لائف سٹائلکالم

مکافات عمل: اپنے اعمال پر نظرثانی کر لو!

محمد سہیل مونس

میں دکھ کی اس اندوہناک گھڑی میں قارئین کی دل آزاری تو نہیں کرنا چاہوں گا اور نہ ان کی بددعائیں لینا چاہوں گا کیونکہ جہاں ایک طرف آدھے سے زیادہ پاکستان سیلاب کی نذر ہو گیا وہاں پورے ملک کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔ ان پے در پے آفات کی وجہ اگر معلوم کرنا چاہو تو اپنے اعمال پر نظرثانی کر لو، ایک کمزور سے کمزور شخص بھی اس معاشرے کا سب سے بڑا چور، ڈاکو اور بدعنوان نکلے گا۔

اس معاشرے کا ہر فرد اس تاک میں بیٹھا ہوتا ہے کہ کہیں سے کوئی چانس ملے کہ جاگتی ماں سے ہی اس کا لخت جگر اچک لے۔ ترس، رحم، برداشت، صبر اور بردباری کے ساتھ ساتھ خلوص سب کے دلوں سے ایسے غائب ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ!

ہم اگر اپنے معاشرے کے اعلیٰ طبقات کی بات کریں تو ان کا لائف اسٹائل پاکستان کے نچلے دو طبقات سے بالکل فرق ہے نہ تو وہ کوئی پاکستانی مخلوق معلوم ہوتے ہیں اور نہ ان کا سروکار کسی عام پاکستانی کی زندگی، اس کے مسائل اور برے بھلے سے ہے۔ ان لوگوں کی تعلیم اعلیٰ اداروں میں مکمل ہوتی ہے اور بیرونی ممالک سے ڈگریاں لے کر یا تو وہییں پر رک جاتے ہیں اور یا پھر وطن واپس پہنچ کر کسی اعلیٰ مسند پر بٹھا دیئے جاتے ہیں یا پھر کسی این جی او کی باگ ڈور سنبھال کر دکھی انسانیت کے نام پر عیاشی کرتے ہیں۔ ان میں بیشتر کے بڑے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں جو اپنی اولادوں کے لئے ملک میں اور ملک سے باہر جائیدادیں اور زندگی کی ہر خوشی کا سامان کر چکے ہوتے ہیں۔ ان میں سے نوے فیصد وہ بدعنوان ہوتے ہیں جنھوں نے نچلے دو طبقات کا خون نچھوڑ نچھوڑ کر پیا ہوتا ہے، ان لوگوں میں اعلیٰ افسر شاہی کے لوگ، فوج، عدلیہ کے بدعنوان منصف، نام نہاد سیاستدان، تاجر اور ہر پیشہ سے وابستہ لوگ شامل ہوتے ہیں جن کے پاس ذرہ برابر اختیار بھی ہو تو معاشرے کی شامت آ جاتی ہے۔

ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں جبکہ مسلمانوں کا شائبہ تک ہم میں موجود نہیں، ہمارے معاشرے کے نچلے طبقے کے افراد لے لیں ان کے کرتوت بھی شیطان کو سوچنے پر مجبور کر دیں جیسا کہ دودھ میں پانی، مصالحہ میں اینٹ، چائے کی پتی میں چنے کا چھلکا ملانا، سودا سلف کا کم تولنا، کھچ ناپ میں ڈنڈی مارنا، ایک مرلہ زمین پر بھائی کا سر تن سے جدا کرنا، بہن کو والد کے ترکہ میں سے حصہ نہ دینا، نمود و نمائش کرنا، بدعات کی پرچار کرنا، توہمات میں گرے رہنا اور بات بات پر قسمیں کھانا۔ ہم اس سے بھی زیادہ گند میں مبتلاء قوم ہیں۔ ہمارے سرحدی علاقوں کے رہنے والے ساری عمر سرحد پار سے سمگلنگ میں گزار لیتے ہیں جبکہ روزہ، نماز، حج اور زکوة کسی چیز کو بھی جانے نہیں دیتے، ہم نے ساری عمر دوسروں کے سروں پہ جنگ مسلط کر کے ڈالرز کمائے اور ہماری ان ہستیوں کے لئے بھی خانہ کعبہ کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔

