محمد سہیل مونس
آج سے کچھ عرصہ قبل ہمارے پیارے دوست اور پشاور ریڈیو کے معروف پروگرام ”تیر ھیر آوازونہ” کے میزبان جناب حاجی اسلام خان صاحب کی کتاب ‘تیر ھیر آوازونہ’ کی تقریب رونمائی تھی جس میں پشتو زبان کے بڑے بڑے ادباء اور شعراء شریک تھے۔ سب نے باری باری کتاب اور اس کے مصنف بارے اپنے زریں خیالات کا اظہار کیا، یہ کتاب پشتون گائیک، موسقاروں اور نغمہ نگاروں کی مختصر سی سوانح عمری کے بارے میں ایک جامع کتاب ہے جس میں پشتون گلوکاروں کی فن واسطے خدمت اور ان کے موسیقی کے سفر بارے مکمل معلومات ہیں۔
حاجی صاحب کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ پشاور ریڈیو کے پاس پرانی پشتو کلاسیکل نغمات کا ذخیرہ چند سو ہی پر مشتمل تھا۔ اسلم خان صاحب نے یہ گنتی تقریباً چار ہزار تک پہنچا دی اور اس کھوج میں انھوں نے اپنی زندگی کے تقریباً اٹھارہ برس لگا دیئے۔ خیر اسلم خان صاحب تو تعریف کے قابل ہیں ہی لیکن اس پروگرام میں جو بات میں نے سب سے زیادہ محسوس کی وہ اس تقریب کے آخر میں مشاعرے کا اہتمام تھا جس میں کئی نوجوان شعراء کو دعوت دی گئی تھی۔
اس تقریب کے میزبان جس بھی شاعر کو بلاتے تو کسی کا تعلق کرم سے نکل آتا کسی کا سوات کسی کا خیبر اور کسی کا وزیرستانوں سے جبکہ ایک آدھ تو مہمند اور باجوڑ سے بھی آئے تھے، ان تمام میں سے ضلع خیبر کا پلڑا بھاری تھا۔ ایک موقع پر حاجی اسلم صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے آپ بھی کچھ سنا دیں میں نے کہا کہ آپ کا پروگرام طویل ہو جائے گا، چھوڑو نوجوانوں کو سنتے ہیں لیکن انھوں نے اصرار کیا اور میں ڈائس پہ جا پہنچا۔
سب سے پہلے تو مدعو کرنے کا شکریہ وغیرہ ادا کیا اور کتاب کو ایک اچھی کاوش قرار دے کر مصنف کو داد دی۔ اس کے بعد حیرت بھری نظروں سے ہال کو دیکھ کر اس میں موجود نوجوان شعراء سے مخاطب ہوا کہ میں نے نوٹس کیا ہے کہ ہمارے بنجر پہاڑوں میں بڑا پوٹینشل ہے، حیران ہوں کہ ضلع خیبر کے نوجوان کوئی دوسرا کام بھی کرتے ہیں کہ سب کے سب شاعر بن گئے ہیں۔ ایک زمانے میں اگر ایک خیبر، خاطر اور بابائے غزل حمزہ خان شینواری اور ان کی طرح ایک آدھ تھے آج پوری فوج ہے جن میں اعلیٰ پایہ کے دانشور، ادباء اور شعراء کے علاوہ بہترین کھلاڑی بھی نکل کر سامنے آ رہے ہیں۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ پچھلی 45 سالہ جنگ اور بربریت نے ان کا ظاہر تو چلو بگاڑ کر رکھ دیا ہے لیکن ان کا اندرون اتنا ہی مضبوط اور زرخیز ہے جیسے سردیوں کی ٹھنڈ سے پرجھائی ہوئی گھاس جو موسم بدلتے ہی کھل اٹھتی ہے۔ اس تقریب میں موجود معزز ہستیوں سے التماس بھی کیا کہ ان نوجوانوں کی سرپرستی ہر حال میں کرنی چاہیے تاکہ یہ بچے فن کے اسرار و رموز سے آشنا ہو جائیں اور ہماری زبان پھلتی پھولتی رہے۔
