کلچر پر وار: کیا یہ ٹھیک ہو رہا ہے؟
ساجد ٹکر
کہتے ہیں کہ اگر کسی قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہو تو اس قوم سے اس کی زبان چھین لو اور اگر کسی قوم کو خودسر اور انتہاپسند بنانا چاہو تو اس قوم کے کلچر کو مٹا دو!
تہذیب و تمدن، کلچر اور روایات وہ اجزاء ہیں جو ہر قوم کی خصوصیات متعین کرتی ہیں۔ تہذیب وہ مادی تاریخ ہے جو کسی قوم کا ورثہ ہوتی ہے جیسے کہ عمارتیں وغیرہ۔ تمدن وہ ورثہ ہے جس کے نیچے انسان رہتا ہے اور کلچر وہ ہے جو انسان کو رہنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ کلچر میں انسان کی زبان، موسیقی، لین دین کے طریقے وغیرہ آتے ہیں۔ اب جو قوم کلچرلی جتنا مضبوط ہو گی اتنا ہی وہ اعصابی طور پر بھی مضبوط ہو گی۔ جو قومیں اپنی روایات کو اپنا کر ان پر عمل کرتی ہیں، وہ قومیں ترقی کی راہ گامزن ہو کر کامیابیاں حاصل کر لیتی ہیں۔
پختونوں کی تاریخ بہت پرانی ہے اور اسی طرح پختونوں کا کلچر بھی بہت قدیم ہے۔ جرگہ اگر ہزاروں سال کی تاریخ رکھتا ہے تو زبان بھی دنیا کی چند قدیم ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ پختون فطری طور پر پہاڑوں اور دریاؤں کے آپس پاس رہے ہیں اور اس لئے ان کی طبیعت میں فطرت سے لگاؤ اور موسیقی سے پیار پایا جاتا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال پشتو زبان کی ایک خاص صنف "ٹپہ” ہے۔
ٹپہ اسی مخصوص شکل میں دنیا کی ساری زبانوں میں صرف پشتو زبان میں موجود ہے۔ ٹپہ کی شیرینی، روانی بے مثال ہے۔ ٹپہ وہ واحد چھوٹی سی صنف ہے جس میں دنیا جہاں کے کسی بھی موضوع کو سمویا جا سکتا ہے۔ ٹپہ کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ کوئی بھی موقع محل کے مطابق اس کی تشکیل کر سکتا ہے اور اس لئے کوئی بھی شاعر یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ کوئی ٹپہ اس کی تخلیق ہے اور اس لئے اس کو فولک شاعری بھی کہتے ہیں۔
پختونوں میں ٹپہ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر پختون چاہے مرد ہو یا عورت، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ اس کو کوئی نہ کوئی ایک ٹپہ ضرور آتا ہو گا۔ ٹپہ کی آفاقیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں اگر کسی مرد کی بہادری کو خوبصورت الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے تو کوئی خاتون اپنے ارمانوں کو بھی بیان کر سکتی ہے، کوئی اس میں کسی سے شکوہ کر سکتا ہے تو اس میں کسی کو منایا بھی جا سکتا ہے۔
ٹپہ کی اپنی ایک خاص ہیئت اور ساخت ہوتی ہے جس کو کوئی بھی اٹھ کر گنگنا سکتا ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ٹپہ کا دامن بہت وسیع ہے، اس کی مٹھاس بھی لاجواب ہے اور اس کی موسیقیت بھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ٹپہ پختونوں کے کلچر کا بیش قیمت حصہ رہا ہے اور تاریخی طور پر ایسے ٹپے بھی ملتے ہیں جو کہ ہزاروں سال پرانے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ ٹپہ لیجئے کہ۔۔۔
سپوگمیہ کڑنگ وہہ راخیجہ
یار می د گلو لو کوی گوتی ریبینہ
ٹپہ کی تاریخ میں جانے کے بجائے ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ پختون صدیوں سے اپنے مخصوص کلچر کے مطابق اپنی شادیوں اور خوشیوں کے تہوار مناتے آ رہے ہیں جن میں کہ موسیقی بنیادی عنصر ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پچھلے کچھ چالیس سال سے افغانستان میں مخصوص حالات کی وجہ سے ایک طرف پختونوں کے گھر اجڑ گئے تو دوسری جانب ان کا کلچر پر بھی کاری ضرب لگانے کی کوشش کی گئی۔
پچھلے چار عشروں کی مسلسل بدامنی اور بے چینی کا یہ اثر ہر پختون پر پڑا۔ تعلیم متاثر ہوئی تو موسیقی اور فنون لطیفہ پر بھی خطرناک منفی اثرات پڑ گئے۔ موسیقار یا تو باہر جا کر بس گئے اور یا پھر اپنے فن کو خیرباد کہنا پڑا۔ جو ترقی پختونوں نے موسیقی میں کی تھی وہ رک گئی۔ بیچ میں ایک موقع ایسا بھی آیا تھا کہ کلچرل پروگراموں کے لئے مختص نشتر ہال کو بھی تالے لگ گئے۔ پھر کچھ عرصہ بعد حالات بدلے اور موسیقی پھر سے ابھرنے لگی لیکن ابھی کچھ دنوں سے جب کہ افغانستان میں حالات ایک بار پھر بدل گئے ہیں تو ان حالات کا ایک بار پھر ہمارے ہاں بھی اثر نمودار ہو رہا ہے۔
