محمد سہیل مونس
خیبر میڈیکل کالج کی بنیاد سن 1954 کو پڑی جو بعد میں سن 2007 میں یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر گیا جس کا الحاق وقت کے نامی گرامی اداروں کے ساتھ کیا گیا جن میں پاکستان میڈیکل کمیشن پاکستان، میڈیکل اینڈ ڈنٹل کونسل آف پاکستان، میڈیکل ریسرچ کونسل، کالج آف فیزیشنز اینڈ سرجنز آف پاکستان، پاکستان نرسنگ کونسل اور ہائر ایجوکیشن کمیشن شامل ہیں۔ یہ ادارہ ہزاروں ڈاکٹرز طب کے شعبے کو فراہم کرچکا ہے۔
ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ یہ ادارہ صوبے کا واحد ادارہ تھا جس کے فارغ التحصیل گریجویٹس دکھی انسانیت کی خدمت میں پیش پیش رہتے۔ ان میں سے سینکڑوں ڈاکٹرز اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے بیرون ملک بھی جاتے اور وہاں تحقیق کے شعبہ میں نمایاں کام کر کے واپس اپنے ملک لوٹتے اور قوم کی خدمت میں اپنی زندگی لگا دیتے۔ آج دور بدل گیا ہے انسانی سوچ اور اقدار یکسر بدل گئی ہیں۔ آج کا ڈاکٹر وہ ڈاکٹر نہ رہا جسے دکھی انسانیت مسیحا کے روپ میں دیکھتی اور نہ خیبر میڈیکل یونیورسٹی کا وہ معیار رہا جس کے چرچے زبان زد عام تھے۔
اس بات کا اندازہ بخوبی اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج کے ڈاکٹر کے لئے مریض محض ایک مریض نہیں بلکہ علی بابا کی کہانی والا غار بن چکا ہے، جیسا چاہے اسے لوٹ سکتا ہے اب ان حالات تک بات پہنچی کیوں تو یہ اصل سوال ہے۔
جب خیبر میڈیکل یونیورسٹی اپنا معیار خود اتنا گرا دے کہ ہر ایرا غیرا اس سے فارغ التحصیل ہونا شروع کر دے تو اسی قسم کے قصائی ہی معاشرے کو ملیں گے۔
ہم اگر دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے الحاق شدہ اداروں کی تعداد تقریباً ڈھائی سو سے ذیادہ ہے جن میں 17 کے قریب ایم بی بی ایس کالجز، 10 بی ڈی ایس، دو اپتھمالوجی، 59 بی ایس پیرا میڈکس کورس کرانے والے، 92 بی ایس (چار سالہ) کورس کرانے والے، 20 ڈاکٹرز آف فزیکل تھراپی کرانے والے ادارے، 45 بی ایس نرسنگ پوسٹ آر این (دو سالہ کورس)، دو ایم فل، دو بی ایچ ایم ایس (پانچ سالہ کورس)، ایک ادارہ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں ایڈوانس فیلوشپ ان گلوکوما اور ایڈوانس فیلوشپ ان پیڈی یارٹک یورولوجی شامل ہے۔ یہ تعداد تادم تحریر تھی ان چند دنوں میں اگر کسی نئے ادارے کا الحاق ہوا ہو تو معافی کا خواست گار ہوں۔
اب معلوم نہیں کہ صوبائی صحت انتظامیہ، ہائر اتھارٹیز اور خود خیبر میڈیکل یونیورسٹی کی انتظامیہ اس بات پہ دانستہ طور پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں یا پھر ان کی غفلت ہے کہ صحت جیسے شعبے سے وابستہ ادارے کو ایک مذاق سمجھ کر جانے دو کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ اس طرز عمل سے واضح یہ ہو رہا ہے کہ اتنے سارے اداروں کا منسلک کرنا اداروں کی کارکردگی نہیں بلکہ ان سے کی جانے والی کمائی کو ترجیح دینا اصل مقصد ہے۔
اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ صوبے کی وہ جامعات جو بزنس اور منیجمنٹ پڑھانے کا بیڑا اٹھائے ہوئی تھیں آج کل انہی کی پیرا میڈکس، نرسنگ اور ڈی پی ٹی کورسز بچوں کو پڑھا کر ان سے مزید پیسہ بٹور رہی ہیں اور تھوک کے حساب سے ڈگریاں تقسیم کی جا رہی ہیں۔
اس کے علاوہ طلباء کے داخلہ کے لئے کیٹ کے نام سے ایک ٹیسٹ بھی ایٹا کے توسط سے لیا جا رہا ہے جس کے تحت لاکھوں روپے ان نام نہاد ٹیسٹوں کی مد میں بھی اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ اس پر ظلم یہ کہ اسی جامعہ سے منسلک کئی ادارے ایسے بھی ہیں جو نالائق ترین لیکن دھن دولت والے خاندانوں کے چشم و چراغوں کو سیلف فنانس کے تحت کھپانے میں مصروف ہیں۔
اب ذرا قارئین کرام غور فرمائیں کہ اس طرح کے حکیم لقمان پیسہ اور نقل کے بل بوتے پر کامیابیاں سمیٹ کر عام عوام کی زندگیوں سے نہیں کھیلیں گے تو پھر کیا کریں گے۔
اس کے علاوہ ایک انکشاف یہ بھی ہوا ہے کہ کے ایم یو کے اپنے اساتذہ کرام جو امتحانات اور دیگر حساس کاموں سے وابستہ ہوتے ہیں دوسرے اداروں میں بحیثیت وزٹنگ ٹیچر کے لیکچرز دینے جاتے ہیں اور وہاں پر اچھی خاصی رقم بٹورنے کے ساتھ ساتھ ان اداروں کے چہیتے طلباء کو ہنٹس بھی دے آتے ہیں۔
اب ذرا ان تمام باتوں پر غور کرنے کے بعد اندازہ لگائیں کہ اس مثالی ادارے کی ساکھ کو دھن دولت اکٹھا کرنے کی وجہ سے کتنا بے وقعت کر کے رکھ دیا گیا ہے۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک یونیورسٹی ڈھائی سو اداروں کو ایک ساتھ منیج کر سکتی ہے، ان کے انتقال علم کا معیار کیا ہے اور کبھی ان کے کرتا دھرتا یہ نہیں سوچتے کہ وہ کون سے بقراط و سقراط پیدا کر رہے ہیں۔
ان تمام باتوں پر حکومت اور اعلیٰ اداروں نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اور چلتا ہے دنیا ہے کا راگ الاپ کر ملک کا بیڑا غرق کر رہے ہیں۔
ایک عجیب سا کھیل ہے کوئی پیسہ اکٹھا کر کے کسی بھی نام سے کوئی سا ادارہ کھول رہا اور پیسہ بنا رہا، کوئی افیلئیشن دے کر مال کما رہا ہے اور کوئی ان اداروں سے فارغ ہو کر صحت کی ایسی کی تیسی کر رہا ہے، آخر میں مریض کو دعاؤں پہ اکتفاء کرنے کی نصیحت کر کے اپنے فرائض سے سبکدوش ہوا جاتا ہے۔
ایک طرف اگر صوبائی حکومت کی نااہلی اڑے آ رہی ہے تو دوسری جانب انہی اداروں کی غفلت کا نتیجہ ہے کہ نالائق ڈاکٹرز اور اسی طرح کے سٹاف کی وجہ سے صوبے کے 58 شفاء خانوں کو نجی تحویل میں دینے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے جن میں بیٹھے یہ عطائی عوام پر پریکٹس کر کر کے ہاتھ صاف کر لیتے ہیں اور کل کو کئی ایک مریض پھڑکانے کے بعد بڑے بڑے نام بن جاتے ہیں جو عوام کی چمڑی اور فارمہ سیوٹیکلز والوں کی رشوتیں کھا کھا کر مزے میں جیتے ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ خیبر میڈیکل یونیورسٹی اپنا قبلہ درست کر لے کیونکہ یہ معاملہ ہے صحت کا ہے جس سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