تعلیمکالم

نقل کرنے والا تیز، محنت کرنے والا سست کیوں؟

وطن زیب خان

کچھ دن پہلے فیس بک میں ایک تصویر دیکھی جس میں ایک طالب علم پیپر کے بعد پاکٹ گائیڈ کے پرزے ہوا میں لہراتا ہوا جا رہا تھا، یہ منظر دراصل ہمارے نظام تعلیم اور والدین کی تربیت کا مذاق و مستقبل کا ڈراؤنا خواب تھا۔ سڑک پر پڑے پاکٹ گائیڈ کے یہ ٹکڑے ہمارے مستقبل کا رونا رو رہے ہیں کہ جب تعلیم کی توہین کر کے تعلیم سے عاری یہ نوجوان سسٹم کا حصہ بنیں گے تو ہمارے ملک اور معاشرے کا مستقبل کیا ہو گا۔

نقل ایک ناسور ہے جو کہ دن رات محنت کرنے والے طلباء کی حق تلفی کے مترادف ہے۔ کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کا راز تعلیمی نظام ہے، نظام جس قدر پختہ اور بہترین ہو گا قوم بھی اتنی ہی مضبوط اور ترقی یافتہ ہو گی۔ تعلیم کے بغیر آج تک کوئی بھی قوم ترقی نہیں کر سکی اور ہمارا مذہب بھی ہمیں تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ آج ہمارے ملک میں نوجوانوں کی اکثریت اس ملک کے مستقبل سے ناامید، فکرمند اور بیزار نظر آتی ہے۔ نوجوانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں لیکن کیا واقعی وہ اس ذمہ داری کو بھرپور انداز میں پورا کر رہے ہیں۔

طلباء کی اکثریت پورا پورا سال کتابوں کی شکل نہیں دیکھتی جبکہ نوٹس اور پانچ سالہ پیپر پر انحصار کرتی ہے۔ ان کی قابلیت کا اندازہ امتحانات میں اس وقت ہو جاتا ہے جب پیپر کی تیاری کرنے کے بجائے نقل سے پاس ہو جاتے ہیں پھر جب نوکریاں نہیں ملتیں تو نوجوان ملکی نظام کو برا بھلا کہتے ہیں۔ ذرا سوچئے نقل کر کے پاس ہونے اور سفارش کرنے سے اگر نوکری مل بھی جائے تو کیا فائدہ اور کام کیسے کریں گے؟ کچھ دن بعد ویسے بھی قابلیت کا اندازہ ہو جائے گا۔

طالبعلم اس قوم کے معمار ہیں اس لئے انہیں صحیح تعلیم و تربیت دینا والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے۔ ان کی کامیابی محنت اور لگن سے ہونی چاہیے، ان کی ڈگریاں اپنی ہی محنت کا حصول ہوں تو ملک و قوم کی ترقی ہو گی۔

تعلیمی معیار کو جہاں برباد کرنے میں نقل نے اہم کردار ادا کیا ہے وہاں ماڈل پیپر، خلاصہ جات، حل شدہ پرچہ جات اساتذہ کی طرف سے منتخب شدہ سوالات اور ایسے مواد جب طلباء کے ہاتھوں میں آ جاتے ہیں تو نتیجے میں تعلیمی جذبہ ختم ہو جاتا ہے اور ان کا سارا انحصار ان کے منتخب شدہ مواد پر ہوتا ہے۔ پھر ان سوالات کو رٹے کی شکل میں یاد کرتے ہیں اور کچھ مضامین میں نقل سے سہارا لیتے ہیں۔ ان کے اساتذہ کرام بھی اس اقدام کو سراہتے ہیں اور طلباء کی مدد بھی کرتے ہیں۔ امتحانات کے آخری دنوں میں اساتذہ نقل کرنے میں طلباء کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ان سے نقل اور سفارش کے نام پر پیسے بٹورے جاتے ہیں۔

والدین بھی اس کام میں اپنے بچوں کی مدد اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اسی طرح ہر سال صرف نقل کے نام پر اساتذہ طلباء اور والدین سے لاکھوں روپے لیتے ہیں۔ پیسے اس لیے بٹورے جاتے ہیں کہ امتحان کے دوران ڈیوٹی سٹاف کو دیے جائیں گے تاکہ امتحانی ہال میں نقل عام ہو۔

