سیاستکالم

فارن فنڈنگ اور پاکستان کی سیاسی جماعتیں

محمد سہیل مونس

عمران خان صاحب وہ پیاز ہیں جس کی تہہ در تہہ اتارنے والوں کے ہاتھوں ماسوائے آنسوؤں کے کچھ بھی نہیں آنے والا جس کا نتیجہ وردی والے دیکھ چکے ہیں۔ ان کے فارن فنڈنگ کا پول تو کھل جائے گا لیکن دیگر سیاسی جماعتیں بھی یاد رکھیں کہ یہ جو آج تک الیکشن کمیشن میںیہ جعلی اثاثہ جات کی فہرستیں جمع کرتے آئے ہیں یہ سب بھی پھنسیں گے۔

ہم اگر دیکھیں تو پی ٹی آئی پہ الزام ہے کہ ان کو دشمن ممالک نے فنڈنگ کی ہے تو ایک زمانے سے دوسری جماعتوں کو کون فنڈ کرتا چلا آیا ہے، اس وقت لگ کچھ یہ رہا ہے کہ قدرت ان سب کا پول کھولنا چاہتی ہے۔ اب اگر یہ قصہ اعلیٰ عدلیہ چلا جاتا ہے اور پی ٹی آئی اپنا کیس لڑنے آستینیں چڑھا لیتی ہے تو سیاست کے حمام میں باپردہ کوئی بھی نہیں رہے گا حتی کہ جماعت اسلامی بھی در لی جائے گی جو آج اپنے بندوں پہ بڑا ناز کرتی ہے کہ ہمارے بیچ کوئی بھی بے ایمان اور جھوٹا نہیں۔ اس کیس کا کھلنا اور پھر سالہاسال کا حساب کتاب جماعت کو فساد افغانستان کے دور کا اگر حساب دینا پڑے گا تو اسی طرح سرد جنگ سے گرم جنگ کے دور تک اے این پی، پی پی پی، مسلم لیگز اور ایم کیو ایم کے علاوہ ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت کے ساتھ ساتھ دفاعی بجٹ کی بھی جانچ پڑتال ہونا لازمی ہو جائے گا۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عمران خان صاحب وہ واحد ہستی ہوں گے جن کو چھیڑنے اور چھوڑنے دونوں صورتوں میں سب کی شامت آنے والی ہے خصوصاً اس اشرافیہ کی جو بڑے باوقار انداز میں ملک لوٹ کر نزلہ دوسروں پر گرا کر اگلی باری کھیلنے نکل کھڑی ہوتی جن کو ہر بار جنوں اور آسیبوں کی مدد بھی شامل حال رہتی۔

ہم پی ٹی آئی کے موقف کو اگر غیرمتوازن سمجھ کر ان سے نفرت کرنے کی کوشش کرنا چاہیں بھی تو دوسری جماعتیں کون سی دودھ کی دھلی ہیں، پی ٹی آئی کے ہاں تو پیسہ آیا اور انھوں نے جم کر خرچ بھی کر لیا لیکن دوسری جماعتوں پر الزامات اس حد تک ہیں کہ ان کے چپڑاسیوں کے اکاؤنٹس تک سے کروڑوں کے ہیر پھیر کا پتہ چلا، اسی طرح ہم نے بریف کیسز بھر بھر کر لے جانے والی ماڈل کی خبریں بھی سنیں اور ان کو گرفتار کرنے والے فرض شناس افسر کو خالق حقیقی کے پاس بھیجنے کی اڑتی ہوئی خبر بھی سنی۔

ہم نے ایسی سیاسی جماعت بھی ملاحظہ کی جس نے بھتے تک لئے اور امریکی کنٹینروں سے قیمتی سامان و اسلحہ کی چوری کا بھی سنا، ان کو بھتہ نہ دینے والوں کو فیکٹریوں میں شعلوں کی نذر ہوتے بھی دیکھا۔ ہم نے مذہبی گروہوں کو منظم کرنے اور ان کو اندرون ملک و بیرون ملک استعمال ہوتے بھی دیکھا پھر ان گروہوں کو جو فنڈنگ ہوتی رہی اس کی پاداش میں ایف اے ٹی ایف کو بھی دیکھا اور اسی طرح یہی سب کچھ دیکھتے دیکھتے عمر گزر گئی اور تیزی سے گزر رہی ہے۔