چند ہی روز بعد مجھے ضلع خیبر کی ایک ادبی تنظیم کی جانب سے مشاعرے کی دعوت ملی اور میں نے قبول بھی کر لی، پہنچا تو بڑی عزت افزائی ہوئی، وہاں پر موجود شعراء سے ان کا تازہ بہ تازہ کلام سنا۔ چند لمحوں کے لئے میں بالکل دھنگ سا رہ گیا۔ ان کے موضوعات کی وسعت، تخیل کا پرواز، کلام کی گہرائی وگیرائی، نت نئے اور اچھوتے انداز سے الفاظ کا لانا اور اس طرح کا بہت کچھ جس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ ساری محفل محظوظ ہوتی رہی اور داد دیئے بنا نہ رہ سکی، ایک لحظہ بھر کے لئے بحیثیت کالم نگار اس سوچ میں گم ہو گیا کہ ان نامساعد حالات میں یہاں کے شعراء و فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں کا یہ حال ہے اگر ان کو مواقع مل جائیں تو یہ کیا قیامت ڈھائیں گے۔
ایک جانب یہ بنجر پہاڑ اور دوسری جانب تتلی کی پھنک مانند حسین اور ملائم جذبے، حیران تھا کہ اس طرح کے تخیلات ان کے دماغ میں آتے کہاں سے ہیں۔ ان لوگوں میں کمال کے سائنسدان، اکانومسٹس، اعلیٰ پایہ کے ڈاکٹرز اور انجینئرز کے علاوہ ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے ہیرے پیدا ہو سکتے ہیں جن کو مخصوص مد میں راہنمائی کی ضرورت ہے باقی راہیں ان کے لئے قدرت کھولتی جائے گی۔
حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اس اکیسویں صدی میں بھی ان کو زندگی گزارنے کے بنیادی حقوق و سہولیات تک حاصل نہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ نوجوان پود کی شکل میں اس ملک کا قیمتی سرمایہ ویسے ہی ضائع ہو رہا ہے۔ حکومت وقت اور ضم شدہ علاقوں کے کرتا دھرتاؤں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ یہاں کے نوجوان اور دیگر تمام شہریوں کے لئے امن کے قیام کو یقینی بنا کر ان کی ہر طرح کی مدد کرنی چاہیے۔ ضم شدہ علاقوں میں بھی کلچرل ایکٹیویٹیز کے لئے مراکز بنانے چاہئیں، ان مراکز میں طرح طرح کے پروگرامز کے انعقاد سے ہی اصلاح اور تفریح فروغ پائیں گے جو ان علاقوں میں امن و سکوں کا باعث بنائیں گے۔ اس طرح کے قابل بچوں کے لئے اگر ان علاقوں کے سکولز میں جدید خطوط پر استوار سائنس لیبز اور لائبریریز بھی بنائی جائیں تو اس خطے کے حالات کچھ اور ہو سکتے ہیں۔
اب یہ نیتوں پہ منحصر ہے کہ کیا حکومت یا پاکستانی کرتا دھرتا اس علاقے کو ترقی دینا چاہتے ہیں یا محض اصلاحات کا ڈرامہ رچا کر ان کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتے ہیں۔ اس خاموشی کا کوئی کچھ بھی مقصد لے سکتا ہے یا تو کرتا دھرتا پھر کسی مہم جوئی کی تاک میں بیٹھے ہیں اور ان نوجوانوں کو ایک بار پھر اسلام و کفر کی لڑائی میں جنگ کا ایندھن بنانا چاہتے ہیں یا پھر ان کے پاس سرے سے کوئی منصوبہ ہی نہیں کہ ضم اضلاع کو ساتھ لے کر کیسے چلنا ہے۔
وقت بڑی تیزی سے ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے، ملک کے کرتا دھرتا نے جو فیصلے لینے ہیں تو نہایت احتیاط اور دانشمندی سے لیں ورنہ ان حالات میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آخر میں صرف اتنا ہی کہ امید پہ دنیا قائم ہے اور میں خصوصاً اپنی نئی نسل سے نہایت پرامید ہوں کہ وہ ایک نہ ایک دن اپنے مقاصد میں ضرور کامیاب و کامران ہو جائے گی۔