لائف سٹائلکالم

ورلڈ فوڈ سیفٹی ڈے: ”دنیا اک نازک موڑ پر ہے”

ڈاکٹر جمشید نظر

ایک دلچسپ حقیقت جان کر آپ کو حیرت ہو گی کہ سن 2020 میں ایک طرف دنیا کے تقریباً 720 سے لے کر 811 ملین افراد غذائی قلت کا شکار تھے تو دوسری طرف تقریباً 900 ملین ٹن سے زیادہ خوراک یعنی کھانے پینے کی اشیاء کو ہر سال ضائع کر دیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزشن نے حال ہی میںفوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کا عنوان ہے ”دنیا ایک نازک موڑ پر ہے۔” رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سن 2020 میں تقریباً 720 سے 811 ملین کے درمیان افراد بھوک کا شکار تھے۔ رپورٹ میں سن 2019 کے اعدادوشمار سے موازنہ کرتے ہوئے واضح کیا گیا کہ سن 2020 میں ایشیاء کے تقریباً 57 ملین افراد، افریقہ کے چھیالیس ملین اور لاطینی امریکہ کے تقریباً چودہ ملین مزید افراد بھوک میں مبتلا ہوئے ہیں۔ اس طرح اسی سال 320 ملین بھوک کے شکار افراد میں اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے ہر تیسرے شخص کو مناسب خوراک دستیاب نہیں۔

ایک اندازے کے مطابق ہر سال تقریباً چار لاکھ بیس ہزار افراد غیرصحت بخش اور آلودہ کھانا کھانے سے ہلاک ہو جاتے ہیں جبکہ پانچ سال تک کی عمر کے ایک لاکھ پچیس ہزار بچے غیرمعیاری خوراک کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں مبتلا ہو کر مر جاتے ہیں۔ صحت بخش خوراک کی حفاظت و ترغیب اور غیرمعیاری خوراک کے خاتمہ اور اس سے پیدا ہونے والے خطرات کو کم کرنے لئے اقوام متحدہ کے زیراہتمام ہر سال 7 جون کو ورلڈ فوڈ سیفٹی ڈے منایا جاتا ہے۔ اس سال اس دن کا تھیم ہے ”محفوظ خوراک، بہتر صحت!” اقوام متحدہ نے اس سال دنیا کے ہر فرد پر زور دیا ہے کہ وہ تازہ خوراک کے ضیاع کو روکنے اور آلودہ خوراک کے خاتمہ میں اپنا کردار ادا کرے۔

عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق باسی خوراک کھانے سے عام بیماری ڈائیریا (اسہال) سے لے کر کینسر جیسے موذی امراض تک تقریباً 200 سے زائد مختلف بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ہر سال صرف اسہال میں 550 ملین افراد مبتلا ہو جاتے ہیں جن میں سے 2 لاکھ 30 ہزار افراد کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں غیرمحفوظ خوراک کے نتیجے میں پیداواری اور طبی اخراجات میں ہر سال 110 بلین امریکی ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔

اگر پاکستان کی بات کی جائے تو ملک میں پیدا ہونے والی خوراک کا 40 فیصد ضائع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے 43 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ اور 18 فیصد آبادی کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔ ہوٹلز ہوں یا ریسٹورنٹس، شادی ہال ہوں یا دیگر تقریبات، کھانا کھانے کے وقت بڑے بڑے اچھوں کی فطرت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ اکثر شادی بیاہ کی تقریبات میں لوگ اپنے معدے کے سائز سے کہیں زیادہ کھانا بڑی بڑی پلیٹوں میں بھر لیتے ہیں اور پھر جب ان کا معدہ فل بھرنے کے بعد جواب دے دیتا ہے تو وہ پلیٹ میں باقی بچا ہوا کھانا ضائع کرنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بھی اکثر ورکروں کے سیاسی کھانوں پر دھاوا بولنے کے حوالے سے فنی ویڈیو کلپس وائرل ہوتے رہتے ہیں، ویڈیو کلپس میں ورکر اس طرح کھانوں پر ٹوٹتے ہیں کہ صرف چند ورکروں کے ہاتھ کھانا لگتا ہے جبکہ دھکم پیل میں باقی سارا کھانا زمین پر گر کر ضائع ہو جاتا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو ایک طرف لوگ تازہ کھانے ضائع کر کے بھوکے افراد سے جینے کا حق چھین رہے ہیں تو دوسری جانب آلودہ اور باسی کھانے کھلا کر صحت مند افراد کی زندگیوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ میڈیا میں آئے روز مردہ مرغیوں کو تلف کرنے، غیرمعیاری کھانوں کی وجہ سے ریسٹورنٹس، ہوٹلز کو سیل کرنے، غیرمعیاری اشیائے خوردونوش بیچنے والے دکانداروں کو جرمانے اور سزاؤں کی خبریں آتی رہتی ہیں اس کے باوجود آلودہ، باسی اور غیرمعیاری خوراک کو بیچنے کا سلسلہ مکمل طور پر بند نہیں ہو سکا۔

اسی لئے اقوام متحدہ نے دنیا کے ہر فرد کو تازہ کھانے کے ضیاع کو روکنے اور آلودہ کھانوں کے خاتمہ کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔ اگر ضائع ہونے والے تازہ کھانے فاقہ کشی میں مبتلا خاندانوں کو مل جائیں تو بہت سی زندگیوں کو مرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح باسی اور غیرمعیاری کھانوں کی فروخت کو سختی سے بند کر دیا جائے تو بہت سے صحت مند افراد موت کے منہ میں جانے سے بچ سکتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button