ہمارے سایاستدانوں نے پچھلے 75 برس ملک کا ستیاناس کئے رکھا اور آج چند حلقوں میں ان کے پوسٹرز لگے ہیں جہاں ملک ڈوبنے کو ہے ان کو ضمنی انتخاب کی پڑی ہوئی ہے، ہمارے مقتدر ادارے سیاستدانوں کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل کھیل رہے ہیں، ہمارے ڈزاسٹر منیجمنٹ کے ادارے خواب خرگوش میں دھت پڑے ہیں۔ یہ سیلاب، کرونا، اومی کرون اور معاشی بدحالی نہیں مکافات عمل ہے، اللہ تعالیٰ خود اپنی مبارک کتاب میں کہتا ہے کہ لڑو ان سے جو انصاف نہیں کرتے جو حق کو جھٹلاتے ہیں اور زمین میں فساد کرتے ہیں۔

ہم اگر ایک چیز کو اٹھا کر دیکھ لیں کہ ہمارے ملک کا سارا نظام سودی ہے مگر فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کے خلاف ملک بینکس اور حکومت تک ملک کی اعلیٰ عدالت پہنچ جاتی ہے، کیا حضرت ابو بکر کا یہ حکم کسی کو یاد نہیں کہ جو بھی زکوة دینے سے انکار کرے اس کے خلاف جنگ کے لئے اٹھو، ہمارے ہاں اسلام کہاں ہے؟ وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور ہم آج کئی فرقوں اور مسلکوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

اس وقت ساری قوم کو چاہیے کہ صدق دل سے استغفار کر لے، جس نے جس کے ساتھ بھی زیادتی کی ہے وہ درگزر فرما دے، اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیں، اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کی جانب آئیں، زندگی میں دنیا کے حصول کے لئے مسلسل دوڑ سے فوراً نکل آئیں کیونکہ زمین گول ہے اور آپ جتنا بھی دوڑ لیں تو آنا اسی مقام پر ہے جہاں سے سٹارٹ لیا تھا۔

عوام ایک کام مزید کر لیں کہ جونہی یہ آفات ٹل جائیں تو اس بوسیدہ نظام سے جان چھڑانے کے لئے ڈٹ جائیں کیونکہ آپ نے ماضی قریب میں دیکھ لیا کہ نہ تو بالا کوٹ والے زلزلے میں ملکی اداروں نے کوئی سنجیدگی دکھائی اور نہ وہ اس طرح کے حالات و واقعات کے لئے تیار تھے اور نہ اس کے بعد کے واقعات کے لئے تیار نظر آئے۔

ہم ملکی اداروں میں بیٹھی افسر شاہی کے ماتحت نہیں یہ لوگ عوام کے نوکر ہیں اور عوام نے آج کے بعد ان کو اسی طرح سے ٹریٹ کرنا ہو گا۔ ان کی گاڑیوں میں جلنے والے تیل سے لے کر ان کے کروفر اور عیاشیوں تک پر عوام کے ٹیکسز کا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔

اگر ان لوگوں کی بروقت منصوبہ بندی ہوتی اور ملک کے انفراسٹرکچر پر دھیان دیا جاتا تو آج بلوچستان، سندھ، جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے علاقوں کا یہ حال ہوتا۔ ہم نے تمام عمر ملی نغموں کے سحر میں گم ہو کر اپنا نقصان کیا ہے یہ وقت اب زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے ہر ادارے اور صاحب اقتدار سے جواب طلبی کا وقت ہے، اللہ تعالیٰ ہماری حالت پر رحم کرے اور سیلاب سے متاثرہ افراد کے لئے آسانیاں پیدا کرے اور پاکستان کو تمام آفات سے محفوظ رکھے۔ آمین!

monis
محمد مونس سہیل بنیادی طور پر ایک شاعر و ادیب ہیں، ڈرامہ و افسانہ نگاری کے علاوہ گزشتہ پچیس سال سے مختلف اخبارات میں سیاسی و سماجی مسائل پر کالم بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button