سیاستکالم

پی ٹی آئی کا لانگ مارچ اور اسلامک ٹچ!

عبد المعید زبیر

جب سے اقتدار چھیننے کی خبریں چلنے لگیں، خان صاحب تو گویا حواس باختہ ہی ہو گئے۔ نہ دن کی فکر نہ رات کی۔ کبھی ایک اتحادی کے پاس اور کبھی دوسرے اتحادی کے پاس۔ مگر تب تک زرداری صاحب کا جادو چل چکا تھا۔ اب مرض کا علاج ممکن نہیں رہا تھا۔ ڈاکٹرز بھی جواب دے چکے تھے۔ اب مریض ایک لاش کی مانند تھا۔ خان صاحب نو اپریل کی رات گیارہ بجے تک اپنی اس مردہ لاش میں جان ڈالنے کی کوشش میں لگے رہے مگر سب بے سود رہا۔

اقتدار چھن جانے کے بعد اپنی اس مردہ لاش کو لیے شہر شہر گھومتے رہے، مسلسل دس پندرہ دن عوام میں رہے۔ اور آخر کار لانگ مارچ کا اعلان کر دیا اور دعویٰ کیا کہ بیس لاکھ لوگوں کے ساتھ اسلام آباد کا رخ کریں گے۔ ایک لانگ مارچ خان صاحب پہلے بھی کر چکے تھے۔ جس میں انہوں نے سرکاری اور عوامی املاک کو نقصان پہنچایا تھا۔ جلاو گھیراؤ خوب تھا۔ پولیس اہلکاروں کو مارا تھا۔ اس وقت ایک طرف جہانگیر ترین اور علیم خان کی مالی سپورٹ حاصل تھی تو دوسری طرف سے خلائی مخلوق کی پشت پناہی بھی، تو مسلسل ایسی حرکتیں ہوتی رہی تھیں۔ لہذا ان کی پالیسیوں سے واقفیت کی بنا پر حکومت نے سخت نوٹس لیا اور پہلی حکومتوں کی طرح اس حکومت نے بھی پکڑ دھکڑ شروع کی۔ اسی دوران لاہور میں چھاپے کے دوران ایک گھر سے فائرنگ ہوئی، جس سے پولیس اہلکار شہید ہو گیا۔ اس کے بعد یہ آنکھ مچولی چلتی رہی مگر کہیں کوئی مرکزی قیادت نظر نہیں آئی۔ ہر جگہ عوام ہی مار کھاتی نظر آئی۔ شاہ محمود قریشی صاحب ملتان سے قافلہ نکالنے کی بجائے پہلے ہی ڈر کے مارے خان صاحب کے پروں تلے پناہ لیے بیٹھے تھے۔ عثمان بزدار جو الیکشن سے تقریباً ایک ماہ پہلے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے اور ساڑھے تین سال تک وزارت اعلی کے منصب سے چمٹے رہے، کہیں کسی جلوس کی قیادت کرتے نظر نہ آئے۔ خود خان صاحب گرفتاری کے خوف سے اپنی ٹیم کو لے کر پہلے ہی پشاور میں قیام پذیر ہو گئے، جہاں ان کی اپنی حکومت بھی تھی اور پشاور کا "فیض” بھی۔ لہذا انہوں نے خود کو وہاں محفوظ سمجھا اور قوم کو گرفتاریوں، ڈنڈوں سوٹوں کے لیے حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ جو ٹینکوں کے آگے لیٹنے کے دعوے کرتے تھے، وہ گرفتاری کے ڈر سے سوشل میڈیا پر جنگ لڑتے رہے۔

