ذات کا عرفان خالق کی پہچان کیلئے بنیادی سیڑھی!
ڈاکٹر سردار جمال
ہم سب کو زندگی صرف ایک بار ملی ہے اور وہ بھی اپنی باری پر، پیداٸش کے لیے ہم لاکھوں سال انتظار کر چکے ہیں۔ یہ اس لئے کہ قدرت کی عدالت میں پیسہ، سفارش اور وکیل وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی، قدرت کے قانون میں صرف ایک چیز چلتی ہے اور وہ ہے صبر کرنا، وقت کا انتظار کرنا!
وقت بذات خود ایک بہت بڑا منصف ہے یہی وجہ تھی کہ ہمارے پاس دنیا میں آنے کے لئے صرف ایک وسیلہ تھا اور وہ تھا صبر! مجبوراً ہم کو صبر کرنا پڑا بلکہ صبر کرنا بھی کافی نہیں تھا، ساتھ ہی ساتھ سینہ زوری بھی ہماری پیدائش کے لئے اہم شرط رکھی گئی اور وہ ایسے کہ لاکھوں بہن بھاٸیوں میں سے صرف میرا اور تیرا انتخاب کیا گیا یعنی جس وقت میں اور آپ سپرم کی شکل میں ماں کے رحم میں بیضہ کی طرف دوڑ رہے تھے تو اس وقت میرے اور آپ کے ساتھ دوسرے 80 ہزار بہن بھاٸی سپرم کی شکل میں موجود تھے اور بھی بیضہ دانی کی طرف مسلسل دوڑ رہے تھے، مگر ان میں سے جو سست، کاہل اور کمزور تھے تو تھک کر، گر کر اور مر کر پیچھے رہ گئے، انہیں جنم لینے کا موقع نہ مل سکا اور یہ کرم صرف مجھ پر اور آپ پر کیا گیا کہ میں اور آپ ریس جیت گئے اور میرے اور آپ کے دوسرے بہن بھائی جنم لینے کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔
پتہ ہونا چاہیے کہ یہ دوڑ سات دن سے لے کر چودہ دنوں تک لگی رہی، آخرکار میں اور آپ سپرم کی شکل میں ماں سے خارج انڈے تک جا پہنچے اور ماں کے رحم میں بیضہ سے چمٹ کر ہماری زندگی کآ آغاز شروع ہوا، اس لیے زندگی بہت قیمتی ہے اور اتنی قیمتی ہے جس کا نہ کوٸی نعم البدل ہے اور نہ دوبارہ آنے کا کوٸی چانس!
المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی بھلائی بھول کر ہمیشہ دوسروں کی برائی کا سوچتے ہیں، ہم نے کھبی اپنا احتساب نہیں کیا بلکہ ہمیشہ دوسروں کی خامیاں ڈھونڈتے رہے اور ڈھونڈ رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ہم نے کھبی اپنی ذمہ داریاں جاننے کی کوشش نہیں کی بلکہ اپنی زندگیاں دوسروں کو سمجھنے یا سمجھانے میں گزار رہے ہیں، ہم کوشش کرتے ہیں کہ اپنی سوچ و فکر دوسروں پر تھوپیں، دوسری طرف دوسرا فریق بھی اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اپنے بے معنی اور فرسودہ تفکرات آپ کے ذہن میں ڈال دے جو سراسر بے راہ روی ہے، ادھر ہر بندہ صرف اپنے آپ کے لئے پیدا ہوا ہے، ہر بندہ صرف اپنا ادراک کر سکتا ہے، ہر بندہ صرف اپنی اصلاح کر سکتا ہے کیونکہ ہر بندہ صرف اپنے آپ سے واقف ہوتا ہے، کوئی دوسرا آپ سے واقف نہیں ہے اور نہ آپ کسی سے واقف ہو سکتے ہیں۔
دنیا میں جتنے انسان رہتے ہیں یہ اتنے ہی اذہان ہیں، ہر ذہن اپنے آپ میں ایک الگ دنیا ہے، ہر انسان کو اپنی ہی دنیا میں جینے کا حق دینا چاہیے البتہ تمام انسانوں کے مابین کچھ مشترکات ضرور ہیں یعنی عزت نفس اور زندگی کے بنیادی حقوق جن میں کھانا پینا، رہنا سہنا اور مکان وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب سٹیٹ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ رعایا ان کے بنیادی حقوق دیئے جائیں۔ اس کے علاوہ ذاتی معاملات میں انسان کو آزاد چھوڑنا چاہیے، اپنے خیالات، عقائد اور تصورات اپنے پاس رکھنے چاہئیں اور اپنے آلودہ خیالات سے دوسروں کے خیالات آلودہ نہیں کرنے چاہئیں۔ اگر انسان کو اپنی فطرت پر چھوڑا جائے تو ہر انسان پیدائشی طور پر شریف النفس ہے مگر معاشرہ اور معاشرے میں پہلے سے موجود زنگ آلود نظام ایک مہذب شہری کو تعصب سے بھر کر انسان اور انسانیت کے لئے ناسور بنا دیتے ہیں۔ لہذا زندگی اپنے آپ کا ہوتے ہوٸے گزارنا چاہیے، فضول زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں سے گریز کرنا چاہیے، ہاں زندگی کو رحمت کی نظر سے دیکھنا چاہیے اور زندگی کو امانت سمجھ کر امانت میں خیانت کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
زندگی کو بے داغ رکھنا ہو گا تاکہ اسے بے داغ واپس کر سکیں اور ہاں جسمانی غلامی کے ساتھ ساتھ ذھنی غلامی سے بھی بچنا ہو گا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اکثریت لوگ جو کہ توہمات کے شکار ہیں اور وہ ان توہمات کے کچرے کو دوسروں کے ذہنوں میں پھینکنا چاہتے ہیں لہذا ان لوگوں سے معذرت کرنا چاہیے کہ خدارا اپنا کچرا اپنے پاس رکھیں، میری زندگی آپ کا کچرا اٹھانے کے لیے نہیں ہے بلکہ میری زندگی کا مقصد قدرت کے نظارے کو دیکھنا ہے تاکہ میں کائنات کا دیدار کر کے ان سے لطف اٹھا کر زندگی کے رموز جان سکوں، یہ تمام غور و فکر کرنے کے بعد ہی ہم عرفانِ ذات (خود کی پہچان) کر سکیں گے، کیونکہ عرفانِ ذات، عرفانِ خالق کے لئے بنیادی سیڑھی ہے۔