لائف سٹائلکالم

خواجہ سراء بہت کچھ کرنے کے قابل، ہم نے کبھی آزمایا نہیں!

ڈاکٹر سردار جمال

قدرت نے مختلف قسم کی مخلوقات پیدا کی ہیں جن میں سے بعض ہم کو نظر آ رہے ہیں۔ اور بعض اتنے چھوٹے ہیں جو کہ نظر نہیں آ سکتے۔ ان میں سے بعض ناری اور بعض نوری بھی ہیں مگر قدرت کی مخلوقات میں سے تین قسم کی مخلوقات ہم کو واضح نظر آتی ہیں یعنی نباتات، حیوانات اور جمادات!

دوسری مخلوقات کی طرح حیوانات کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں جو کئی چھوٹے بڑے درجوں میں تقسیم ہیں یعنی بشر (انسان)، جانور، حشرات اور بے شمار چھوٹے زندہ اجسام یعنی جراثیم وغیرہ۔

پھر قدرت نے بشر کو تین اقسام کے درجات میں تقسیم کیا ہے یعنی مرد، عورت اور خواجہ سراء!

جسمانی اور نفسیاتی لحاظ سے مرد اور عورت کا تعین کرنا کوئی مشکل نہیں مگر تیسری جنس یعنی خواجہ سراء کے بارے میں جاننا کافی مشکل ہے کیونکہ یہ نہ مرد ہوتے ہیں اور نہ عورت، جبکہ دوسرے معنوں میں یہ مرد بھی ہیں اور عورت بھی ہیں۔ انسان خواہ مرد ہو یا عورت اور یا خواجہ سراء، تینوں باطنی طور یکساں ہوتے ہیں۔ یعنی تینوں کو بھوک لگتی ہے، تینوں کو سردی لگتی ہے، تینوں کے جسموں میں خون یکساں دوڑتا ہے، تینوں یکساں طور پر غم اور خوشی سے دوچار ہوتے ہیں یعنی تینوں کا جینا مرنا یکساں ہی ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ جس طرح مرد اور عورت جسمانی طور پر ایک دوسرے سے ذرہ مختلف ہیں، اسی بنیاد پر دونوں کا لائف سٹائل بھی ایک دوسرے سے ذرہ مختلف ہیں کیونکہ جسم اور کردار لازم اور ملزوم ہیں۔ بالکل اسی طرح خواجہ سراء چونکہ مرد اور عورت کے مابین تیسری مخلوق ہے اس لیے ان کے لیے تیسری دنیا سجانے کی اشد ضرورت ہے۔

میرا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان کو اس دنیا سے باہر نکالا جائے اور کوئی اور دنیا بنائی جائے۔ بالکل نہیں! اور نا ایسا ممکن ہے۔ بلکہ ان کے لیے اس دنیا میں تیسری دنیا ڈھونڈنی ہے۔ جس طرح ایک دنیا ہم نے مردوں کی بنا رکھی ہے اور دوسری دنیا عورتوں کے لیے بنا رکھی ہے بالکل اسی طرح تیسری دنیا خواجہ سراؤں کے لئے بنانی چاہیے جس میں وہ ذہنی طور ایڈجسٹ ہو سکیں۔

ایسا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ انسانی سائیکی کا فارمولا بہت آسان ہے۔ وہ ہے عزت نفس کے ساتھ پیٹ پالنا۔ ایسا کرنے کے لیے دوسرے ممالک بہت کچھ کر چکے ہیں۔ ہمیں صرف وہ طریقے اپنانے چاہئیں۔ اور خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ تیسری جنس بہت کچھ کرنے کے قابل ہے مثلاً یہ لوگ ہیلتھ کیئر بہتر طور پر کر سکتے ہیں، کلیریکل کام خوب کر سکتے ہیں، براڈ کاسٹنگ اچھی طرح سے کر سکتے ہیں اور یہاں تک کہ انتظامی امور بھی اچھے انداز میں سرانجام دے سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر پولیس میں بھرتی ہو کر زنانہ کانسٹیبل کی طرح گھروں میں گھس سکتے ہیں اور خوب ایکشن لے سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح خفیہ تفتیشی کام اچھی طرح اور معنی خیز انداز میں کر سکتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہم نے خواجہ سراء کو اس دھرتی پر کوئی مقام نہیں دیا بلکہ ان کو بہت بڑا ایشو بنا دیا ہے اور کبھی سوچا نہیں کہ مرد اور عورت کا ہونا حیاتیاتی معاملہ ہے، اسی طرح خواجہ سراء کا پیدا ہونا بھی حیاتیاتی یعنی بائیوجینیٹک معاملہ ہے۔

