سیاستکالم

تائیوان کا آتش فشاں پھٹنے کے قریب، آگے کیا ہو گا؟

خیرالسلام

اکنامک سپر پاور کی حیثیت سے دنیا کے افق پر ابھرنے والی واحد مملکت چین نے ایک بار پھر امریکہ کو متنبہ کیا ہے کہ وہ تائیوان معاملے پر آگ کے ساتھ کھیلنے سے باز رہے کیونکہ تائیوان چین کا اٹوٹ انگ ہے اور اس کے دفاع کا حق امریکہ اور یورپی ممالک سے بہتر جاننے کی صلاحیت ان کے پاس موجود ہے۔

گزشتہ دنوں چینی صدر نے اپنے امریکی ہم منصب جوبائیڈن کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں ایک مرتبہ پھر واضح کر دیا کہ جغرافیائی لسانی و تہذیبی اور سب سے بڑھ کر علاقائی لحاظ سے تائیوان چین کا حصہ ہے لہذا خطے میں امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی سازش کسی صورت قابل قبول نہیں اور حالات کی سنگینی کی تمام تر ذمہ داری امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک پر عائد ہو گی۔

تائیوان کا آتش فشاں پھٹنے کے قریب ہے اور اس کے اندر ابھلنے والا لاوہ کسی بھی وقت باہر آ سکتا ہے۔ امریکی حکام کو اپنے توسیعی عزائم عزیز جبکہ دوسری جانب چین علاقے میں غیرملکی تسلط اور ان کی بالادستی ماننے کے لئے تیار نہیں۔ مغربی ممالک بالخصوص امریکہ اور برطانیہ چین کی ابھرتی ہوئی اقتصادی قوت سے خائف ہیں اور اسے آزاد دنیا کیلئے مسلسل ایک خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ اور اب لندن سے لے کر واشنگٹن تک تمام یورپی اور مغربی لیڈروں کی نظروں میں بیجنگ کی روبہ ترقی اقتصادی پوزیشن کھٹکنے لگی ہے۔

امریکہ کے پچھلے دونوں صدارتی انتخابات یعنی 2016 اور 2020 کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن انتظامیہ نے چین کی دنیا بھر میں آزادانہ تجارتی پالیسی کو لگام دینے کے لیے باقاعدہ ایک فریم ورک بھی تیار کیا اور عوامی تائید حاصل کرنے کی خاطر اسے باقاعدہ پارٹی منشور میں شامل کر دیا۔ دونوں لیڈروں نے کئی مواقع پر چین پر الزام عائد کیا کہ بیجنگ فری ٹریڈ اکانومی کی آڑ میں دنیا کی طاقتور ترین اقتصادی قوت بننے کی جستجو میں ہے اور یورپی عوام چین کے اس خواب کو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیں گے۔ اس ضمن میں انہوں نے دیگر اینٹی چائنیز لابیز کو بھی ساتھ ملایا۔

برطانیہ کے عام انتخابات کے دوران سیاستدانوں نے چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی قوت بارے کھل کر بات کی اور اسے مستقبل کے لیے ایک خطرہ قرار دے دیا۔ عام تاثر یہی تھا کہ جنرل الیکشن کے بعد یہ سلسلہ تھم جائے گا لیکن حالات مزید ابتر ہونے کی وجہ سے اب ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ مغربی پارلیمنٹ، اکیڈیمک ادارے اور تھنک ٹھینک اگلے دس سالوں تک اس موضوع کو زیر بحث لائیں گے۔

کوویڈ کی وبا نے برطانوی معاشرے بالخصوص ورکنگ کلاس کو بری طرح متاثر کیا۔ برطانیہ میں کام کرنے والی ایک فلاحی ادارے کی جانب سے شائع کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے مالدار ترین ممالک کی فہرست میں شامل برطانیہ کی اقتصادی حالت اب اس ڈگر پر آ گئی ہے کہ ملک میں دو لاکھ 74 ہزار افراد جس میں ایک لاکھ 26 ہزار بچے بھی شامل ہیں، ان کے پاس سر چھپانے کے لیے گھر موجود نہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق برطانیہ میں بیروزگاری کی شرح تین اعشاریہ سات فیصد سے متجاوز ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سال 23 -2022 تک 1.3 ملین برطانوی شہری خطِ غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔

