کوئٹہ: کرخسا ڈیم کا بند بھی ٹوٹ گیا
حمیرا علیم
اس وقت ملک بالعموم جبکہ بلوچستان باالخصوص مون سون بارشوں، اور اس باعث پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال کی زد میں ہے۔ اس وقت جبکہ یہ سطور رقم کی جا رہی ہیں کوئٹہ میں کرخصا ڈیم کا بند ٹوٹ گیا ہے اور مغربی بائی پاس پر واقع قادر آباد، امین آباد، ہزارہ ٹاؤن، اے ون سٹی اور دیگر علاقے سیلاب کی لپیٹ میں ہیں۔
جب سے مون سون کی بارشیں شروع ہوئی ہیں شاید یہ پہلی بار ہے کہ کوئٹہ میں بھی کھل کر ساون برس رہا ہے۔ جہاں کچھ لوگوں کے لیے یہ باعث رحمت ہے وہاں اکثریت کے لیے باران رحمت عذاب بن چکی ہے۔
بلوچستان کے پی ڈی ایم کے ڈائریکٹر جنرل نصیر احمد کے مطابق 34 اضلاع میں سے 27 اضلاع اور 19762 گھرانے سیلاب سے متاثر ہیں، 200 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایک لاکھ سات ہزار سات سو سینتیس مویشی سیلاب کی نذر ہو چکے ہیں۔ پانچ لاکھ ایکڑ اراضی پہ فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ 670 کلومیٹر سڑکیں بھی بہہ گئی ہیں۔ سب سے زیادہ بڑی صورتحال کوہلو، ڈیرہ بگٹی، بارکھان، موسی خیل اور قلعہ سیف اللہ میں ہے۔
قلات میں تو زمین میں کئی میٹر لمبا اور گہرا شگاف پڑ چکا ہے۔ بلوچستان کو دوسرے صوبوں سے ملانے والی سڑکیں بہہ چکی ہیں اور پل گر چکے ہیں جس کی وجہ سے آمدورفت معطل ہو چکی ہے۔ حتی کہ ٹرینز بھی سکھر تک ہی چل رہی ہیں۔ کچھ لوگ جو بحالت مجبوری سفر پہ نکلے بھی تو ان کی گاڑیاں سیلابی ریلے میں بہہ گئیں۔ اوڑکی کے رہائشی خیر محمد بلوچ دو دن تک سیلاب میں پھنسے رہے مگر مدد نہ پہنچی۔
سوشل میڈیا پہ چلنے والی ویڈیوز کے مطابق خضدار، لسبیلہ، جھل مگسی کے آس پاس کے علاقوں میں بھی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ٹرکس اور محفوظ مقامات پہ ٹینٹ لگا کر سر چھپائے مدد کے منتظر بیٹھے ہیں۔ کچھ علاقے جو بالکل زیرآب ہیں وہاں تو لوگ درختوں کی شاخوں پہ چڑھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ آرمی کے ہیلی کاپٹر ریسکیو آپریشن کر رہے ہیں مگر مسلسل بارشوں کی وجہ سے جس پیمانے پر کام ہونا چاہیے ہو نہیں پا رہا۔
کوسٹل ہائی وے، رتو ڈیرو سی پیک سڑک بھی محفوظ نہیں۔ کراچی اور دیگر علاقوں سے آنے والے مسافر اوتھل، خضدار اور ہنگول میں پھنسے ہوئے ہیں، ان کے پاس کھانے پینے کی اشیاء بھی نہیں ہیں۔ نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق خوراک، رہائشی خیمے اور دیگر ضروری سامان فراہم کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں 14 جون سے شروع ہونے والی بارشوں کے سبب سڑکوں اور پلوں کے ساتھ ساتھ چار ہزار سے زائد گھروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں آرمی کے میڈیکل کیمپس میں عالمی ادارہ صحت نے انسداد ہیضہ کی ویکسینیشن شروع کر دی ہے کیونکہ اب تک ہیضے کی وجہ سے 28 اموات ہو چکی ہیں۔
کوئٹہ شہر میں حالات پھر بھی بہتر ہیں مگر مسلسل بارشوں کی وجہ سے نشیبی علاقوں میں پانی کسی دریا کی طرح جمع ہو چکا ہے۔ کچے مکانات گرنے کی وجہ سے مالی و جانی نقصان ہو چکا ہے۔ لوگ آفسز اور اسکول کالجز بھی نہیں جا پا رہے۔ گٹر ابلنے کی وجہ سے گندا پانی گھروں میں داخل ہو جاتا ہے اور کئی بیماریوں کا باعث بن رہا ہے۔ وادی ہونے کی وجہ سے عام حالات میں بھی ہلکی سی بارش کے بعد سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کر رہی ہوتیں ہیں۔ اتنے دنوں سے ہونے والی مسلسل بارشوں نے تو شہر میں سب سڑکوں کو دریا بنا دیا ہے۔ لوگوں کی گاڑیاں اور بائیکس پانی میں بند ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے ٹریفک جام ہو جاتی ہے۔
