مدارس اور بچوں پر تشدد: انتقام انسان کی فطرت ہے
ڈاکٹر سردار جمال
آج کل یہ بات، "امپورٹڈ حکومت نامنظور” بہت زور و شور سے کی جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح اس سے پہلے "سلیکٹڈ حکومت نامنظور” والا نعرہ چل رہا تھا۔ یہ دونوں نعرے درست اور حقیقت پر مبنی ہیں وہ الگ بات ہے کہ ہم صرف ایک آنکھ استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ کل اس ملک کے باسیوں کو ایک نعرہ نظر آ رہا تھا اور آج منہ بولے محب وطنوں کو دوسرا نعرہ نظر آ رہا ہے۔ اچھی بات ہے کہ کم از کم اتنا تو ہوا کہ ہم سلیکٹڈ اور امپورٹڈ کی حد تک تو جان سکیں اور اللہ کرے کہ ہم مزید اس قابل ہو جائیں کہ ماضی کی طرف مُڑ سکیں، پھر ہم ان جیسے ملتے جلتے بہت سارے الفاظ اور ان کے معنی جان جائیں گے۔
چونکہ صدیوں سے ہم کو اپنی زبان، اپنے کلچر، اپنی روایات اور اقدار سے دور رکھا گیا ہے، ہمارا سارا نظام درآمد شدہ ہے اس لئے ہم وہ کچھ فالو کرتے ہیں جس بارے ہمیں حکم دیا جاتا ہے، ان میں سے ایک امر بشری حقوق کا بھی ہے۔
ویسے تو ہم بہت سارے انسانی حقوق عملی کر چکے ہیں جن میں سے ایک بچوں کے حقوق بھی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری آنکھیں صرف وہ کچھ دیکھ سکتی ہیں جو کسی اور کی مدد سے دکھایا جاتا ہے ورنہ ہماری بصیرت یا وژن نہ ہونے کے برابر ہے۔
ایک زمانے میں ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کے حقوق بارے آواز اٹھائی گئی، ایسا کرنے کے لئے یہ طے ہوا کہ تعلیم ہر بچے اور بچی کا بنیادی حق ہے۔ اپنے مشن کو عملی کرنے کے لئے فنڈز مقرر کر دیئے گئے اور والدین پر زور دیا گیا کہ ہر حال میں بچوں کی تعلیم یقینی بنائی جائے،حکومت کے کارندوں نے ان بچوں کو ورکشاپوں اور دوسرے کام کاج کی جگہوں سے اٹھا کر سکولوں میں داخل کرا دیا۔
ہمارے ہاں بھی اس کام کی نقل کی گئی اور ان ممالک سے فنڈز مانگ کر ورکشاپوں سے چند بچے اٹھا کر سکول میں داخل کر دیئے گئے۔ صرف اتنا نہیں بلکہ اعلٰی ترین ہوٹلوں میں مختلف قِسم کے سیمینار منعقد کر کے میڈیا کی مدد سے دنیا کو دکھایا گیا کہ ہم کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ اور دوسری اہم بات یہ تھی کہ ہم نے پوسٹروں پر بڑے بڑے الفاظ میں لکھا تھا کہ "تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔” اگرچہ یہ عمل وقتی تھا۔
کہا جاتا ہے کہ نقل کرنے کے لئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم اس نعمت سے محروم چلے آ رہے ہیں، ہم نے بنیادی تعلیم کا حق صرف بچے کو دیا ہے اگرچہ بنیادی تعلیم ہر بچے اور ہر بچی کا بنیادی حق ہے، چونکہ ہم نے چلڈرن کو اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے اس لئے ہم بھول چکے ہیں کہ چلڈرن میں بچہ اور بچی دونوں شامل ہیں۔
ٹھیک ہے یہ مانتے ہیں کہ ہم نے ہوا میں تیر چلا کر بیٹھے بیٹھے بہت سارا شکار کیا اور چند بچوں کو مستری خانوں سے اٹھا کر سکول میں داخل کرا دیا اور بچے کے ساتھ تصاویر کھینچ کر ثواب داریں بھی حاصل کیا مگر اس طرف توجہ نہ دی جہاں بچے اذیت بھری زندگیاں گزار رہے ہیں، جو ورکشاپوں میں کام کرنے والوں بچوں سے زیادہ قابل رحم ہیں، وہ ہیں دینی مدرسوں میں پڑھنے والے یتیم و یسیر بچے!
ادھر میرا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ بچوں کو دینی مدرسوں میں نہ پڑھایا جائے۔ یہ ایک الگ بحث ہے مگر میرا موقف یہ ہے کہ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ بچوں کو دینی مدرسوں میں پڑھانا چاہئے تو میں ان کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ خدارا ان بچوں کے حال پر رحم کیا کریں اور انہیں عزت سے پڑھنے دیں۔
میں اور آپ سب بچپن سے لے کر اب تک دیکھ رہے ہیں کہ مدرسوں میں پڑھنے والے بچے رزق کے لئے در بہ در خوار ہوتے ہیں، ان بچوں کے سروں پر روٹی جمع کرنے کے لئے ایک ٹوکری ہوتی ہے اور ہاتھوں میں سالن اکٹھا کرنے کے لئے بڑے بڑے برتن، وہ ایک ایک دروازے پر جا کر بڑے معصومانہ اور سوالیہ انداز میں بولتے ہیں "ترور لگہ وظیفہ راکوی؟” یہ بچے منت کر کے بولتے ہیں کہ "پھوپھی آپ مدرسے کے بچوں کو کھانے کے لئے کچھ دینا چاہتی ہو؟” ضروری نہیں کہ ہر خالہ یا پھوپھی مشفق، مہربان اور نرم دل ہو۔ ایسے بہت سارے سخت مزاج لوگ پائے جاتے ہیں جو بچوں کو بُرا بھلا کہہ کر ان کو ڈانٹتے ہیں، صرف اتنا ہی نہیں ایسے سینکڑوں واقعات مشاہدے میں آئے ہوئے ہیں جب ایسے بچوں کو پرائے گھروں میں کتوں نے کاٹ کر لہولہان کر دیا۔
میرے خیال میں دوسرے بچوں کی طرح ان بچوں کا بھی تعلیم بنیادی حق بنتا ہے اور ان پھول جیسے بچوں کو بھی عزت سے جینا ہے ورنہ ان حالات میں پرورش پا کر بڑے ہونے والے بچے مستقبل کے متشدد بن جائیں گے کیونکہ انتقام انسان کی فطرت ہے۔