ماخام خٹک
بچوں پر سیاست، "بچگانہ سیاست” اگر ایک جانب عمران خان بنی گالہ میں آج کل سامنے لا رہا ہے یا ان بچوں پر سیاست یا بچگانہ سیاست کے پیچے خود کو چھپا کر نمایاں کرنے کے جتن میں مصروف عمل ہے تو دوسری جانب مریم صفدر بھی بالکل اسی طرح کے سیاسی حربوں کے سہارے خود کو عوام میں مقبول بنانے کی کاوش میں مشغول ہے۔
اصل مسئلہ کیا ہے۔ وہ یہ کہ جب تک وہ برسر اقتدار رہتے ہیں تو پاکستان بھی اچھا، سیاست بھی اچھی، عوام بھی اچھی اور نظام بھی اچھا لیکن جوں ہی ان کا اقتدار ختم ہو جاتا ہے تو پاکستان بھی برا، سیاست بھی پراگندہ، عوام بھی بری اور نظام بھی ناقص! تب تک ادھر رہتے ہیں جب تک برسر اقتدار ہوتے ہیں اور جوں ہی اقتدار سے الگ ہو جاتے ہیں یا اقتدار سے الگ کئے جاتے ہیں تو بیرونی دنیا عموماً اور انگلینڈ میں خصوصاً سیاسی پناہ یا عالم پناہ میں چلے جاتے ہیں۔
گو کہ عمران خان جب برسر اقتدار تھے تو کئی ممالک کے دوروں پر گئے لیکن انگلینڈ نہ اقتدار کے دوران گئے اور نہ اقتدار کے بعد پہنچے یعنی نہ سیاسی پناہ میں گئے اور نہ سیاسی عالم پناہ میں گئے یا آئے۔ لیکن علامتی بیانیے کے طور پر ضرور میڈیا کے اہلکاروں کے سامنے بڑے جذباتی انداز میں کہہ دیتے ہیں کہ "ایسے پاکستان پر ایٹم بم گرانا چاہئے جو ایسے چوروں لٹیروں کے حوالے کیا جائے۔” جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب اقتدار میں ہوں تو سب کچھ ٹھیک لیکن اگر اقتدار میں نہیں تو پھر سب کچھ تلپٹ!
اب یہ دونوں سیاسی لیٖڈران عاقل بالغ لوگوں پر تجربات کر کر کے اشکار ہو چکے ہیں اور اب وہ ان کے سطحی نعرے اور اوپری بیانیے کے جال میں نہیں آ سکتے تو بچوں کی سیاست یا "بچگانہ سیاست” کے زریعے بڑوں کے جذبات اپنی جانب مبذول کرانے اور خود کو مقبول بنانے کی حیل و حجت میں پڑ گئے۔
اس وقت ملکی سیاست اگر بظاہر عوامی لگ رہی ہے یا عوام کی طرف اس کا جھکاؤ نظر آ رہا ہے لیکن باطن میں ایسا کچھ نہیں سوائے ذاتی یا پارٹی سیاست کے بوسٹ اپ کرنے کے یا آنے والے سیاسی انتخابات کے پروجیکشن کے یا اقتدار تک دوبارہ رسائی کی تمنا اور خواہش کے!
اگر دیکھا جائے تو عمران خان شروع سے نوجوانوں کے ہیرو تھے، شروع سے نوجوانوں کا ان کے ساتھ پارٹی میں ایک جم غفیر رہا ہے لیکن آہستہ آہستہ سرمایہ دار ان کی پارٹی میں در آئے اور ایسے در آئے کہ یہ نوجوان سرے سے پیچھے چلے گئے اور ایک بار عمران خان کو بولنا پڑا کہ وہ لوگ کیوں سیاست کرتے ہیں جو پیسے یا مالی حیثیت کے حامل نہیں ہوتے اور یہ نوجوان کیڈر صرف اور صرف نعروں، ناچ گانوں، لڑنے جھگڑنے اور جھنڈے یا کرسیاں لگانے تک محدود رہے یا یہ نوجوان صرف اور صرف کارکن کے کارکن ہی رہے اور جو پیراشوٹر آئے وہ لیڈران بن گئے۔
عمران خان مخلص کارکنوں کے بجائے امیر کبیر لوگوں کے جھرمٹ میں پھنس کر رہ گئے۔ زمینی راستوں یا رابطوں کے بجائے عمران خان فضا میں اڑنے لگے اور ایک عام کارکن سے ان کا رابطہ کٹ کر رہ گیا۔ اب مریم صفدر اور ان کی پارٹی اقتدار میں ہیں اور مریم صفدر بھی بچوں کے زریعے خود کو اجاگر کر رہی ہیں اور آنے والے انتخابات کے لئے تیاری پکڑ رہی ہیں۔ لیکن ان کے لئے عمران خان کا تجربہ سامنے ہے جو انھوں نے نوجونوں کے ساتھ کیا ان کو وہ تلخ تجربہ نہیں دہرانا چاہئے اور اگر خدانخواستہ دہرا گئیں تو پھر عوام کا ان پر سے بھی اعتماد اٹھ جائے گا اور پھر ان کو بھی عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لئے کسی سازشی تھیوری کی ضروت پڑے گی۔
ویسے بھی اگر ہماری سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو سازشی تھیوری ہماری سیاست میں زیادہ تر کارگرثابت ہوئی ہے خوا وہ ماضی ہو یعنی بھٹو صاحب کی حکومت کا دورانیہ یا مابعد کا دورانیہ یا پھر نواز شریف کی حکومت کا دورانیہ ہو یا پھر پسِ نواز حکومت کا دورانیہ یا پھر عمران خان کی حکومت کا زمانہ اور ما بعد یعنی موجودہ وقت بڑی کامیابی سے سازشی تھیوری کا یہ طبی نسخہ یا منجن ہاتھوں ہاتھ لیا اور کانوں کان سنا جا رہا ہے۔ لوگ کوئی اور بات سننے کے لئے تیار ہی نہیں اور اگر آپ ان کے ساتھ سیاسی اختلاف کے لئے پر تولنے کی کوشش کرتے ہیں تو بڑے تند و تیز اور جذباتی وار سے آپ کے یہ آزادنہ اڑنے کے پنک اس طرح سے کتر دیتے ہیں کہ اڑنا تو درکنار چلنا بھی بھول جائیں گے۔
لیکن ہر دور، ہر جگہ یا پھر ہر پارٹی میں ایسے سرپھرے ضرور ہوتے ہیں جو نہ پنک کے محتاج ہوتے ہیں نہ پابہ جولاں کے منت بار ہوتے ہیں ،وہ بس جذبات کے سہارے بڑھنے اور آگے چلنے کے مہا کے خواہش مند ہوتے ہیں خواہ ان کو سر کے بل کیوں نہ چلنا پڑے۔ اور ایسے لوگ ان لوگوں سے بہت بہتر ہوتے ہیں جو اندھی تقلید کے سہارے بظاہر چل تو اپنے پاؤں اور اپنے قدموں سے رہے ہوتے ہیں لیکن یہ مسافت کسی کی ڈکٹیشن یا کسی کے نقش پا پر رکھ کر سر کر رہے ہوتے ہیں۔