مگر کراچی اور اسلام آباد میں تو پوش ایریاز بھی سیلابی ریلے اور اس کی تباہ کاریوں سے بچ نہیں پائے۔ اسلام آباد کے پلانڈ سیکٹرز میں تو نکاسی آب کا مکمل انتظام ہے مگر نئے بننے والے کچھ سیکٹرز اور راولپنڈی کے بیشتر علاقوں میں سیلابی پانی کسی بپھرے دریا کی طرح اپنے رستے میں آنے والی ہر چیز کو بہا لے جاتا ہے۔
ملیر، لیاری، کورنگی وغیرہ میں تو پانی گھروں میں ایسے داخل ہو چکا ہے کہ چھتیں بھی ڈوبی ہوئی ہیں۔ لیکن باتھ آئی لینڈ اور کلفٹن کے علاقے بھی محفوظ نہیں رہے۔ میرے خاندان کے کچھ افراد وہاں مقیم ہیں جن کے مطابق پانی نہ صرف گھروں میں آ چکا ہے بلکہ اس کی وجہ سے بجلی، پینے کے پانی اور گیس کی سپلائی بھی متاثر ہوئی ہے۔ سڑکیں بہہ چکی ہیں اور کئی قسم کے جلدی امراض پھیل چکے ہیں۔
لاہور کے حالات بھی باقی سارے ملک سے مختلف نہیں ہیں۔ اندرون لاہور کی تنگ گلیاں تو رہیں ایک طرف ماڈل ٹاؤن جیسے علاقے بھی وینس کا منظر پیش کر رہے ہیں۔
گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پوری دنیا کو جنگلوں میں آگ لگنے اور سیلاب جیسی آفات کا سامنا ہے۔ امریکہ، جرمنی اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی سیلابی صورتحال ہے مگر فرق صرف یہ ہے کہ ان ممالک میں سیلاب کی آمد سے پہلے ہی اس سے نمٹنے کے انتظامات کر لیے جاتے ہیں اور عوام کو محفوظ مقامات پہ پہنچا دیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں ہر سال سیلاب آنے سے 80 فیصد علاقہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ بڑے پیمانے پہ جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔مگر متعلقہ محکموں اور ارباب اختیار کو رتی برابر پرواہ بھی نہیں ہوتی۔
عالمی امداد میں ملنے والے پیسے، خیمے، کمبل، کپڑے اور اشیائے خوردونوش بھی متاثرین تک نہیں پہنچ پاتیں۔ بلکہ وزراء اور متعلقہ اداروں کے عملے میں ہی تقسیم ہو جاتی ہیں۔ کچھ سال پہلے آنے والے زلزلے کے بعد بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ بلوچستان کی ایک نہایت ایماندار اور نیک خاتون وزیر نے بھی اپنے گھر کے کئی کمرے اس امدادی سامان سے بھر لیے تھے۔ ایک انجینئر صاحب امدادی سامان میں ملنے والے خیمے، کمبل اور گیزرز کی تعریف میں رطب اللسان تھے اور باتوں باتوں میں انکشاف فرما گئے کہ ان سب چیزوں سے این جی اوز کے علاوہ ان کے اور دیگر محکموں کے عملے کے افراد بھی خوب مستفید ہو رہے ہیں۔ متاثرہ لوگ تو بیچارے اپنی مدد آپ کے تحت ہر سال گھر بار سمیت ہر چیز سے ہاتھ دھو کر دوبارہ سے زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔
حکومت نے اس بار بھی فی کس 25000 کی امدادی رقم کا اعلان کر کے تیر مار لیا اور اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔ مگر ماضی کے ریکارڈ کو برقرار رکھتے ہوئے اول تو یہ رقم صرف کاغذوں تک ہی جاری کی جائے گی۔ اور اگر یہ رقم جاری ہو بھی گئی تو متاثرین کو ملے گی نہیں اور وزراء، آفیسرز میں ہی تقسیم ہو جائے گی۔
زلزلے، سیلاب، وبائیں اور آفات ہمارے انہی اعمال کے نتیجے میں آنے والے عذاب ہیں۔ جس دن ہم سب اپنا احتساب کر کے اپنے آپ کو سدھار لیں گے ان سے نجات پا جائیں گے۔