ہم بحیثیت پاکستانی ان ڈھکوسلوں کو کب تک برداشت کرتے رہیں گے ہم تو اپنی باری گزار چکے کیا ہم آنے والی نسل کے بارے میں کچھ سنجیدگی سے سوچ سکتے ہیں یا کہ یہ سوچنا بھی ملکہ برطانیہ، امریکہ یا عربوں کا کام ہے۔ ہم نے غیرسیاسی لوگوں کو عزت و توقیر دے کر اپنا ہی نقصان کیا، کوئی ایک بھی جماعت ایسی ہے جس کے پاس کوئی ایسا منشور یا حل دستیاب ہے کہ جس سے ہمارے مسائل کا احاطہ ہو سکے اور ہم ان تمام مسائل کی بیخ کنی کر کے آگے بڑھیں۔ یہ کیا سیاست ہوئی کہ ایک دوسرے پہ اور دوسرا تیسرے پہ الزام دھر کر وقت گزارتا چلا جاتا ہے اور اسی کھیل تماشہ میں عوام کو چونا لگا کر اپنا الو سیدھا کر کے چلا جاتا ہے۔

وہ دن گئے جب ہر غلطی معاف ہو جایا کرتی تھی، دعاؤں میں اثر ہوتا تھا جبکہ لوگ بھی درگزر سے کام لے لیتے تھے، اب بھی وقت ہے پاکستان کی سیاسی فضاء کو صاف کر کے ساری جماعتوں کو مل بیٹھ کر مستقبل واسطے کوئی سا لائحہ عمل وضع کرنا چاہیے کہ جس کے ذریعے ہمارے طریقہ انتخاب میں شفافیت آ جائے۔ ہم اس قابل ہو جائیں کہ ملکی اداروں کو اپنی حدود کے اندر رہنے کی نکیل ڈال سکیں اور پرانی روایات سے ہٹ کر خود کو کچھ کرنے کے قابل بنا سکیں۔

ہم نے کل پرسوں بھی ایک ڈرون حملہ میں ایک القاعدہ کے بڑے کے مارے جانے کی خبر سنی جس کے بارے میں مختلف قسم کی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں جس سے صاف واضح ہو رہا ہے کہ ہم نے پھر سے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور ہمارے آقاؤں کی مرضی میں جو بھی آتا ہے وہ کر گزرتے ہیں۔ جب تک ہم دوسروں کی فنڈنگز سے اپنے شکم بھرتے رہیں گے تب تک بلوچستان بدامنی کا شکار رہے گا، ہمارے ضم شدہ اضلاع کا سکون غارت رہے گا، ہمارے شہر، گوٹھ، کھیت کلیان اور تجارتی مراکز مسلسل ایک ان دیکھے خوف کا شکار رہیں گے۔

ہم کیا سوچتے ہیں کہ کیا ہر عمل کا ردعمل نہیں آتا، آتا ہے اور ضرور آتا ہے اور آپ بہت جلد دیکھ لیں گے کہ اس ڈورن حملہ کی بازگشت سنائی دے گی جس کا آسان ہدف بلوچ یا پختون ہوں گے۔ ہم نے جب تک اپنا وطیرہ نہیں بدلا اور ہم جنگ ہی سے کمانے کو ترجیح دیتے ہیں تو اس سوچ سے گری ہوئی سوچ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی۔ آپ کے مخالف بھی بھیس بدل بدل کر آئیں گے اور کبھی خان صاحب کو چارہ گر کی صورت میں استعمال کریں گے اور کبھی الف ب پ کو اور یہ کہانی ہمارے پیارے ملک کی تباہی اور بے سکونی پر ہی بالآخر ختم ہو گی۔ ہم اگر آج بھی وقت کی نزاکت اور خطے کے بدلتے حالات کو دیکھ کر کوئی بروقت فیصلہ لیتے ہیں تو یہی ہمارے حق میں بہتر ہو گا۔

جہاں تک بات ہے اس فارن فنڈنگ کیس جیسے دیگر کیسز اور ڈھکوسلوں کی تو پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں اور معزز ججز صاحبان اپنے ملک کی گرتی ہوئی معاشی ساکھ اور برے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک کے مفاد میں ایسے فیصلے لیں جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جا سکیں۔

monis
محمد مونس سہیل بنیادی طور پر ایک شاعر و ادیب ہیں، ڈرامہ و افسانہ نگاری کے علاوہ گزشتہ پچیس سال سے مختلف اخبارات میں سیاسی و سماجی مسائل پر کالم بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button