مشاہدے میں آیا ہے کہ نوجوان باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نقل کا انتظام کرتے ہیں۔ امتحان کے دنوں میں اس بات کو کہ "میں نے نقل کے لئے سفارش کی ہے” بڑے فخر سے بیان کیا جاتا ہے اور اس طالب علم کو قابل سمجھا جاتا ہے اور ہر طرف سے اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ پیپر حل کرنے کے بعد ایسے طالب علم کو تیز، بہادر اور قابل تعریف سمجھا جاتا ہے اور جس طالب علم نے اپنی محنت سے پیپر حل کیا ہو، اس کو سست اور نالائق سمجھا جاتا ہے۔  اسی طرح چند نام و نہاد اساتذہ بھی اس مکروہ کام میں ملوث ہو کر علم دشمنی کا ثبوت دیتے ہیں۔

نقل کرنے والوں کی تعداد گنی چنی نہیں بلکہ اس گھناؤنے کام کو منظم طور پر انجام دیا جاتا ہے۔ کسی امتحانی مرکز میں موبائل فون کے ذریعے نقل کر رہے ہوتے ہیں، کمرہ امتحان میں حل شدہ پرچہ جات کو طالب علموں کی رسائی تک ممکن بنائی جاتی ہے۔ امتحان سے ایک رات پہلے طلباء کو اگلے آنے والے دن کا سوالنامہ مل جاتا ہے۔

یہ مسئلہ آج کا نہیں ہے بلکہ کئی سالوں سے چلا آ رہا ہے۔ اسی طرح قابل اور ذہین طلباء کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں اور ان کا رحجان بھی آہستہ آہستہ نقل کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ نقل کرنے سے ملک و ملت کی جڑیں کھوکھلی ہو رہی ہیں، نوجوانوں کی صلاحیتیں زنگ آلود اور ان کے ارادے کمزور ہو رہے ہیں جو کہ قومی ترقی کے لئے کسی زوال سے کم نہیں ہے۔ ہر گلی میں ایسے ہزاروں کوچنگ سنٹرز نظر آئیں گے جہاں لکھا ہوتا ہے کہ بورڈ کے اساتذہ کی زیر نگرانی امتحان کی تیاری کروائی جائے گی اور والدین خوشی خوشی اپنے بچوں کو ایسے سنٹر میں داخلہ دلواتے ہیں تاکہ ان کے بچے اچھے نمبروں سے کامیاب ہو سکیں۔

یہاں پر یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہمارے نوجوان اس سسٹم کا حصہ بنیں گے تو ہمارے ملک و معاشرے کا مستقبل کیا ہو گا۔ مستقبل تو یہی ہو گا کہ اس عمل سے ایسے ڈاکٹر وجود میں آئیں گے جن کے ہاتھوں مریض انتقال کر جائیں گے، ایسے انجینئرز سامنے آئیں گے جن کی بنائی گئیں عمارتیں زمین بوس ہو جائیں گی اور اسی طرح ملک کے تمام تر شعبے پستی میں چلے جائیں گے۔

تعلیم کا خراب معیار قوموں کی بربادی کا باعث بنتا ہے۔ اگر طالبعلموں کو یقین ہو کہ امتحان شفاف ہوں گے تو وہ پڑھنے پر مجبور ہوں گے کیونکہ نہ پڑھنے کی صورت میں وہ ناکام ہو سکتے ہیں۔ نقل سے پاس ہونے والے نوجوان معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں اور ان کے پاس ڈگری تو ہوتی ہے مگر کسی کام کے اہل نہیں ہوتے ہیں۔ اس سے ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل داؤ پر لگ سکتا ہے۔ حالیہ ایف اے، ایف ایس سی کے امتحانات میں نہ جانے کتنے طلباء نقل کر کے اپنے ہاتھوں سے اپنا مستقبل تباہ کریں گے۔

ہمارا ملک جن حالات سے گزر رہا ہے ہمیں تعلیم یافتہ اور قابل نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے کے لیے اپنے تعلیمی اور امتحانی نظام کو مضبوط کرنا ہو گا۔ دنیا میں وہی اقوام کامیاب کہلاتی ہیں جو تعلیمی میدان میں آگے ہوتی ہیں۔

نقل کے اس نظام کو ختم کرنے کے لیے والدین، اساتذہ کرام اور معاشرے کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ والدین کو چاہیے کہ اس ناجائز کام میں بالکل بھی اپنے بچوں کا ساتھ نہ دیں اور روزانہ کی بنیاد پر اپنے بچوں سے پوچھیں کہ آج آپ نے کیا سیکھا ہے یا کیا پڑھا ہے۔

اساتذہ کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں کو خوب محنت اور لگن سے پڑھائیں اور رٹے کی عادت ڈلوانے سے گریز کریں۔ اس ناجائز کام یعنی نقل کے کرنے میں بالکل بھی بچوں کی حوصلہ افزائی نہ کریں بلکہ ان کی حوصلہ شکنی کریں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button