سیلاب 2022: اتفاق و اتحاد وقت کی اہم ضرورت
محمد سہیل مونس
ہمیں اس مشکل کی گھڑی میں اپنے اپنے مفادات اور آپسی رنجشیں ایک جانب رکھ کر اتحاد و اتفاق، صبر و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہو گا، شاید خدا ہمیں بار بار تنبیہہ کراتا آ رہا ہو اور ہم نے ہی ان کی منشاء سمجھنے میں غلطیاں کی ہوں۔ میرے خیال میں یہی وقت ہے کہ ہم سدھر جائیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر راہ راست پر آ جائیں۔
آج کے حالات اور واقعات غیرمعمولی ہیں اور اس کو اگر سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو شاید ہمیں صفحہ ہستی سے ہی نابود کر دیا جائے۔ ہم نے اپنی تباہی کو دعوت دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، ہمارے معاشرے میں عدل و انصاف ناپید ہو چکا ہے، ہم میں برداشت نام کی کوئی شے رہی نہیں، ہم بات بات پر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے روحانی نیٹ ورکس میں error آ چکا ہے۔ خدا کا وجود، حساب کتاب اور اس طرح کی کئی چیزیں ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ٹکتیں، ہم اپنی ذرا سی عقل کو لے کر فیصلے کرنے چلتے ہیں اور اس کا انجام ماسوائے ندامت کے کچھ نہیں ہوتا۔ ہم نے ساسی، سماجی، گروہی اور لسانی طبقات میں بٹ کر کیا پایا کبھی کسی نے اس بات پر دھیان دیا ہے۔
ہم نے ان سبھی جھمیلوں میں پڑ کر اپنا اور دوسروں کو خوب نقصان کیا ہے جس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ ہمیں امتحان کی اس گھڑی میں مل بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ ان ناگفتہ بہہ حالات سے کیسے نکلا جائے، یہ وقت چناؤ اور سیاست کا نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے اپنے ان بھائی بہنوں کو بچائیں جو اس وقت ہماری امداد اور خلوص کے منتظر ہیں۔
اس لمحے ہمیں اقوام متحدہ سے امداد اور ریسکیو ورک کی اپیل کرنی چاہیے اور اپنے مصیبت میں گرے پاکستانیوں کی بلاتفریق مدد کرنی چاہیے۔ اس کے فوراً بعد بیٹھ کر تمام سیاسی جماعتوں کو اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک اجتماعی سطح کی حکومت بنا کر ایمانداری سے اس کو پانچ سے دس سال تک چلانے کی کوشش کرنی چاہیے جس کے کرنے کے چیدہ چیدہ کام ملک کو معاشی دیوالیہ پن سے نکالنا ہو، ان سیلابوں سے تباہ حال انفراسٹرکچر کی بحالی اور متائثرین کو نارمل زندگی کی جانب لانا ہو۔ اس کے علاوہ مستقبل کے لئے ایسی قانون سازی کرنا ہو جس کی وجہ سے جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کا رستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے، جس میں انتخابی اصلاحات اتنے اعلیٰ پایہ کی ہوں کہ جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں سے موروثیت ختم ہو جائے، کم از کم ایک نمائندہ صرف ایک ہی سیٹ سے انتخاب لڑنے کا پابند ہو، خواتین اور اقلیتوں کی نشستین ختم کر کے ان کو یا تو پارٹی ٹکٹ یا پھر آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے کا حق حاصل ہو۔
اس طرح کی اصلاحات کے بعد ملک کی معاشی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اپنے وسائل سے اپنے مسائل حل کرنے کا ایک جامع منصوبہ تیار کیا جائے، اپنے ذخائر سے استفادہ کرنے کے لئے بیرون ملک سے ایسے قابل اساتذہ کرام لانے کا بندوبست کیا جائے جو پاکستان کی مٹی میں موجود ذخائر کی کھوج کا علم یہاں کے طلباء کو منتقل کر کے انھیں اپنے ذخائر سے استفادے کا گر سکھا دیں اور ملک اپنے پیرووں پر کھڑا ہونے جوگہ ہو جائے۔
ہمیں اگر دوسری اقوام کو پیچھے چھوڑنا ہے تو یہ ریاکاری، نمود و نمائش، بے جا اصراف، کام چوری، جھوٹ، غلط بیانی اور اس طرح کی ساری عادات کو ترک کرنا پڑے گا۔
آج ہمارے پاس سڑکیں نہیں ہیں لیکن اللہ کی شان کہ گاڑیوں کا ایک بے کراں سمندر ہے جو صبح صادق ہی سے بہتا چلا جاتا ہے بہتا چلا جاتا ہے اور رات گئے تک تھمنے کا نام تک نہیں لیتا۔ اسی طرح بے ہنگم سی آبادی کا پھیلاؤ اور اربنائزیشن نے بھی مسائل کھڑے کر دیئے ہیں اس پر بھی کوئی روک ٹوک ہو اور باقعدہ منصوبہ بندی کے تحت آبادی کو لے کر آگے بڑھا جائے تو کوئی بات بنے۔
آج کا سب سے بڑا مسئلہ ایک یہ بھی ہے کہ ہماری درسگاہوں سے پڑھے لکھے اپاہج فارغ ہو رہے ہیں جن کا استقبال صرف اور صرف بے روزگاری ہی کر رہی ہے، کچھ ایسی پلاننگ ہو کہ پاکستان کے جوان جو پینسٹھ فیصد ہیں کل آبادی کے ان کو روز گار مہیا کیا جائے ان کو دیگر خرافات کی جگہ زراعت، مائننگ، ریسرچ اور جدید ٹیکنالوجیز کی جانب راغب کر کے ملکی وسائل سے حصول کی کوئی امید تو جاگے۔ ہم کیا زندگی بھر دوسرے ممالک کے لالچیوں کو اپنے ملک کے ذخائر لوٹنے کی پیشکش کرتے رہیں گے اور وہ اونے پونے داموں ہمارے ذخایر لوٹ کر چلتے بنیں گے؟
ہم اگر آج کے دن بھی ان تمام باتوں پر سوچ کر لمبی تھان کر سونے کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے مزید قہر اور بربادی کے لئے تیار رہیں کیونکہ اس نے بھی ہمارا مفت کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا کہ ہم چاہے جو بھی کریں اور صرف استغفار پڑھ کر جاں خلاصی کے پینترے آزماتے پھریں۔ یہ بات اٹل ہے کہ اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہمت مرداں مدد خدا، وہ بھی بغیر تدبیر کے کسی کسی پر خاص کرم کرتا ہے ورنہ اکثر کی تقدیر بلا تدبیر نہیں بدلتا۔