سیاستکالم

ستائیس کے بعد اٹھائیس مارچ: ریل پٹڑی پر آگئی ہے

ماخام خٹک

کبھی کبھار سیاست بھی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی طرح بال ٹو بال یا خبر تا خبر رنگ بدلتی ہے جیسے کہ آج کل ہماری ملکی سیاسی صورت حال خصوصی طور پر عدم اعتماد کی تحریک کے بعد لمحہ بہ لمحہ رنگ ڈھنگ ہی نہیں، آہنگ بھی بدل رہی ہے۔
ایک طرف خبریں آ رہی ہیں کہ ستائیس تاریخ کے بعد لندن سے براستہ قطر اور عمرہ کی پاکیزگی اور آب زم زم سے دھل کر سیدھے اسلام آباد باوضو اور خشوع وخضوع سے آ کر موصوف وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھا کر باقی ماندہ جمہوری وقت کو سہارا دے کر پایہ تکمیل تک لے جائیں گے اور اس کے لئے بڑے زور و شور سے تگ و دو جاری ہے۔
لیکن یہ جو بات نیوٹرل، نیوٹرل کی بار بار ہو رہی ہے یہ بہت خاص اصطلاح ہے اور یہ صرف اصطلاح نہیں بلکہ اس کا استعمال بہت بروقت ہوتا ہے اور کسی بھی جملے، مصرعے، ضرب المثل، محاورے، روزمرے یا تشبیہ کو جب برمحل استعمال کیا جائے تو اس کا وزن، شان اور اہمیت دو بالا ہو جاتی ہے۔

جب آفتاب شیرپاؤ وفاقی وزیر داخلہ تھے تو اس وقت بھی ایک ایسی ہی ستائیس تاریخ آئی تھی، جب ایک صحافی نے اس وقت شیر پاؤ سے پوچھا کہ ستائیس تاریخ کے بعد کیا ہو گا تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ ستائیس تاریخ کے بعد اٹھائیس تاریخ ہو گی۔

تازہ ترین سیاسی ڈیولپمنٹ وزارت دفاع اور جسارت دفاع کے مل بیھٹنے اور سیاسی جنبش اور کچھ اپنوں کو پھر سے اپنانے اور نوازنے کے وعدے وعید اور وسیم اکرم پلس کی سیاسی آئی سی سی کے رینک میں تنزلی کے بعد مائنس کے امکانات نے سب کچھ بدل دیا یا یوں کہہ لیجئے کہ پھر سے جو کچھ ڈی ریل ہونے جا رہا تھا وہ واپس پٹڑی پر آ رہا ہے۔
اب جو انجن سمیت اور کچھ بوگیوں کے پٹڑی سے اترنے کا شور آ رہا تھا وہ اپنی مقناطیسی کشش بحال ہونے سے اپنی چپک پر پھر سے کام کرنے لگیں گی اور یہ ریل اب تمام بوگیوں کے ساتھ خیر سے اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائے گی۔
اب ایک مرتبہ پھر جمہوریت کی جیت اور غیرجمہوری قوتوں کی شکست کا غلغلہ بآواز بلند سیاسی حلقوں میں ارتعاش پذیر ہو گ لیکن اب کی بار یہ سیاسی ریل اپنی انجن کے بل بوتے پر ریل پیل کی سیاسی مسافت طے نہیں کرے گی بلکہ تمام بوگیوں کو ساتھ ساتھ چلانا پڑے گی۔ اب انجن کی آواز، زور، شور اور چال چلن میں نمایاں تبدیلی نظر آئے گی۔
اب اس سیاسی ریل کو ہر سٹیشن پر رکنا پڑے گا، ہر مسافر اور ہر بوگی میں سواری بٹھانے کا اہتمام بڑے صبر و تحمل اور دیکھ بال سے کیا جائے گا۔ باقاعدہ لال اور ہری جھنڈے کا پاس رکھا جائے گا اور پورے تین ہارن بجانے کے بعد اپنی منزل مقصود کی جانب روانہ ہو گی، ورنہ کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے کوئی بھی کسی بھی بوگی سے ایمرجنسی وائر کھینچ سکتا ہے۔ سیاسی حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے وزارت دفاع اور جسارت دفاع کی چہل پہل نے رکی ہوئی اور سیاسی انجماد میں پھنسی ہوئی فضا میں ایک بار پھر سے جان ڈال دی ہے۔ اب عدم اعتماد کو پرعزم اعتماد میں بدلنے کی اچھی خبریں سیاسی آسمان افق پر شفق خیز ہو رہی ہیں اور آنے والی کل کی اچھی امید اور اچھی نوید کی علامت بن کر سامنے آ رہی ہیں۔

اس تبدیلی کو سیاسی حلقوں میں بلا کسی جھکاؤ کے اثر رسوخ رکھنے والوں کے ہاں قدر کی نگاہ سے دیکھا اور ایک جمہوری پروسیس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے اس عمل کو سراہا بھی جا رہا ہے تاکہ کل کلاں پھر کوئی یہ نہ کہے کہ ان کو اپنی باری یا اپنی اننگز کھیلنے کا پورا موقع ہی نہیں دیا گیا اورامپائر نے انہیں غلط طریقے اور غلط وقت پر آوٹ دے کر پویلین کی راہ دکھائی۔

لیکن طنز کرنے والے اب بھی اسـسٹیٹس کو، کو یہ کہہ کر متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پھر اُس فریق کا کیا ہو گا جس نے لندن سے براستہ قطر، عمرہ اور آب زم زم سے دھل کر آنا اور سیدھے اسلام آباد میں اتر کر وزیراعظم کا حلف لینا تھا تو اس پر ایک لطیفہ ذہن میں آ رہا ہے۔

ایک گاؤں میں کوئی بڑا افسر آ رہا تھا، گاؤں کے وڈیرے نے صبح سے لوگوں کو نہا دھو کر اچھے صاف ستھرے اور نئے کپڑے پہن کر آنے کے لئے کہا تھا۔ گاؤں کے لوگوں نے سارا دن افسر کا انتظار کیا لیکن شام پتہ چلا کہ افسر نہیں آ رہے تو گاؤں والوں میں سے ایک نے بڑے مایوسانہ انداز میں گلہ کیا کہ ” بلاوجہ نئے کپڑے بھی پہنائے اور افسر بھی نہیں آیا۔”
لگتا ہے عمران خان بال ٹو بال بدلتے سیاسی ٹی ٹوئنٹی کھیل کی صورت حال سے بال بال بچ کر نکل گئے ہیں اور اب کی بار شیرپاؤ کے بجائے فواد چوھدری اب کسی صحافی کے سوال "ستائیس مارچ کے بعد کیا ہو گا” کے جواب میں یہ کہنے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں کہ بولیں "ستائیس مارچ کے بعد اٹھائیس مارچ ہو گی ـ”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button