سلگتے جنگلات اور ہماری بے حسی
ارشد علی خان
سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک پر گزشتہ روز ایک دوست کی شیئر کردہ کچھ تصاویر نظر سے گزریں جس نے کلیجہ کاٹ کر رکھ دیا، تصاویر پاکستان میں کسی جنگل میں آگ کی وجہ سے ادھے جلے طوطے کے بچوں (Baby parrot) کی تھیں۔
بلوچستان کے علاقے شیرانی میں کوہ سیلمان کے پہاڑی سلسلے میں چلغوزے کے جنگلات میں لگی آگ سے لے کر سوات اور شانگلہ کے پہاڑوں پر لگی آگ تک حکومتی سطح پر ہماری بے حسی او بے بسی کی ایک پوری داستان ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
ضلع شیرانی میں آگ 18 مئی کو لگی تھی، ڈپٹی کمشنر ضلع شیرانی کے مطابق آگ شرغلی کے علاقے میں پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر لگی جو پانچ سے چھ کلومیٹر کے علاقے میں چلغوزے کے جنگلات میں پھیل گئی۔ خیبر پختونخوا سے متصل بلوچستان کے ضلع شیرانی میں کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں صرف چلغوزے کے جنگلات پائے جاتے ہیں جو 26000 ہیکٹرز پر پھیلے ہوئے اور جہاں تقریباً 700 میٹرک ٹن چلغوزہ پیدا ہوتا ہے۔
حکومتی سطح پر شیرانی کے جنگلات میں آگ لگنے کی خبر کو وہ اہمیت نہ دی گئی جو دینی چاہیے تھی تاہم پی ڈی ایم کے ترجمان حافظ حمد اللہ کے بیان کے بعد وفاقی حکومت نے بھی اس کا نوٹس لے لیا۔ ایک اندازے کے مطابق آگ بجھانے کے عمل میں کم از کم 15 سے 20 ہیلی کاپٹر کو استعمال میں لانا چاہیے تھا تاہم صوبایی حکومت کے پاس وسایل نہ ہونے کے سبب پاک فوج کے ہیلی کاپٹر محدود پیمانے پر آگ بجھانے کا کام کرتے رہے اور ہمیں اپنے جنگلات میں لگی آگ بجھانے کے لیے بھی پڑوسی ملک ایران سے مدد کی اپیل کرنا پڑی۔
حکومتی سطح پر رابطے کے دو سے تین دن کے بعد ایرانی فائر فائٹر جہاز پاکستان پہنچا جس نے شیرانی کے جنگلات میں لگی آگ بجھانے میں مدد فراہم کی ورنہ ہم ابھی تک روایتی طریقوں سے ہی آگ بجھانے کی کوششیں کرتے رہتے اور انہی کوششوں کے دوران تین مقامی لوگ اپنی زندگی گنوا بیٹھے۔
شیرانی میں آگ لگنے کے بعد تو ملک کے مختلف جنگلوں اور پہاڑوں پر آگ لگنے کے واقعات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کہیں کسی نے ٹک ٹاک بنانے کے لیے جنگل میں آگ لگائی تو کہیں سورج سوا نیزے پر آ گیا جس سے آگ لگی۔
ہماری سنجیدگی دیکھیے کہ مارگلہ کے پہاڑوں میں ٹک ٹاک ویڈیو شوٹ کرنے والی ماڈل ڈولی کو ثبوتوں کے ہوتے ہوئے ضمانت پر رہائی مل چکی ہے۔ میرے خیال میں ڈولی جیسے لوگوں کو تو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے تھی تاکہ دوسرے لوگ عبرت پکڑتے مگر کیا کریں اپنے سسٹم کا، ڈولی کے تعلقات بھی کسی منسٹر یا کسی بڑے آدمی سے ہوں گے جو اتنی آسانی سے چھوٹ گئی۔
اگر ہم خیبر پختونخوا کے جنگلوں کی بات کریں تو یہاں بھی سوات، بونیر، شانگلہ، صوابی، خیبر اور باجوڑ سمیت صوبے کے دیگر علاقوں میں پہاڑوں پر آگ لگنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ان سارے واقعات میں اگر کسی ادارے کے اہلکاروں نے پورے دل او اخلاص کے ساتھ وسائل نہ ہونے کے باجود آگ بجھانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے تو وہ ریسکیو ڈبل ون ڈبل ٹو کے اہلکار ہیں۔ چونکہ ہر ایمرجنسی میں ریسکیو کا ادارہ ہی صف اول میں ہوتا ہے تو حکومت کو چاہیے کہ تمام وسائل ریسکیو ڈبل ون ڈبل ٹو کے حوالے کرے۔
نيشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی اور پراونشل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ائیرکنڈیشنڈ آفسز میں بیٹھے ہوئے افسران سے گزارش ہے کہ اگر صوبائی سطح پر ممکن نہیں تو ملکی سطح پر ہی سہی ایک فائر فائٹر طیارہ ادارے کے پاس ہونا چاہیے تاکہ اپنے جنگلات میں لگی آگ بجھانے کے لیے کسی اور کے سامنے دامن پھیلانے کی نوبت نہ آئے۔
ایک کے بعد دوسرے علاقے کے پہاڑوں پر آگ لگنے کے واقعات اتفاقیہ تو نہیں ہو سکتے خصوصاً خیبر پختونخوا کے جنگلات میں لگنے یا لگائی جانے والی آگ کی تحقیقات ہونی چاہئیں، کہیں یہ بلین ٹری سونامی میں کی گئی کرپشن کو چھپانے کی سازش تو نہیں؟
یاد رہے بلین ٹری سونامی میں بھی سب سے زیادہ لاچی یا یوکلپٹس کے درخت لگائے گئے ہیں۔ صوبے میں پانی کی سطح نیچے جانے کی دیگر کئی وجوہات میں سے ایک وجہ لاچی کے درختوں کو کثرت سے لگانا ہے جو دیگر درختوں کی نسبت پانی بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