تقریباً پورے پنجاب سے، سوائے لاہور سے ڈاکٹر یاسمین راشد اور جہلم سے فواد چوہدری کے، کوئی ایم این اے یا ایم پی اے لوگوں کو نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکا حتی کہ ہمارا شہر جو ریاض فتیانہ صاحب کا حلقہ ہے، یہاں سے کوئی چھوٹا قافلہ بھی نہیں نکل سکا۔ سندھ اور بلوچستان تو ویسے ہی ٹھنڈے رہے۔ جہاں تیس منٹ میں پورا کراچی بند کرنے کا دعویٰ کیا تھا، وہاں کوئی ایک ایم این اے یا کوئی ذمہ دار نظر نہیں آیا۔ بلکہ عمران اسماعیل اور حلیم عادل شیخ پہلے ہی جان بچا کر پشاور پہنچ چکے تھے۔ گویا تین صوبوں نے خان صاحب کو بالکل مسترد کر دیا تھا۔

اب تحریک انصاف کے ارکان جیسے مرضی گلا پھاڑ پھاڑ کر یہ کہتے رہیں کہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے لوگ نہیں نکلے، یہ سب بیکار ہے۔ عمران خان نے اپنے دور میں جمیعت علماء اسلام کے لانگ مارچ پر یہی پالیسی اپنائی۔ مگر وہاں قیادت خود کراچی سے قافلہ لے کر نکلی اور پورے ملک سے کارکنان میں ہمت پیدا ہوئی۔ ان کے کارکنوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ نہ کسی نے مزاحمت کی اور نہ ہتھیار اٹھائے۔ بلکہ پرامن طریقے سے قیادت کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد پہنچے۔ جب لیڈر قافلے کی خود قیادت کرتا ہے تو قوم کے اندر جرات اور ولولہ پیدا ہوتا ہے۔ مگر یہاں تو کہیں کوئی قیادت نظر نہیں آئی۔ لیڈر پشاور، بچے لندن، بیوی بنی گالا اور قوم سڑکوں پر۔

دو بجے قافلے کی قیادت کے لیے خان صاحب پشاور سے مردان ہیلی کاپٹر پر پہنچے اور مردان سے اسلام آباد جانے کے لیے کنٹینر پر چڑھے۔ یہ قافلہ خراماں خراماں چلتے ہوئے دو گھنٹہ کا فاصلہ سترہ گھنٹے میں طے کرتا ہے اور دوسری طرف جو ارکان اسلام آباد پہنچ چکے تھے وہ پولیس کی مزاحمت کا سامنا کر رہے تھے۔ حتی کہ زرتاج گل جو اپنے علاقے والوں کو تن تنہا چھوڑ کر پہلے ہی اسلام آباد پہنچ چکی تھی، اب وہ لوگوں کو اسلام آباد آنے کی دعوت دے رہی تھی۔ اگلے روز خان صاحب سات آٹھ بجے کے قریب وہاں پہنچے، چند ہزار لوگوں سے چند منٹ بات کی اور اپنی تقریر کو اسلامک "ٹچ” دے کر کارکنان کو چھ دن کے لیے واپس بھیج دیا۔ کارکن دو دن دھکے کھاتے رہے، ڈنڈے سوٹے اور گرفتاریوں کا سامنا کرتے رہے اور قیادت پرسکون طریقے سے پہنچی اور چند منٹ تقریر کر کے رفوچکر ہو گئی۔

یہاں دو سوال ہیں جو قوم خان صاحب سے پوچھنا چاہتی ہے کہ اگر دھرنا نہیں دینا تھا تو یہ شہادتیں اور گرفتاریاں، یہ توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ یہ کس لیے تھا، اس کا مقصد کیا تھا، اس سے کیا حاصل ہوا؟ یہ چھ دن کی ڈیڈ لائن تو خان صاحب ایک ٹویٹ کے ذریعے بھی دے سکتے تھے۔ پچھلی دفعہ بھی یہی کچھ کیا تھا۔ ملک کو نقصان پہنچایا، اہلکار اور کارکنان گتھم گتھا رہے۔ اور ایک سو چھبیس دن بعد منہ اٹھائے گھروں کو لوٹ گئے۔ گویا خان صاحب کو اس قوم کے نوجوانوں کی کوئی فکر نہیں۔ جب چاہا پٹوا دیا، جب چاہا مروا دیا۔

