہیں، کیا ہم نے کبھی اپنے گریبانوں میں جھانکا ہے کہ ہم ان کے ان مسائل کو کیسے حل کریں اور کس طرح ہم اپنے معاشرے کو بے حیائی اور بے راہ روی سے بچائیں۔

یہ لوگ معاشرے کو سیر و تفریح کا کوئی ذریعہ تو مہیا نہیں کر سکتے البتہ ہر اس کام پر قدغن لگانے کے لئے ہر لمحہ تیار رہتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کا ذہن تازہ ہو سکے ان کو پاکستان جیسے ملک میں گھٹن کے اس ماحول میں کوئی خوشی کا لمحہ میسر آ سکے۔ ہم بچوں کو ماسوائے کھانے پڑھانے اور سونے کے علاوہ دے کیا رہے ہیں نہ تو ہماے پاس پارکس ہیں نہ کھیل کھود کے میدان نہ فنون لطیفہ کے مراکز نہ تھیٹرز نہ سنیما ہالز نہ لائبریریز اور نہ ادب و سخن کی محفلیں ہم تو زندگی نہیں گزار رہے بلکہ وقت ہمیں اس طرح کی دقیانوسی سوچ رکھنے والوں کے ہاتھ زندگی کے پل صراط پر سے گزار رہا ہے۔

ہمیں سوچنا ہو گا اور زندگی کو زندگی کے ہی روپ میں گزارنا ہو گا کیونکہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور خدا کی بتائی ہوئی حدود کے علاوہ کسی بھی ہستی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے تئیں اسلام اور قانون کی اپنی اصطلاحیں پیش کرتا پھرے اور لوگ ان کی مرضی کے خلاف آنکھ بھی نہ جھپک سکیں۔ بنوں کی ضلعی انتظامیہ کو چاہیے کہ اس طرح کی بے تکی باتوں میں ان شدت پسندوں کا ساتھ بالکل نہ دے اور کوئی ایسی ویسی حرکت کرنے والوں کو قرار واقعی سزائیں دے۔

monis
محمد مونس سہیل بنیادی طور پر ایک شاعر و ادیب ہیں، ڈرامہ و افسانہ نگاری کے علاوہ گزشتہ پچیس سال سے مختلف اخبارات میں سیاسی و سماجی مسائل پر کالم بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button