ڈاکٹر محمد ہمایون ہما
آج کی تحریر کتاب کے عالمی دن کے حوالے سے ہے۔ 23 اپریل کو ساری دنیا میں منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر ہم بھی اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کہتے ہیں چینی ادیبوں کا ایک وفد پاکستان کے دورے پر آیا تھا۔ ایک ادبی تقریب میں ایک چینی ادیب نے اپنے ساتھ بیٹھے احمد ندیم قاسمی سے پوچھا۔ آپ کے ہاں کسی کتاب کا پہلا ایڈیشن کتنی تعداد میں چھپتا ہے۔ قاسمی صاحب صحیح تعداد بتانا نہیں چاہتے تھے۔ ظاہر ہے اردو کی کسی بھی کتاب کا ایڈیشن 500 یا پھر ایک ہزار سے زیادہ نہیں چھپتا۔ انہوں نے ایک ہزار کو دو ہزار بتا دیا تاکہ چینی ادیب پر کچھ رعب پڑے۔ صرف دو ہزار؟ چینی ادیب نے حیرت کا اظہار کیا۔ اور آپ کے ہاں کتنی چھپتی ہے؟ قاسمی صاحب نے چینی ادیب سے پوچھا۔ پچاس ساٹھ لاکھ کی تعداد میں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ چینی ادیب نے مسکراتے ہوئے کہا اور پھر تمام تقریب میں قاسمی صاحب اس سے آنکھیں نہ ملا سکے۔
ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ہاں کتاب کم تعداد میں چھپتی تھی مگر جب کوئی کتاب مقبول ہو جاتی تو سال ایک میں اس کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہو جاتا۔ 21 سال پہلے کی بات ہے ہم پشاور صدر میں ایک مشہور کتابوں کی دکان پر گئے۔ سیلز مین سے پوچھا۔ آپ نے دکان کے ایک حصہ میں اسٹیشنری ڈال دی، کیوں؟ بولا۔ مجبوری ہے۔ کتاب کوئی خریدتا ہی نہیں۔ ادبی کتاب کے تو کوئی قریب بھی نہیں پھٹکتا۔ نصاب کی کتابیں البتہ فروخت ہو جاتی ہیں۔
لاہور میں ہم کتابوں کی دکانوں پر ضرور جاتے ہیں۔ وہاں بھی ایک مشہور دکان میں ایک کتاب کی تلاش میں گئے۔ سیلز مین موبائل فون سے کسی گیم میں مصروف تھا۔ ہم کتاب کی قیمت ادا کرنے کاؤنٹر پر گئے اور بمشکل اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ اور پھر اس سے بھی کتابوں کی بکری کے بارے میں پوچھا۔ کہنے لگے۔ صبح دس بجے ہماری دکان کھلتی ہے۔ اس وقت چار بجنے والے ہیں۔ اس وقت سے اب تک آپ دوسرے گاہک ہیں جو کتاب خریدنے دکان میں تشریف لائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ احمد فراز اور مستنصر حسین تارڑ کسی زمانے میں بیسٹ سیلر مصنف تھے۔ ایک ماہ میں ان کی سو دو سو کتابیں بک جاتی تھیں۔ اور اب؟ ہم نے پوچھا۔ ‘پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں’ والی صورتحال ہے۔ ایک ماہ میں چار ایک کتابیں بمشکل فروخت ہو جاتی ہیں۔ تو پھر ؟ پھر یہ کہ یہی کتابیں اب انارکلی کے فٹ پاتھ پر پرانی کتابوں کے ڈھیر میں پڑی نظر آتی ہیں۔ کتاب کلچر کے اس زوال پر افسوس ہوا۔
کچھ لوگ اس کی وجہ سوشل میڈیا بتاتے ہیں مگر یہ صرف ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ یورپ میں سوشل میڈیا ہم سے بہت پہلے متعارف ہو چکا ہے مگر وہاں کتاب کی اہمیت اب بھی برقرار ہے۔ وہاں ادیب کا شمار آسودہ حال طبقے میں ہوتا ہے۔ اگر کسی مصنف کی کوئی کتاب مقبول ہو گی تو سالوں اس کتاب کی رائلٹی ہی اس کا ذریعہ معاش ہوتی ہے۔ اسے کوئی دوسرا کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
کتب بینی کی عادت نئی نسل میں کم و بیش ختم ہو چکی ہے اس لیے کتابوں کی بھی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ اردو کا کوئی ادبی میگزین شائع ہوتا اوراق، نقوش، فنون، ادبی دنیا سب قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ پرنٹ میڈیا کا بھی یہی حال ہے۔ وہ اخبار جنہیں پڑھے بغیر کوئی ناشتہ نہیں کرتا تھا ان کی اشاعت ختم ہو گئی ہے۔ یا پھر اب وہ ڈکلیریشن کے تقاضے پورے کرنے کے لیے جو پہلے ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوتے تھے اب چند سو چھپتے ہیں۔
آپ یقین کریں گے کہ ملک کے موقر جریدے اب کسی بھی بڑے شہر میں دو ایک سو سے زیادہ تقسیم نہیں ہوتے۔ وہ بھی ٹینڈر مطلوب ہیں اور اعلان گمشدگی جیسے اشتہارات کی آمدن پر زندہ ہیں۔ کل ہمارے ایک دوست بتا رہے تھے کہ آپ ہمارے اخبار میں اسرائیل کے مظالم، کشمیر کب آزاد ہو گا اور غزوہ ہند کی آمدآمد جیسے دبنگ موضوعات پر مضامین دیکھتے ہیں۔ ان کے کسی بھی لکھنے والے کو ایک پائی معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا۔
پشاور سے شائع ہونے والے کسی بھی اخبار کے لکھاریوں کو تو ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ البتہ اگر کراچی اور لاہور کے اخبارات اپنے کالم نگاروں کو ادائیگی کرتے ہیں اس کا معلوم نہیں۔
یہ تو قومی زبان کی کتابوں اور اخبارات کا حال ہے۔ کیونکہ پشتو ادب سے ہم براہ راست وابستہ ہیں اس کی تباہ حالی پر باقاعدہ ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔ پشتو کا ادیب کتاب لکھتا ہے، اپنے خرچ پر اسے شائع کرتا ہے اور پھر ادیب دوستوں کے حلقے میں مفت تقسیم کا فریضہ بھی ادا کرتا ہے۔
پشاور کے بک سیلر نے ہمیں بتایا کہ ہمارے پاس حافظ محمد ادریس کے کشاف القرآن کا پہلا ایڈیشن بھی الماریوں میں محفوظ پڑا ہے۔ اسی طرح بہادر شاہ ظفر کاکا خیل کی ‘د پختنو تاریخ ظفر اللغات’ اور دوست محمد خان کامل کی تاریخ مرصع کے پہلے ایڈیشن بھی گودام میں پڑے ہیں جو کم و بیش 40 سال پہلے شائع ہوئے تھے۔ ایسی صورتحال میں یوم کتاب منانے کے بجائے اگر ہم پاکستان والے یوم زوالِ کتاب منائیں تو زیادہ مناسب ہو گا۔