لائف سٹائلکالم

سیلاب، آفتیں اور پاکستانی قوم۔۔!

محمد سہیل مونس

بحیثیت پاکستانی ہماری قوم بڑی اچھی قوم ہے، اپنی مدد آپ کے تحت بڑے بڑے مسائل سے مردانہ وار لڑنے والے، اپنے بہن بھائیوں کی حتی الوسع مدد کرنے والے العرض ہر خوشی اور غم کی گھڑی میں ایک دوسرے کا سہارا بننے والے۔ ہم نے ان کو سن 2005 کے زلزلہ کے دوران دیوانوں کی طرح اپنے ہم وطنوں کی مدد کے لئے بے تاب پایا، ہم نے ہر طوفان بادوباراں اور ہر مشکل گھڑی میں قوم کو یکجا پایا اور ان کی مثالیں نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرون ملک بھی دی گئیں۔ ہمارے پیارے ملک پر جب بھی کوئی گرم سرد وقت پڑا تو قوم نے نہایت دلیری اور خندہ پیشانی سے ان حالات کا مقابلہ کر کے ایک منفرد قوم ہونے کا ثبوت دیا۔

اس سال کے خصوصاً برسات کے مہینے میں جو قہر سیلاب کی صورت میں ہمارے عزیز ہم وطنوں پہ نازل ہوا اور جو جو تباہ کاریاں ہم نے اپنے ٹی وی و موبائل سکرینز پر دیکھیں سچ میں انسان کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے۔ اس سال موسمی تغیر و تبدل کے بارے میں اگر ایک جانب محکمہ موسمیات نے پیشگی اطلاعات دی تھیں تو دوسری جانب مختلف ستارہ شناسوں اور نجومی صاحبان نے بھی اپنے علم کے مطابق اس طرح کے خراب موسم اور حالات کا پیشگی تجزیہ پیش کیا تھا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ نہ تو وفاقی سطح پر اور نہ صوبائی سطح پر اس طرح کے خراب حالات کے بارے میں ملنے والی پیشگی اطلاعات کے بعد بھی کوئی فوری ردعمل سامنے آیا اور نہ بعد میں کسی نے اس جانب کوئی خاطر خواہ توجہ دی۔ اس بار نہ تو سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے بھی کوئی خاص تگ و دو نظر نہیں آئی، سیاسی شعبدہ باز اپنی شعبدہ بازیوں میں ہی مگن رہے اور جنتا ان کے کھیل دیکھ دیکھ کر اپنا قیمتی وقت ضائع کرتی رہی۔

چند ماہ سے وطن عزیز کی سیاسی حالت تو یہ ہو گئی ہے کہ ہر روز کوئی نیا کٹہ کھل جاتا، ایک دوسرے پہ الزام تراشیوں کا سلسلہ چلتا رہا اور ساتھ میں رات گئے تک عدالت عظمیٰ و عالیہ کو ملک کے عظیم تر مفاد میں کھلتے بھی دیکھا اور فیصلے بھی صادر کرتے دیکھا کسی کو اقتدار کی کرسی سے نیچے اور کسی کو اس پر براجمان ہوتے بھی دیکھا۔ اب ان حالات میں عوام کیا خاک اس جذبہ ایمانی کے ساتھ ان سیلاب زدگان کی مدد کرتی جو آج تک کرتی آ رہی ہے، ان کا دھیان بٹنا ایک لازمی امر تھا کیونکہ اگر ایک جانب ان بے ہنگم قسم کے فیصلوں کا اثر ان کی ملکی معیشت و سالمیت پہ ہو رہا تھا تو دوسری جانب اپنے ڈوبتے بھائی بہنوں کا غم بھی دل ہی دل میں کھائے جا رہا تھا۔

اس سے بھی زیادہ فکر والی بات تھی مہنگائی کی جس کے بوجھ تلے ہمارا معاشرہ دب سا گیا ہے۔ کسی کو کسی بھی بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔ اب ان حالات میں جہاں ہر بشر کو اپنی پڑی ہو تو ان کا دھیان دوسروں کی جانب کیا جائے گا۔

پاکستانی قوم تو ہر لحاظ سے دنیا کی ایک منفرد قوم ہے ہی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک قوم اپنے اداروں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہو سکتی ہے ان کی مدد کر سکتی ہے اب یہ تو نہیں کر سکتی کہ ہر مسئلے کے لئے موجود الگ الگ اداروں میں بیٹھے لوگوں کے پیر پڑ کر ان سے کام کرنے کی التجا بھی کرتی پھرے۔