دوسری اہم بات یہ کہ چوبیس گھنٹے کارکنان کو ذلیل کروانے کے بعد جب چند منٹ ان سے مخاطب ہونے لگے تو قاسم سوری صاحب نے کان میں کہا کہ "خان صاحب! تھوڑا سا اسلامی ٹچ بھی دے دیں۔” یہ ہے وہ تماشا جس پر پوری قوم کو نچوایا جا رہا تھا۔ خان صاحب صرف ملک کے لیے ناسور ثابت نہیں ہوئے، بلکہ ہمارے اسلام اور اسلامی کلچر سے بھی کھلواڑ کرتے رہے۔ یہ "ٹچ” اب قوم کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان کو کوئی محبت نہیں بلکہ یہ قوم کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔

آسیہ ملعونہ کی رہائی ہو یا شکور قادیانی کی یا کوئی اور اسلامی ایشو، خان صاحب اپنے بیرونی آقاؤں کو خوش کرتے نظر آئے۔ تحریک لبیک کو بے تحاشہ دبایا گیا، ظلم کیا گیا، گولیاں چلائی گئیں، لاٹھی چارج کیا گیا، مقصد مغربی آقاؤں کو بتانا تھا کہ ہم نے چھوٹے سے طبقے کو قابو کر لیا۔ دوسری طرف اپنے ورکرز کو خوش کرنے اور لالی پاپ دینے کے لیے اقوام متحدہ کی تقریر کا تھوڑا سا "ٹچ” دے دیا۔ اور پھر ساڑھے تین سال اپنے ہر برے اعمال پر وہی اسلامی "ٹچ” پیش کرتے رہے۔ ورکرز اسی پر جھومتے رہے۔ جب بھی کسی بھی کارکردگی کا پوچھا جاتا تو جواب میں تقریر کا حوالہ دے دیا جاتا۔

اپنے اقتدار کے دوران ریاست کو ہر محاذ پر ناقابل تلافی نقصان پہنچا کر، جاتے ہوئے رحمت اللعالمین اتھارٹی کی صورت میں اپنے کالے کرتوتوں کو اسلامی "ٹچ” دے دیا اور قوم کے ہاتھ ایک نیا لالی پاپ تھما دیا۔ اب ورکرز کو چوبیس گھنٹے تپتی دھوپ میں مزاحمت برداشت کرنے پر ان کی داد رسی کرنے کے لیے تھوڑا سا اسلامی "ٹچ” دے دیا کہ میں تو عاشق رسول ہوں۔

کیا ڈھول کی تھاپ پر قوم کے جوان بیٹوں اور بیٹیوں کو نچوانا عشق رسول ہے؟ کیا دوسروں کی عزتوں سے کھلواڑ کرنا، ان کی کردار کشی کرنا عشق رسول ہے؟ کیا سرکاری املاک کو جلانا عشق رسول ہے؟ کیا لوگوں کی گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کرنا عشق رسول ہے؟ کیا درختوں کو آگ لگانا عشق رسول ہے؟ نہیں بالکل نہیں! یہ اسلامی تعلیمات نہیں بلکہ یہ اسلام دشمنی ہے۔

اب قوم کو بیدار ہو جانا چاہیے کہ جو اپنا گھر نہ سنبھال سکا وہ ملک کیا سنبھالے گا۔ جو خود اسلامی تعلیمات سے ناواقف ہے، وہ ہمیں کیا اسلامی تعلیمات دے گا۔ جو خود آئین شکن ہو وہ اس ملک کے آئین کا کیسے محافظ بنے گا۔ جو خود مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے مذہبی طبقے کو کچلے، وہ کیسے آزادی کی بات کرے گا۔ جو فحاشی کو پروموٹ کرے وہ کیسے ریاست مدینہ کا قیام کر سکتا ہے۔ اب یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ یہ سب نعرے قوم کے جذبات سے کھیلنے کے لیے صرف ”اسلامی ٹچ” ہیں۔

Moed
عبد المعید زبیر جامعہ دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل اسکالر ہیں اور مختلف اخبارات اور رسائل کے لئے لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button