ہم سب اپنی پیدائش میں اپنی مرضی کے مالک نہ تھے؛ مرد کی نہ ہی عورت کی اپنی پیدائش میں کوئی رضامندی شامل تھی، بس قدرت جیسا چاہتی ہے ویسے ہی اپنی تخلیق پیش کر دیتی ہے، بالکل اسی طرح تیسری جنس کی تخلیق میں بھی خواجہ سراؤں کی کوئی مرضی شامل نہیں، نا ہی انہیں یہ آپشن دیا جاتا ہے، بس یہ بھی ویسے ہی پیدا کر دیئے گئے ہیں۔

اگرچہ دنیا میں بشری حقوق کی تھوڑی بہت بات کی جاتی ہے اور بعض تنظیمیں قدرے متحرک بھی ہیں، مگر خواجہ سراؤں کے بارے میں اب تک کوئی آواز نہ اٹھ سکی، ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے یہ بشریت کی چوکھاٹ سے باہر ہیں مگر ایسا تصور کرنا بالکل غلط ہو گا کیونکہ ایک تو یہ لوگ مرد اور عورت کی طرح انسانی جوڑے سے اس طرح پیدا ہوئے ہیں جس طرح عام لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ ان کے اجسام عام انسانوں کی طرح حیاتیاتی مراحل سے گذر رہے ہیں۔ اور تیسرا یہ کہ فطری جبلت کے حوالے سے تمام انسان ایک جیسے ہیں۔ اس کے علاوہ شعور، فہم اور ادراک کے حوالے سے خواجہ سراء بھی عام انسانوں جیسے ہیں۔

جہاں تک خواجہ سراؤں کے کردار کا تعلق ہے تو یہ مخلوق امن پسند، مخلص، نیک عمل اور بے ضرر ہیں۔ اور جو بات برائی پھلانے کی ہے تو اس میں یہ لوگ بالکل بے قصور ہیں۔ یہ ہم ہیں جو ان کو برائی کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اور جہاں تک بات ناچ گانے کی ہے تو ایسا پیٹ بھرنے کے لیے کیا جاتا ہے کیونکہ یہ لوگ جسمانی طور پر اتنے نازک ہیں کہ سخت مشقت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

سب سے بڑی بات جو توجہ طلب ہے، وہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے گھر میں خوش رہ سکتے ہیں نہ عورتوں کے ساتھ اور نہ باہر مردوں کے ساتھ ایڈجسٹ ہو سکتے ہیں بلکہ یہ لوگ اپنی برادری میں خوش ہوتے ہیں کیونکہ وہ ایک دوسرے کی نفسیات خوب جانتے ہیں۔

ان لوگوں کو مظلوم، مجبور اور مجذوب سمجھ کر ہمارے کچھ فرائض بنتے ہیں۔ اول یہ کہ ان طبقے سے نفرت کی بجائے ہمدردی کی جائے۔ دوسرا یہ کہ ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے نہ کہ حقارت سے۔ اور حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہر شہر میں ان کے لیے الگ ایک کالونی بنائی جائے جہاں صرف یہ لوگ رہائش پذیر ہوں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے مذاج کے مطابق انہیں روزگار دیا جائے تاکہ یہ کثیر آبادی قوم و ملک پر بوجھ نہ بنے۔
سردارجمال

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button