ہم نے اس سال سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران ان تمام اداروں کا اصلی روپ دیکھ لیا جو بنے ہی ڈزاسٹر منیجمنٹ کے لئے ہیں مگر مجال ہے کہ ان کی کوئی متاثر کن کاروائی دیکھنے کو ملی ہو۔ ہمارے صوبے میں صوبائی ڈزاسٹر منیجمنٹ کے اعلیٰ عہدیدار سے لے کر چپڑاسی تک چالیس ہزار روپے سے لے کر دو لاکھ روپے تنخواہیں اور اس کے علاوہ میڈیکل اور دیگر الاؤنسز وصول کرتے ہیں۔ ان صاحبان کی فرض شناسی کا ثبوت ان کی صفر کارکردگی ہے ، ان کے حصے کا کام تو رضاکار تنظیمیں اور خصوصاً جماعت اسلامی کی الخدمت فاؤنڈیشن کر رہی ہے، جن کو اپنے صوبے اور کراچی تک میں سیلاب زدگان کی مدد کے لئے کوشاں پایا۔

ہم نے کسی بھی سیاسی جماعت کے رہنماؤں کے منہ سے ان آفات کے بارے ایک لفظ تک نہیں سنا البتہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق صاحب کو اس بارے بڑی دبنگ تقریر کرتے ہوئے سنا۔ ہم اگر ان سیاسی شعبدہ بازیوں میں الجھے رہے اور ملک معاشی طور پر بیٹھ گیا تو پھر کیا ہو گا؟ کیا ملک کی مقتدر قوتیں، سیاسی جماعتیں اور افسر شاہی اس بات کا جواب دے سکتی ہے کہ ملک کو بچایا کیسے جائے، کیا ملک کی اعلیٰ عدالتیں یہ ٹوپی ڈرامہ ختم کر کے حقائق کی جانب آ سکتی ہیں۔ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو مشکل ترین فیصلے لے کر ملک کو اپنے پیروں پہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے ہم کب تک دوسروں کے دیئے قرض پہ اپنا کام چلاتے رہیں گے، انسانی وقار اور عزت نفس بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔

ہم ایک زمانے سے اپنا آپ برباد کرتے چلے آ رہے ہیںہم نے بحیثیت قوم کسی بھی چیز کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں، ہم ذرا اپنے پیسے کی قدر تو دیکھ لیں، ذرا جنتا کی مہنگائی کے ہاتھوں پتلی ہوتی ہوئی حالت پر ہی نگاہ ڈال لیں۔ ایک سوال ویسے ہی ذہن میں گھوم پھر رہا ہے وہ بھی ایک عرصے سے کہ اگر ایک ملک کے بڑے اور ادارے اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتے تو چوکیدار رکھنے کی ضرورت؟ اگر کوئی ریاست اپنے شہری کو صحت، تعلیم، روزگار اور سر چھپانے واسطے چھت فراہم نہیں کر سکتی تو باقی رہ کیا جاتا ہے۔

پاکستان کے عوام خود اپنی رکھوالی کر رہے ہیں اور جو تحفظ فراہم کرنے والے ہیں اکثر و بیشتر انہی سے خطرہ رہتا ہے، سولر پینلز اور دیگر ذرائع سے بجلی کا حصول ممکن بنا کر، اپنی اولادوں کو اپنی کمائی میں سے پڑھا کر، اپنے علاج معالجہ کا بوجھ خود اٹھا کر اور اپنے لئے روزگار کا بندوبست خود کر کے اور اپنا مکان خود بنا کر ملکی ادارے اور ریاست خصوصی طور پر ان پہ رعب کس بات کا جماتی ہے۔ ان لوگوں پر تو نہ اس ملک کا قانون اصل معنوں میں لاگو ہوتا ہے اور نہ اس ملک کے اداروں میں بیٹھے افراد اور حکومت کو لگان یا خراج دینا ان کا فرض بنتا ہے۔

یہ ساری باتیں تب ممکن ہوتی ہیں جب ریاست اپنے شہریوں کو اپنا سمجھ کر ان کی فلاح و بہبود کا کام کرتی ہے، ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے جگر گوشے لہروں کی نذر ہو رہے ہوتے ہیں بچانے والا کوئی نہیں ہوتا، دریا کے بیراجوں پر تین تین دن تک لاشیں گھوم رہی ہوتی ہیں اور انتظامیہ اس لئے ہاتھ نہیں لگاتی کیونکہ متعلقہ تھانے کی حدود واضح نہیں ہوتیں۔ اس سے زیادہ تضہیک کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک ملک کے اپنے شہریوں سے ایسا سلوک برتا جائے۔

monis
محمد مونس سہیل بنیادی طور پر ایک شاعر و ادیب ہیں، ڈرامہ و افسانہ نگاری کے علاوہ گزشتہ پچیس سال سے مختلف اخبارات میں سیاسی و سماجی مسائل پر کالم بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button