ابھی کچھ ہی دن پہلے پشتو زبان کے معروف گلوکار کرن خان پشاور کے علاقہ پشتخرہ میں ایک موسیقی پروگرام میں مدعو تھے۔ اچانک پولیس آئی اور پروگرام کو بند کیا۔ جب یہ ویڈیوز اور خبریں سوشل میڈیا پر آنے لگیں تو لوگوں کو پتہ چلا کہ کیا ہوا ہے۔ موسیقی سے شغف رکھنے والوں نے اس عمل کی نہ صرف شدید الفاظ میں مذمت کی بلکہ اس کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔
کرن خان کوئی چھوٹا یا معمولی فنکار نہیں ہے۔ ایک دنیا ان کے فن اور سریلی آواز کی دیوانی ہے۔ ان کی موسیقی کی خاص بات ان کا انتخاب بھی ہے۔ ابھی تک نہ صرف اپنے بہترین انتخاب کی وجہ سے وہ پاپولر ہیں بلکہ انہوں نے پشتو موسیقی کو پہلی بار "ٹپئیزہ” جیسا صنف بھی گا کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ شاعر بھی ہیں اور پشتو ادبیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی لے کر رکھی ہے۔ ان کے ساتھ ایسا سلوک مہذب قوموں کا نہ وطیرہ ہے اور نہ عادت۔ پتہ نہیں ہمیں کیا ہو جاتا ہے کہ چند سیکنڈوں میں خود کو دنیا کے آگے ڈرامہ بنا دیتے ہیں۔
گرچہ پولیس نے اپنے موقف میں کہا ہے کہ پروگرام شب براءت کے موقع پر ہو رہا تھا اور نزدیک مدرسہ بھی تھا لیکن کیا اس ملک میں قانون نام کی بھی کوئی چیز ہے یا نہیں۔ پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ لوگوں نے اس پروگرام کے خلاف شکایت کی تھی۔ تو کیا پولیس جا کر قانون کے مطابق اس پروگرام والوں کو سمجھا نہیں سکتی تھی۔ وہاں جا کر آلات موسیقی توڑنے کی ضرورت آخر کیوں پیش آئی؟
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر ایسا کوئی واقعہ کراچی، لاہور، اسلام آباد وغیرہ میں کسی فنکار کے ساتھ پیش آتا تو پتہ نہیں پھر کیا ہوتا۔ شائد حکومت بروقت ایکشن لیتی لیکن یہاں تو حکومتی ذمہ داروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ابھی دو تین ماہ پہلے ہندوستان کی مشہور فنکارہ لتا منگیشکر جب اس دنیا سے رخصت ہوئیں تو بھارتی حکومت نے نہ صرف تین دن سرکاری سوگ کا اعلان کیا بلکہ ان کو سرکاری اعزاز کے ساتھ الوداع بھی کیا۔
ہمارے ہاں پہلے تو کوئی فنکار بنتا نہیں اور جب بن جاتا ہے تو ہم اس کو رہنے تو کیا جینے یہاں تک کہ مرنے بھی نہیں دیتے۔ اسی رویہ کی وجہ سے ہمارے ہاں انتہاپسند سوچ زوروں پر ہے، نفرت بڑھ رہی ہے اور معاشرہ تقسیم ہو رہا ہے۔ گلوکار، فنکار اور اداکار تو اپنی زمین اور ملک کے سفیر ہوتے ہیں۔ یہ لوگ خوشیوں اور امن کے گیت گاتے ہیں۔ اگر ہم نے ان کو چھوڑنا نہیں تو پھر اعلان کر دیں تاکہ قصہ ہی ختم ہو جائے۔
صوبائی حکومت بھی عجیب ہی ہے کہ جس نے ابھی تک اس کیس میں کوئی دلچسپی نہیں لی، ورنہ تو بروقت ایکشن لے کر کارروائی کی ضرورت تھی تاکہ پھر کوئی ایسا قدم اٹھانے سے پہلے سو بار سوچے۔
کرن خان ایک اعلی تعلیم یافتہ فنکار ہیں۔ وہ ایک لمبی جدوجہد کے بعد اس مقام تک پہنچے ہیں۔ یورپ اور خلیجی ممالک تک میں ان کے فینز موجود ہیں۔ اس دورِ پُرآشوب میں بھی وہ یہاں رہ رہے ہیں اور اپنی زبان اور موسیقی کی خدمت کر رہے ہیں۔ اگر ان کے ساتھ ایسا ہوتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب وہ بھی ملک کو خیر باد کہہ کر باہر بس جائیں گے۔
خدارا! حکومت ہوش کے ناخن لے، خواب غفلت سے جاگ جائے، آنکھیں کھولے اور دیکھے کہ کیا ہو رہا ہے ان کے ساتھ جو معاشرے میں نرمی کا باعث ہیں، جو معاشرے میں اپنی آواز اور مدھر سروں سے محبت کی خوشبوئیں بکھیر رہے ہیں۔ اگر اسی طرح کچھ مخصوص اذہان کی جانب سے ہمارے کلچر پر وار ہوتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب ہم ثقافتی بانجھ پن کا شکار ہو کر ایک مردہ معاشرہ بن جائیں گے۔