برطانیہ کا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ بھی توجہ طلب ہے۔ صحت عامہ کے شعبے میں ملک بھر میں 110٫192 آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ہسپتالوں میں 39625 نرسز اور 8158 ڈاکٹروں کی شدید قلّت ہے۔ ہاؤسنگ کا شعبہ بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔ رپورٹس کے مطابق سال 2020 میں سوسائٹی نے برطانیہ میں ضرورت سے 1.2 ملین یعنی بارہ لاکھ کم گھر تعمیر کئے اور اب ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے قانون کے مطابق اس کمی کو پورا کرنے کے لئے اگلے پندرہ سال تک انتظار کرنا ہو گا۔

اگر دیکھا جائے تو برطانیہ کا مکمل انفراسٹرکچر زبوں حالی کا شکار ہے اس کے باوجود سیاستدان اصل مسائل پر توجہ دینے کی بجائے اینٹی چائنیز لابی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ دیگر یورپی ممالک اور ان کے لیڈر چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی قوت کو پیٹ کا مروڑ قرار دے رہے ہیں۔ مغربی تجزیہ نگاروں کی نظر میں بیجنگ نے روس کے ساتھ سستے آئل اینڈ گیس کے حصول کی خاطر لانگ ٹرم معاہدے کر کے حالیہ جاری یوکرین ایشو کو بھی اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ روس کے یوکرین پر حملہ آور ہونے سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والا ملک چین ہے۔ جس وقت ایران اور مغربی دنیا آمنے سامنے تھے چین نے ایران کے ساتھ دوستانہ روابط قائم رکھتے ہوئے سستے داموں تیل اور گیس تک آسانی کے ساتھ رسائی حاصل کی۔

مغرب کی سکیورٹی ماہرین کو چین سے یہ گلہ بھی ہے کہ جس وقت امریکہ اور ان کے اتحادی نیٹو ممالک اربوں ڈالر خرچ کر کے افغانستان کو سرنگوں کرنے میں مگن تھے اس وقت بھی چین نے حامد کرزئی حکومت کا اعتماد حاصل کر کے کروڑوں ڈالرز کمائے۔

اگر دیکھا جائے تو مغربی دنیا جس میں امریکا سرفہرست ہے وہ چائنیز فوبیا کا شکار ہے۔ انہیں چین پر الزام دھرنے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکنے کی اشد ضرورت ہے۔ آیا سابق سوویت یونین کا شیرازہ بکھیرنے کی خاطر چین نے اس وقت نیٹو فورسز کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے؟ کیا بیجنگ نے بش انتظامیہ کو ورغلا کر افغانستان اور عراق پر حملہ کر کے امریکی عوام کے پانچ ٹریلین ڈالرز ڈبو دیے؟

بالکل نہیں! بلکہ یہ مغربی دنیا کا خود کیا دھرا ہے۔ گزشتہ 77 سالوں میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے سینکڑوں فوجی تنازعوں میں حصہ لیا جبکہ اس دوران چین عدم مداخلت کی پالیسی کو ساتھ لے کر آگے بڑھتا گیا۔ لاحاصل جنگوں میں کھربوں ڈالرز کو پھونکنے کے برعکس چین نے 600 ملین باشندوں کی اقتصادی سماجی اور معاشرتی اقدار کو مزید بہتر بنانے کے لئے دن رات کام کیا اور آج وہ اقتصادی سپر پاور کے طور پر دنیا پر حکمرانی کرنے کے لیے پر تول رہا ہے۔

خدانخواستہ اگر امریکہ نے تائیوان ایشو پر چین کے ساتھ الجھنے کی کوشش کی تو جیت بیجنگ کی ہو گی۔ کیونکہ جنگیں عوامی تائید اور سپورٹ سے جیتی جاتی ہیں۔ چین کے پیچھے 600 ملین افراد کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو امریکہ اور یورپی ممالک کی افواج کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔

Salam Seb
خیرالسلام چارسدہ سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی ہیں اور پشاورکے ایک موقر اخبار کے ساتھ ایک دہائی سے زائد عرصہ تک بطور سپورٹس ایڈیٹر وابستہ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دینیات اور سیاسیات سے بھی شغف رکھتے اور وقتاً فوقتاً مقامی اخبارات میں اس حوالے سے اظہار خیال کرتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button