لائف سٹائلکالم

ضم اضلاع اک خزانہ: قبائلی عوام کو کیا دیا جاتا ہے؟

محمد سہیل مونس

ہمارے ضم شدہ اضلاع میں قدرت کے خزانے چھپے لیکن اس سے استفادہ حاصل کرنے والے خواب غفلت میں محو پڑے ہیں۔ ان میں سے چند ہی معدنیات کی کھوج لگائی جا چکی ہے اور کھدائی کا عمل زور و شور سے شروع ہے جن میں سے ایک چیز ماربل بھی ہے۔

ایک خبر کے مطابق کچھ عرصہ قبل وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے زیر صدارت اسپیشل اکنامک زون کے بورڈ آف گورنرز کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ماربل سٹی کے قیام کے لئے مزید دو ہزار ایکڑ زمین خریدنے کی منظوری دی گئی۔ اس اجلاس میں ملاگوری، مہمند اور ورسک کی ماربل انڈسٹریز کو ماربل سٹی منتقل کرنے کی بھی منصوبہ بندی ہوئی۔ اس کے علاوہ ہر طرح کی سہولیات دینے کا عندیہ بھی دیا گیا جن میں سڑکوں کی تعمیر، بجلی کی بلاتعطل فراہمی اور ٹیکس و محصول ریٹس کو موزوں سطح پہ لانے کی بات بھی ہوئی۔

اس وقت مہمند اکنامک زون 350 ایکڑ رقبہ پر مشتمل ہے اور مختلف کیٹیگریز کے 290 پلاٹس میں سے 166 پلاٹ الاٹ ہو چکے ہیں جبکہ ذرائع کے مطابق 132 کلوواٹ کا ایک جدید بجلی گھر تعمیر ہو چکا ہے۔

اس وقت ماربل کی صنعت پاکستان کی پانچویں بڑی صنعت ہے جس سے وابستہ افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے، صرف ملاگوری انڈسٹریل ایریا میں 276 کارخانے کام کر رہے ہیں جہاں بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر لگ بھگ دس ہزار مزدور روزی روٹی کما رہے ہیں۔ ان کارخانوں میں ماہانہ اوسطاً 35 ہزار سکوائر فٹ ماربل تیار کیا جاتا ہے جبکہ ان کارخانوں سے 75 ہزار روپے ماہانہ معدنی ٹیکس کی مد میں وصول کئے جاتے ہیں۔

اسی طرح بجلی کی کھپت میں بل بھی کروڑوں روپے کے وصول ہوتے ہیں۔ اس صنعت کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ صرف باجوڑ، خیبر اور مہمند کے پہاڑوں میں تقریباً سات ہزار ملین ٹن ماربل کے ذخائر موجود ہیں جو ملک کی ترقی اور خوشحالی میں ایک معاون کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان مائنز سے جڑے مزدور ایک لمبے عرصے تک اپنا چولہا جلائے رکھ سکتے ہیں بلکہ اپنے آنے والی نسلوں کو ایک بہترین کل دے سکتے ہیں۔ لیکن اگر حکومتی سرپرستی شامل حال رہے تو۔ ہم امید یہ کر سکتے ہیں کہ حالیہ حکومت اس صنعت پر خصوصی توجہ دے کر ملک کی اس پانچویں بڑی صنعت کا حال ریکوڈک جیسا نہیں کرے گی۔ اس کو جدید خطوط پر استوار کر کے جدید ہی مشنری کے انسٹال کرنے سے مزدوروں کی مشقت میں کمی واقع کرنے کی کوشش کی جائے گی جس سے کام میں تیزی آئے گی اور ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا۔

اس وقت اس انڈسٹری کو درپیش چیلینجز کی اگر بات کی جائے تو ان میں سرفہرست مسئلہ بجلی کے تعطل کا ہے خصوصاً گرمی کے سیزن میں ان علاقوں میں گھنٹوں لوڈشیڈنگ ہوتی ہے جس سے کام کا بہت حرج ہوتا ہے۔ ان مسائل میں دوسرا بڑا مسئلہ سڑکوں کی خستہ حالی ہے جس کی وجہ سے ماربل کی ترسیل اور گاڑیوں کی آمدورفت میں خلل پڑتا ہے، نتیجہ قیمتی وقت کے زیاں اور گیس و آئل کے بے تحاشہ نصرف کی صورت میں آتا ہے۔

اب اگر ٹیکسز کی بات کریں تو اس مد میں بھی حکومتی سطح پہ غور و خوض کی ضرورت ہے کیونکہ بھاری بھرکم ٹیکسز کا بوجھ برداشت کرنا اور وہ بھی اس مہنگائی کے دور میں نہایت ہی مشکل کام ہے۔ ان ٹیکسز کے علاوہ راستے میں کھڑی ‘غیبی مخلوق’ سے بھی پالا پڑتا ہے جو آنے جانے والے ٹرکوں سے چائے پانی کی وصولی کو اپنا جائز حق سمجھتی ہے، اس طرح کے کاموں کا بھی اگر بروقت نوٹس لیا جائے تو بہتر ہو گا کیونکہ دوسروں کی محنت و مشقت کی کی کمائی پر اس طرح ہاتھ صاف کرنا کہاں کا انصاف ہے۔

اب تک کی تحقیق کے مطابق ہمارے صرف ضم شدہ اضلاع میں 21 مختلف قسم کی معدنیات پائی جاتی ہیں جس کا اندازہ کھربوں روپے لگایا جا رہا ہے۔ اب یہ حکومتوں پہ منحصر ہے کہ لاء اینڈ آرڈر کے حالات کس طرح اور کب تک سکون سے رکھے جاتے ہیں اور ان معدنیات کو کھوجنے اور مارکیٹ کرنے میں وہ کون سا ہائی ٹیک استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

جب کہ سب سے اہم بات ان خزانوں میں اس علاقے کے عوام کو کیا دیا جاتا ہے؟ کیا وہ محض تماشائی تو بن کر نہیں رہ جائیں گے؟ ان کا بھی حق ہے کہ ان خزانوں کی دریافت کے بعد وہ بھی سکھی زندگی بسر کریں اور ان کی آنے والی نسلیں خوشگوار اور پرامن زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے۔ ایک مدت ہو گئی کہ ان لوگوں کے چہروں پہ کسی نے ہنسی نہیں دیکھی، دیکھنا یہ ہے کہ حالیہ اور آئندہ کی حکومتیں ان خزانوں کا کیا کرتی ہیں اور یہاں کے عوام کو کون سا ریلیف دیتی ہیں۔

ہمارے پاس یہی ایک موقع ہے کہ ہم اپنے موجودہ وسائل پہ اکتفاء کرتے ہوئے اپنے مسائل کو حل کی جانب لے کر جائیں اور ہماری نسلیں ڈر، خوف اور دہشت کی زد سے نکل آئیں۔ اس ضمن میں ان علاقوں کے رہائشیوں سے بھی التماس ہے کہ اپنے حقوق کے بارے میں ہر ایک سے پوچھا کریں، آپ کے خزانے دمڑیوں کے مول نہیں جانے چاہئیں، جب تک آپ کو اپنا جائز حق نہیں ملتا پر امن احتجاج کا حق استعمال کرتے رہیے۔

monis
محمد مونس سہیل بنیادی طور پر ایک شاعر و ادیب ہیں، ڈرامہ و افسانہ نگاری کے علاوہ گزشتہ پچیس سال سے مختلف اخبارات میں سیاسی و سماجی مسائل پر کالم بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button